برطانیہ میں جنسی جرائم کی آڑ میں پاکستانی نژاد شہریوں کے خلاف برطانوی پارلیمان اور میڈیا میں ہونے والی تنقید پر ترجمان دفتر خارجہ نے اپنا ردعمل دے دیا۔

دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات باہمی اعتماد، گرم جوشی اور فقیدالمثال دوطرفہ تعاون پر مبنی ہیں۔ دونوں ملکوں کے گہرے اور ہمہ جہت تعلقات، تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم، سیکیورٹی، انسداد دہشتگردی، عوامی رابطوں اور پارلیمانی تعاون پر مشتمل ہیں۔ برطانیہ میں 17 لاکھ پاکستانی نژاد شہریوں کی موجودگی دونوں ملکوں کے بہتر تعلقات کی مظہر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں 52 سال پرانا ’مسنگ پرسن‘ کیس کیسے حل ہوا؟

دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ افسوسناک امر یہ ہے کہ چند افراد کے مبینہ جرائم کی بنیاد پر برطانوی میڈیا اور سیاست میں نسل پرستانہ اور اسلاموفوبیا کی بنیاد پر کیے جانے والے تبصروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں نے برطانیہ کی ترقی، اضافے اور آزادی کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ پاکستان سے مسلمان سپاہیوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے 2 جنگ عظیم میں جمہوریت کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

اس وقت پاکستانی نژاد برطانوی، برطانوی نظام صحت، ریٹیل اور سروسز کے شعبے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کئی پاکستانی نژاد برطانوی اعلٰی عوامی عہدوں پر فائز جبکہ ہزاروں بطور اراکین پارلیمان، کونسلرز، میئرز، پولیس آفیسرز اور شہری خدمات کے شعبوں میں برطانیہ کی خدمت کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیے: خواتین کے خلاف جنسی اور جسمانی تشدد، ایک سنگین عالمی بحران

برطانوی نژاد پاکستانی شہریوں نے کھیلوں اور فنون لطیفہ میں بھی نام روشن کیا ہے۔ پاکستانی کھانے اور ثقافت برطانوی ثقافت کو مزید متنوع بناتے ہیں۔ ایک بہت بڑی کمیونٹی کو چند افراد کے مبینہ جرائم کی بنیاد پر مطعون کیے جانے کے عمل کی مذمت کی جانی چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

برطانیہ برطانیہ میں جنسی جرائم برطانیہ میں جنسی جرائم اور پاکستانی دفتر خارجہ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: برطانیہ برطانیہ میں جنسی جرائم برطانیہ میں جنسی جرائم اور پاکستانی دفتر خارجہ پاکستانی نژاد برطانوی برطانیہ میں دفتر خارجہ

پڑھیں:

پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری پر تشویش ہے، افغان وزیر خارجہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اپریل 2025ء) پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے آج افغانستان کے دارالحکومت کابل پہنچنے کے بعد طالبان انتظامیہ کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق اعلیٰ سطحی مذاکرات میں 'سلامتی سمیت دو طرفہ مسائل کو مثبت ماحول میں حل کرنے کے لیے بات چیت جاری رکھنے' پر اتفاق کیا گیا۔

وزارت خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا کہ اسحاق ڈار نے علاقائی تجارت اور رابطے کے فوائد کو مکمل طور پر حاصل کرنے کے لیے خاص طور پر سکیورٹی اور بارڈر مینجمنٹ سے متعلق مسائل کو حل کرنے کی بنیادی اہمیت پر زور دیا۔ اس کے علاوہ دونوں فریقوں نے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور اعلیٰ سطحی روابط کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر بھی اتفاق کیا۔

(جاری ہے)

پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا معاملہ

پاکستان کے وزیر خارجہ طالبان حکام سے ملاقات کے لیے ایسے وقت میں افغانستان پہنچے ہیں جب ان کی حکومت نے صرف دو ہفتوں میں 85,000 سے زائدافغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے جمعہ کو کہا کہ ان میں سے نصف سے زیادہ بچے تھے۔ وہ ایک ایسے ملک میں داخل ہو رہے ہیں جہاں لڑکیوں پر سیکنڈری اسکول اور یونیورسٹی جانے پر پابندی ہے اور خواتین کو کام کے کئی شعبوں سے روک دیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کے دوران افغان شہریوں کی پاکستان سے ملک بدری پر 'گہری تشویش' کا اظہار کیا۔

افغان وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ضیاء احمد نے ایکس پر کہا، "متقی نے پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی جبری ملک بدری کی صورت حال پر گہری تشویش اور مایوسی کا اظہار کیا اور پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ وہاں مقیم افغانوں اور یہاں آنے والوں کے حقوق کو دبانے سے گریز کریں۔

" احمد نے مزید کہا کہ پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے افغان حکام کو یقین دلایا کہ افغان باشندوں کے ساتھ "بدسلوکی نہیں کی جائے گی۔"

اسلام آباد نے اپریل کے آخر تک 800,000 سے زائد ایسے افغان باشندوں کو واپس بھیجنے کے لیے ایک سخت مہم شروع کی ہے جن کے رہائشی اجازت نامے منسوخ ہو چکے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے افغان بھی ہیں جو پاکستان میں پیدا ہوئے تھے یا کئی دہائیوں سے وہاں مقیم تھے۔

'سرحد پار دہشت گردی' پر پاکستان کے تحفظات

پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کابل دورے کے دوران افغانستان کے عبوری وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند سے بھی ملاقات کی۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق بات چیت میں سلامتی و تجارت جیسے معاملات پر گفتگو کی گئی۔

افغانستان روانگی سے قبل سرکاری میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے خدشات ہیں، اور اس معاملے پر افغان فریق سے بات چیت کی جائے گی۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں حالیہ تناؤ کی بڑی وجہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حملے اور دہشت گردی کے بڑھتے واقعات ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ سال پچھلی ایک دہائی کے دوران سب سے مہلک رہا۔ اسلام آباد کی طرف سے کابل پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کو افغانستان میں پناہ لینے کی اجازت دے رہے ہیں۔ پاکستان کا دعوٰی ہے کہ دہشت گرد وہاں سے پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ طالبان حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔

ادارت: عاطف بلوچ

متعلقہ مضامین

  • بوسٹن میراتھون، تمام 18 پاکستانی رنرز نے دوڑ مکمل کی
  • قونصلیٹ جنرل حکومت اور اوورسیزپاکستانیوں کے درمیان موثر رابطہ کاری کا ذریعہ ہے، مصباح نورین
  • نائب وزیرِ اعظم یو اے ای شیخ عبداللّٰہ بن زاید کی دفترِ خارجہ آمد، اسحاق ڈار نے استقبال کیا
  • روانڈا کے وزیر خارجہ کی دفتر خارجہ آمد، اسحاق ڈار نے استقبال کیا
  • ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں تمام شہریوں کو مساوی حقوق ملیں، بلاول بھٹو
  • کراچی: شہریوں کے تشدد سے 3 پولیس اہلکار زخمی
  • جمہوریہ روانڈا کے وزیر برائے خارجہ امور پاکستان کا دورہ کریں گے
  • امریکہ اور اسرائیل آنے والے دنوں میں بڑے سرپرائز کی توقع کریں، انصار اللہ
  • پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری پر تشویش ہے، افغان وزیر خارجہ
  • بنگلہ دیش نے 1971 کے واقعات پر معافی اور معاوضے کا مطالبہ کیا ہے، پاکستان