کوئٹہ، ایرانی سفیر ڈاکٹر رضا مقدم کی وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
ملاقات میں ایرانی سفیر نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو ایران کے دورے کی دعوت دی۔ اسکے ساتھ ہی ایرانی سفیر نے بلوچستان کے طلباء کیلئے اسکاپرشپس اور تاجروں کیلئے مزید مواقع فراہم کرنیکی پیشکش کی۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر ڈاکٹر رضا امیری مقدم کے درمیان آج چیف منسٹر سیکرٹریٹ میں کوئٹہ میں ملاقات ہوئی۔ جس میں پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی، تعلیمی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایرانی وفد کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان صدیوں پرانے دیرینہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دونوں ممالک ہمیشہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں برابر کے شریک رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین تجارتی، ثقافتی اور سماجی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ملاقات میں ایرانی سفیر نے تجارتی حجم میں اضافے، تعلیمی اسکالرشپس اور ٹیکنیکل ایجوکیشن سمیت سماجی ترقی کے مختلف شعبوں میں تعاون کی پیشکش کی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان اور ایران کے درمیان مختلف سطح پر وفود کے تبادلے اور تجارتی روابط کو مزید فروغ دیا جائے گا۔ غیر قانونی اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے مؤثر اقدامات کئے جائیں گے اور تاجروں کو درپیش مسائل کا پائیدار حل تلاش کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے ملحقہ بارڈر کے مسائل کو مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر حل کرنے کی کوشش کی جائے گی، تاکہ تجارت پیشہ افراد کو سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ سرفراز بگٹی نے کہا کہ خطے میں امن و امان کے قیام سے تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور اسمگلنگ کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں ایک اجلاس بھی منعقد کیا جائے گا۔ جس میں چیمبرز آف کامرس کے نمائندوں کو مدعو کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایرانی تاجروں کے لئے سہولتوں کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ کسی بھی قانونی تجارتی کنٹینر یا ٹرک کو بلوچستان میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں ہوگا۔ ایسی مشکلات کے بروقت ازالے کے لئے ایرانی قونصلیٹ اپنا رابطہ کار مقرر کرے، جو تاجر پیشہ افراد کی معاونت کے لئے صوبائی حکومت کے متعلقہ حکام سے رابطے میں رہے۔ اس موقع پر ایرانی سفیر نے تعلیمی اسکالرشپس کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ ایران پاکستان کے طلبہ کے لئے مختلف پروگرامز شروع کرنے کا خواہاں ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے اس پیشکش کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایرانی قونصلیٹ اور حکومت بلوچستان کے حکام مل کر اسکالرشپ پروگرام کے لئے لائحہ عمل تیار کریں گے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس پیشکش کے تحت کوئٹہ میں مقیم ہزارہ کمیونٹی کے لئے بھی خصوصی تعلیمی اسکالرشپ پروگرام بھی شروع کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار بینظیر بھٹو اسکالرشپ پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ جس کے تحت طلبہ کو دنیا بھر کی دو سو ممتاز جامعات میں اعلیٰ تعلیم کے لئے اسکالر شپ دی جا رہی ہیں۔ فنی تربیت اور روزگار کی فراہمی صوبائی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں نے ایرانی سفیر کی دعوت پر ایران کے دورے کی دعوت قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ جلد ہی وفد کے ہمراہ ایران کا دورہ کریں گے۔ ملاقات کے دوران ایرانی سفیر نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو سیستان میں بلوچ گورنر کی تقرری سے متعلق آگاہ کیا۔ جس پر وزیراعلیٰ نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے نیک شگون قرار دیا۔ ملاقات کے اختتام پر دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا اور سوئنیرز کا تبادلہ کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایرانی سفیر نے ہوئے کہا کہ کیا جائے گا کے درمیان تعلقات کو نے کہا کہ ایران کے کے لئے
پڑھیں:
ایران میں اقتصادی بحران سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) ایرانی ریال ایک سال کے اندر اندر اپنی نصدف سے زیادہ قدر کھو چکا ہے۔ مارچ 2024 میں ایک امریکی ڈالر چھ لاکھ ایرانی ریال کے برابر تھا۔ لیکن گزشتہ ماہ یہ شرح تبادلہ ایک ملین ریال فی ڈالر سے بھی زیادہ ہو گئی۔ ایرانی کرنسی کی قدر میں اتنی زیادہ کمی نے ملک میں مہنگائی کو مزید ہوا دی اور درآمدی اشیاء کا حصول اور بھی مشکل ہو گیا۔
یہ شدید مہنگائی ایران میں کم آمدنی والے شہریوں اور متوسط طبقے پر بہت زیادہ اضافی بوجھ کی وجہ بنی ہے۔وسطی جرمنی کے شہر ماربرگ کی یونیورسٹی کے مشرق قریب اور مشرق وسطیٰ کے علوم کے مرکز سے منسلک ماہر اقتصادیات محمد رضا فرزانگان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا، ''معاشی بے یقینی کی صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ اخراجات زندگی کے بارے میں خدشات زیادہ سامنے آ رہے ہیں اور سماجی سطح پر سیاسی اشتراک عمل کم ہوتا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
اقتصادی حوالے سے لیکن یہ بات مشکوک ہے کہ بین الاقوامی سیاسی دباؤ کے ذریعے جن مقاصد کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے، انہیں مڈل کلاس کو کمزور کر کے حاصل یا آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘ایران: کرنسی اصلاحات سے مہنگائی روکنے کی کوشش کیا ہے؟
محمد رضا فرزانگان نے حال ہی میں ایک نئی تحقیق بھی مکمل کی، جس کے لیے انہوں نے امریکہ میں برینڈیز یونیورسٹی کے ایک ماہر تعلیم نادر حبیبی کے ساتھ مل کر کام کیا۔
انہوں نے ڈی ڈؓبلیو کو بتایا کہ یہ نئی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ایران کے خلاف 2012 سے عائد بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں نے وہاں مڈل کلاس کی ترقی کی راہ میں بہت زیادہ رکاوٹیں ڈالی ہیں۔ تہران کے خلاف یہ پابندیاں ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کی وجہ سے لگائی گئی تھیں۔ ان کے ذریعے ایران پر اقتصادی اور سیاسی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی گئی اور ایران کو ان پابندیوں کا سامنا آج بھی ہے۔ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اگر ایران پر یہ بیرونی پابندیاں نہ لگائی جاتیں، تو اس ملک کی آبادی میں متوسط طبقے کا حجم ہر سال اوسطاﹰ گیارہ فیصد کی شرح سے بڑھتا رہتا۔
پابندیوں سے فائدہ ریاست سے جڑے اداروں کوفرزانگان کا کہنا ہے کہ ایران میں متوسط طبقے کے سکڑتے جانے سے ریاست سے وابستہ اداروں پر معاشی انحصار بہت بڑھ چکا ہے۔
ایران کی کئی نجی کمپنیوں کو بھی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایسے میں ریاست سے وابستہ ادارے، خاص طور پر وہ جو پاسداران انقلاب سے تعلق رکھتے ہیں، ہمیشہ فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ایسے پیداواری اور تجارتی اداروں نے اپنے لیے متبادل تجارتی نیٹ ورکس کو وسعت دینے کے طریقے تلاش کر لیے ہیں اور مارکیٹ میں اپنی پوزیشن بھی مضبوط بنا لی ہے۔ اس طرح ان پابندیوں کے نتیجے میں ایرانی نجی شعبے کے مقابلے میں ریاست کی اقتصادی طاقت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
