UrduPoint:
2025-04-22@06:14:45 GMT

بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں زہریلی گیس کے بڑھتے حادثات

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں زہریلی گیس کے بڑھتے حادثات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جنوری 2025ء) رواں ماہ کی چھ تاریخ کو کوئٹہ کے قریب سنجدی کے علاقے میں بھی ایک کان میں میتھین گیس کے ایک دھماکے کے باعث 12 کان کن ہلاک ہو گئے تھے۔ ہلاک شدگان کی لاشیں ریسکیو کارکنوں نے چار ہزار فٹ سے زائد کی گہرائی سے نکالی تھیں۔

پاکستان: عسکریت پسندوں نے 16 مزدور یرغمال بنا لیے

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ برس جنوری سے لے کر اب تک کوئلے کی مختلف کانوں میں پیش آنے والے 52 مہلک حادثات میں کم از کم 92 کان کن ہلاک ہوچکے ہیں۔

ان کانوں میں ہزاروں ایسے افراد بھی کام کرتے ہیں، جن کا تعلق ہمسایہ ملک افغانستان کے علاوہ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے علاقوں شانگلہ، سوات، مالاکنڈ، دیر اور درہ آدم خیل جیسے علاقوں سے ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

کوئلے کی کانوں میں حفاظتی انتظامات کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟

بلوچستان کے چیف انسپکٹر مائنز عبدالغنی شاہوانی کہتے ہیں کہ کوئلے کی نجی کانوں میں بہتر حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے اب ایک خصوصی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالغنی شاہوانی نے کہا، ''بلوچستان میں اکثر نجی کمپنیوں کی طرف سے کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی حفاظت کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جاتے۔ کان مالکان زیادہ منافع کے لیے حفاظتی انتظامات پر توجہ نہیں دیتے۔‘‘

بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں رقص کرتی موت

صوبے کے چیف انسپکٹر مائنز نے بتایا، ''بلوچستان میں کوئلے کی بیشتر کانیں ایسی ہیں، جن میں ہنگامی حالات میں کارکنوں کے لیے انخلا کے راستوں، آکسیجن سپلائی اور فوری طبی امداد کی بنیادی سہولیات تک دستیاب نہیں۔

قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی میں ملوث ایسی کانوں کے مالکان کے خلاف ضابطے کی کارروائی اب بھی تسلسل کے ساتھ کی جاتی ہے، تاہم اب حکومت ایک ایسا نیا قانون لا رہی ہے، جس کے نفاذ سے ایسی کانوں کے مالکان کے خلاف فوری کارروائی ممکن ہوسکے گی۔‘‘

عبدالغنی شاہوانی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی چار ہزار سے زائد کوئلے کی کانوں میں مجموعی طور پر 82 ہزار کے قریب کان کن کام کرتے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہاں کوئلے کی کان کنی کے لیے 132 کمپنیوں نے اپنی رجسٹریشن کروا رکھی ہے۔ کچھ لوگ انفرادی طور پر بھی یہ کام کرتے ہیں۔کوئلے کی کانوں میں لازمی حفاظتی انتظامات کو نظر انداز کرنے والے مالکان کے خلاف گزشتہ برس 90 سے زائد مقدمات درج کیے گئے تھے۔ قانونی پیچیدگیوں کے باعث بعض مقدمات میں نامزد کردہ ملزمان بری بھی ہو گئے تاہم ہماری طرف سے یہ کارروائیاں مسلسل جاری رہتی ہیں۔

‘‘

ہرنائی: کوئلے کی کان میں دھماکہ، 12 مزدور ہلاک

صوبائی چیف انسپکٹر مائنز کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کوئلے کی سالانہ پیدوار 30 سے 40 لاکھ ٹن کے قریب ہے تاہم گزشتہ سال یہ مجموعی پیداوار صرف 29 لاکھ ٹن رہی۔

ملک میں محفوظ کان کنی کے ضوابط نظر انداز کیوں؟

پاکستان میں کان کنوں کی نمائندہ تنظیم کے رہنما احسان اللہ مومند کہتے ہیں کہ ملک میں قوانین کی کوئی کمی نہیں، اصل مسئلہ ان قوانین پر عمل درآمد کا ہے۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے احسان اللہ مومند نے کہا، ''بلوچستان میں کان کنی کی صنعت مائن ورکرز پر حملوں اور قطعی غیر یقینی صورتحال سے شدید متاثر ہو رہی ہے۔ گزشتہ برس ہونے والے حملوں سے دکی، شاہرگ، ہرنائی اور دیگر علاقوں سے بڑے پیمانے پر غیر مقامی مزدور کام چھوڑ کر چلے گئے۔ سکیورٹی خدشات کے باعث صوبے میں کان کن اب خود کو بہت غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔

