بائیڈن دور میں امریکہ، اتحادیوں کے قدم مضبوط ہوئے، سلیوان
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جنوری 2025ء) ڈیموکریٹ صدر جو بائیڈن کے وائٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد ان کی قیادت میں امریکہ نے ایک مختلف خارجہ پالیسی اپنائی تھی اور مقصد یہ تھا کہ واشنگٹن اور امریکہ کے اتحادیوں کے باہمی روابط میں اس کھچاؤ اور ٹوٹ پھوٹ کا تدارک کیا جائے، جو بائیڈن کے پیش رو ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار کی پہلی چار سالہ مدت کے دوران ان کی ''سب سے پہلے امریکہ‘‘ کے نعرے کے ساتھ کی جانے والی سیاست کا نتیجہ تھے۔
ٹرمپ ایران کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اس کی جوہری ہتھیار سازی روک سکتے ہیں، انٹونی بلنکن
جب بائیڈن صدر بنے، تو دنیا کو کئی طرح کے بحرانوں کا سامنا تھا۔ مثلاﹰ کورونا وائرس کی ''صدی کی بدترین عالی وبا‘‘ اور کچھ ایسے دیگر واقعات اور فیصلے جو بائیڈن کی صدارت کے لیے امتحان ثابت ہوئے۔
(جاری ہے)
مثال کے طور پر افغانستان سے امریکہ کا جلدی میں مکمل کیا جانے والا بے ہنگم فوجی انخلا، 2022ء میں روس کی طرف سے یوکرین میں فوجی مداخلت جو اب تک جاری روسی یوکرینی جنگ کا باعث بنی، اور پھر اکتوبر 2023ء میں حماس کا اسرائیل میں وہ دہشت گردانہ حملہ، جو غزہ پٹی کی ابھی تک ختم نہ ہونے والی جنگ کی وجہ بنا۔
بائیڈن کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ ان کی پس رو بھیاب جب کہ جو بائیڈن اپنی چار سالہ مدت صدارت پوری کر کے عنقریب اپنے عہدے اور وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے والے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ صرف ایک ہی مدت کے لیے امریکہ کے صدر رہے، لیکن اس عرصے نے عالمی منظر نامے پر امریکہ کی حیثیت اور واشنگٹن کے اتحادیوں کی نظر میں امریکہ کی ساکھ کی بحالی اور اس کے قابل اعتماد ہونے پر دیرپا اثرات مرتب کیے۔
صدر بائیڈن نے اپنے بیٹے ہنٹر کے مجرمانہ الزامات معاف کر دیے
یہی پیغام صدر جو بائیڈن کی اس تقریر کا مرکزی نقطہ بھی ہو گا، جو وہ واشنگٹن کے مقامی وقت کے مطابق آج پیر 13 جنوری کی سہ پہر امریکی خارجہ پالیسی اور اپنی سیاسی میراث کے موضوع پر کرنے والے ہیں۔
سیاسی طور پر جو بائیڈن کے لیے اہم بات یہ بھی ہے کہ ان کے پیش رو صدر ٹرمپ ان کے پس رو صدر بھی ہوں گے اور وہ دوبارہ اپنی وہی سیاست کریں گے، جس کے ڈیموکریٹس کے مطابق منفی اثرات کا ازالہ کرنے کی بائیڈن انتظامیہ نے چار سال تک کوشش کی۔
ٹرمپ کی جیت کے بعد بائیڈن کا اقتدار کی 'پرامن' منتقلی کا وعدہ
جو بائیڈن کے امریکی خارجہ پالیسی میں کامیابیوں سے متعلق دعوؤں پر ایک مختلف سایہ بھی چھایا ہوا ہے۔ وہ یہ کہ امریکہ میں رائے عامہ زیادہ تر ٹرمپ ہی کے حق میں ہے اور اسی لیے وہ گزشتہ نومبر میں ہونے والا صدارتی الیکشن جیتنے میں کامیاب بھی ہو گئے تھے۔ مزید یہ کہ اب امریکی سیاست اور دنیا کو ایک بار پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ اور دنیا کے بارے میں زیادہ تحفظ پسندانہ یا پروٹیکشنسٹ رویوں کا سامنا کرنا ہو گا۔
بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر سلیوان کا موقفبائیڈن دور میں اب تک وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے پر فائز رہنے والے جیک سلیوان نے اس حوالے سے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''حقیقی سوال یہ ہے کہ آیا دنیا کو اب واقعی یقین ہے کہ قومی مضبوطی کو پیش نظر رکھتے ہوئے امریکہ آج بھی ایک عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن ہے، جس پر کسی کو کوئی شبہ نہیں؟‘‘
امریکی صدر کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے؟
جیک سلیوان کے الفاظ میں، ''چار سال پہلے جب ہم نے اقتدار سنبھالا، تو شاید بہت سے لوگوں کی رائے یہ تھی کہ یہ ہیوی ویٹ چیمپئن چین تھا۔