ایرانی تیل کی اسمگلنگ پاکستانی معیشت کے لیے کتنی مضر ہے؟
امریکہ کی الینوئے یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات ہادی صالحی اصفہانی کے مطابق ایرانی خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ دباؤ میں ہیں۔ ان کے لیے معاشی چیلنجوں کا سامنا کرنا، خاص کر ملازمتوں کی تلاش اور روزی کمانا اب بہت مشکل مرحلہ بنتا جا رہا ہے۔
ایرانی لیبر مارکیٹ کے بارے میں محمد رضا فرزانگان کی تازہ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ کم اقتصادی ترقی اور کساد بازاری کے ساتھ ساتھ کئی ثقافتی عوامل اور روایتی رول ماڈل بھی ایرانی خواتین کے لیے ملازمتوں کے حصول کو مشکل بنا رہے ہیں۔ مثلاﹰ یہ روایتی سوچ بھی کہ کسی بھی خاندان کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ مردوں کو ہی ہونا چاہیے۔ یہ سب عوامل مل کر خواتین کو ایرانی لیبر مارکیٹ سے باہر دھکیلتے جا رہے ہیں۔
فرزانگان کے مطابق آئندہ مہینوں میں صورتحال میں بہتری کے امکانات کم اور خرابی کے خدشات زیادہ ہیں۔ اس لیے بھی کہ امریکی صدر ٹرمپ تہران حکومت پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی بحالی کے لیے قومی سلامتی کے ایک ایسے صدارتی میمورنڈم پر دستخط کر چکے ہیں، جس کا مقصد ایرانی تیل کی برآمدات کو مزید کم کرنا ہے، جو ایرانی ریاست کے لیے آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔
ایران نے ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم 'برکس' میں شمولیت کی درخواست دی دے
تہران توانائی کے شعبے میں مالی اعانتوں میں کمی کی تیاری میںایرانی حکومت نے اس اضافی دباؤ کے باعث توانائی کے شعبے میں مالی اعانتوں میں کمی کے ذریعے ریاستی اخراجات کم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ایرانی بزنس رپورٹر مہتاب قلی زادہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس اقدام سے بھی اقتصادی صورتحال میں بہتری کا کوئی حقیقی امکان نہیں۔
قلی زادہ کے مطابق، ''21 مارچ کو شروع ہونے والے نئے فارسی سال کے بجٹ میں حکومت نے تیل کی برآمدات کا ہدف دو ملین بیرل روزانہ رکھا ہے۔ تاہم ٹرمپ کے دور صدارت میں ایسا ہونا تقریباﹰ ناممکن ہے۔‘‘
ایران امریکا کشیدگی: بھارت کو کونسے خطرات لاحق ہیں؟
مہتاب قلی زادہ نے کہا کہ ایرانی بجٹ میں خسارہ بڑھنے کے امکان اور سبسڈی میں کمی کے خاتمے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی ایک نئی بڑی لہر دیکھنے میں آئے۔
حالیہ برسوں میں ایرانی عوام میں ملکی سیاسی نظام کے خلاف عدم اطمینان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیے وہاں 2019 اور 2022 میں بڑے پیمانے پر عوامی اجتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے، جنہیں سختی سے دبا دیا گیا تھا۔
ماہر اقتصادیات فرزانگان کے الفاظ میں، ''لازمی نہیں کہ عوامی عدم اطمینان میں اضافہ حکومت پر منظم سیاسی دباؤ کی وجہ بھی بنے۔
اس لیے کہ جو گھرانے معاشی طور پر کمزور ہو چکے ہیں، ان کے پاس تو سیاسی سطح پر متحرک ہونے کے لیے مالی وسال بہت ہی کم ہیں۔‘‘امریکی پابندیوں کے باوجود ایران تیل بیچ رہا ہے، ایرانی نائب صدر
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ متوسط طبقے کو کمزور کر دینے والی بین الاقوامی پابندیاں حکومت پر خود بخود ہی مزید دباؤ کی وجہ نہیں بنیں گی۔ ''اس کے برعکس ایسی پابندیاں سیاسی طور پر سرگرم سماجی طبقات کی معاشی بنیادیں کمزور کرتی اور سیاسی نظام کی طاقت میں نسبتاﹰ اضافہ کر دیتی ہیں۔‘‘
شبنم فان ہائن (عصمت جبیں)