لیکن آج تو کوئی بھی ایسا نہ کہہ رہا ہے اور نہ سوچ رہا ہے۔‘‘بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کئی طرح کے زیر و بم سے عبارت گزشتہ چار برسوں میں صدر جو بائیڈن کی قیادت میں امریکہ نے دنیا کو اور واشنگٹن کے اتحادیوں کو اس مضبوط اور مستحکم ہاتھ کی پیشکش کی، جس نے گزشتہ نقصانات کا ازالہ کیا اور آج امریکہ اور اس کے اتحادی دونوں ہی عالمی منظر نامے پر مضبوط اور جمے ہوئے قدموں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
امریکی سیاست کبھی بھی 'قتل کا میدان' نہیں بننا چاہیے، بائیڈن
روسی یوکرینی جنگ اور غزہ پٹی میں جاری اسرائیل اور حماس کی جنگ کے خاتمے اور سیاسی اقتصادی حوالے سے امریکہ کو دوبارہ عالمی منظر نامے پر مرکز ہی میں رکھنے کی کوشش کے حوالے سے دوبارہ صدر بن کر ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کے بعد کس طرح کے عملی اقدامات کرتے ہیں، یہ حقیقت بھی تقریباﹰ ایک ہفتے بعد واضح ہونا شروع ہو جائے گی۔
م م / ر ب (اے پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جو بائیڈن کے ڈونلڈ ٹرمپ میں امریکہ دنیا کو کے ساتھ
پڑھیں:
چینی، بھارتی طلبا کی ویزا قوانین پر ٹرمپ کے خلاف قانونی جنگ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) امریکہ میں تین بھارتی اور دو چینی طلباء نے ملک کے ہوم لینڈ سکیورٹی ڈپارٹمنٹ اور امیگریشن کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ ان طلباء نے امریکہ کی جانب سے کئی غیر ملکی اسٹوڈنٹس کے ایف ون ویزا منسوخ کیے جانے کے بعد یہ قدم اٹھایا۔
نیو ہمسفائیر کے ڈسٹرکٹ کورٹ میں امریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے میں ٹرمپ انتظامیہپر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ "یکطرفہ طور پر سینکڑوں بین الاقوامی طلباء کے ایف ون ویزا اسٹیٹس کو منسوخ کر رہے ہیں۔
"مقدمہ آخر ہے کیا؟
ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف طلباء کی اس قانونی جنگ میں ان کا موقف ہے کہ انہیں نا صرف ملک بدری یا ویزا کی منسوخی کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ انہیں "شدید مالی اور تعلیم کے حرج" کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
(جاری ہے)
اس مقدمے میں کہا گیا کہ حکومت نے غیر ملکی طالب علموں کے ویزا کی قانونی حیثیت ختم کرنے سے پہلے مطلوبہ نوٹس جاری نہیں کیا۔
درخواست دینے والے طلباء میں چینی شہری ہانگروئی ژانگ اور ہاویانگ این اور بھارتی شہری لنکتھ بابو گوریلا، تھانوج کمار گمماداویلی اور مانی کانتا پاسولا شامل ہیں۔
ان طلباء کو ویزا کی منسوخی کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ہانگروئی کی ریسرچ اسسٹنٹشپ منسوخ ہوئی ہے۔ ہاویانگ کو تقریباﹰ ساڑھے تین لاکھ ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی شاید اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑنی پڑے۔
گوریلا 20 مئی کو اپنی ڈگری مکمل کرنے والا ہے، لیکن ایف ون ویزا کے بغیر وہ ایسا نہیں کر سکے گا۔
امریکہ میں بین الاقوامی طلباء کے مسائل کیا ہیں؟
ٹرمپ انتظامیہ کی اسٹوڈنٹ ویزا پالیسیوں میں سختی پر بین الاقوامی طلباء، تعلیمی اداروں اور قانونی ماہرین کو شدید تشویش ہے۔
امریکہ میں پڑھنے والے طلباء میں سب سے زیادہ تعداد چینی اور بھارتی اسٹوڈنٹس کی ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کو دیے گئے تعلیمی اداروں کے بیانات اور اسکول کے حکام کے ساتھ خط و کتابت کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ مارچ کے آخر سے امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایک ہزار سے زیادہ بین الاقوامی طلباء کے ویزے منسوخ یا ان کی قانونی حیثیت ختم کر دی گئی ہے۔
ادارت: عرفان آفتاب