‘‘

احسان اللہ مومند کا کہنا تھا کہ کوئلے کی کانوں میں اکثر مزدور بنیادی حفاظتی انتظامات کے بغیر کام کرتے ہیں اور انہیں کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی بھی کوئی تربیت نہیں دی جاتی۔

کوئلے کی کانیں اور پاکستان کے مزدور بچے

مومند کے بقول، ''بلوچستان میں کوئلے کی سب سے زیادہ پیداوار دکی کے علاقے میں ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ کوئٹہ، شاہرگ، ہرنائی، مچھ اور دیگر علاقوں سے نکالے جانے والے کوئلے کی پیداوار میں بتدریج کمی اس لیے ہو رہی ہے کہ وہاں حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ حکومت ان مائنز میں دستیاب حفاظتی انتظامات کی کوئی باقاعدہ مانیٹرنگ نہیں کرتی۔ لیکن جب کوئی حادثہ پیش آتا ہے، تو حکومتی ادارے فوراﹰ حرکت میں آ جاتے ہیں۔‘‘ کان کنی کی صنعت کو درپیش بحرانوں کی بنیادی وجوہات

اسلام آباد میں مقیم ماہر ارضیات نور رحمٰن کہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی انتہائی بوسیدہ ہے اور ملک میں کوئلے کی 85 فیصد سے زائد کانوں میں کان کنی آج بھی روایتی طریقوں سے کی جا رہی ہے۔

پاکستان میں کوئلے کی کان بیٹھ گئی، تئیس کان کن ہلاک

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''کوئلے کی کان کنی کی صنعت ہمارے ہاں ہمیشہ بحرانوں سے دوچار رہی ہے۔ اس صورتحال کے بنیادی عوامل میں ناکامی حفاظتی اقدامات، جدید تکنیکی آلات کی کمی اور حکومتی سطح پر مؤثر ریگولیشن کی عدم دستیابی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں اور خاص کر بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں جان لیوا حادثات اور ان کے نقصان دہ اثرات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

‘‘

نور رحمٰن کا کہنا تھا کہ کان کنی کے شعبے کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کے لیے مرکزی سطح پر مؤثر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔

بلوچستان میں کان کنی: ہماری شرکت کے بغیر نہیں، کوئٹہ حکومت

انہوں نے کہا، ''پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں حفاظتی انتظامات کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کے لیے کم از کم بھی 50 بلین روپے سے لے کر 60 بلین روپے تک کی خطیر رقم درکار ہے۔

کوئلے کی صنعت توانائی کی ملکی ضروریات پورا کرنے میں اہم کردارادا کر رہی ہے۔ اس شعبے میں دور حاضرکے تقاضوں کے مطابق بڑی سرمایہ کاری کی فوری ضرورت ہے۔‘‘

ماہرین نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں اگر مائنز ایکٹ 1923 اور مائنز رولز 2004 پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، تو ملک میں کوئلے کی کان کنی کی صنعت کو درپیش بہت سے سنگین مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں کوئلے کی کانوں میں حفاظتی انتظامات میں کوئلے کی کان کان کنی کی صنعت کا کہنا تھا کہ کام کرتے ہیں پاکستان میں میں کان کن ملک میں کے لیے رہی ہے نے کہا

پڑھیں:

بلوچستان کا بحران اور نواز شریف

بلوچستان کے حالات میں بہتر تبدیلی لانے کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہیں ۔ حکمت عملی کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ طاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی حکمت عملی کا بھی بھرپور استعمال کیا جائے۔ بلوچستان کے حالات اسی صورت میں بہتر ہوں گے جب ہم سیاسی حکمت عملی کو بالادستی دیں گے ، یہ ہی حکمت عملی ریاستی رٹ کو بھی مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔

پچھلے دنوں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کی اس تناظرمیں ہونے والی ملاقات ایک اہم پیش رفت سمجھی جا سکتی ہے۔بہت سے سیاسی افراد اور اہل دانش نے یہ تجویز دی تھی کہ اگر نواز شریف آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں تو حالات میں بہتری کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔خود نواز شریف نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف ایک بڑی سیاسی شخصیت ہیں اور ان کو بلوچستان میں احترام کے طور پر دیکھا بھی جاتا ہے۔

 بلوچستان کے حالات میں خرابیاں چند دنوں یا ہفتوں میں نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ برسوں کی کہانی ہے۔ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں جو بڑا کردار بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو ادا کرنا چاہیے تھا ، اس کا فقدان دیکھنے کو ملا ہے۔اس وقت بھی بلوچستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی و مسلم لیگ ن کی مشترکہ حکومت ہے ۔اس مشترکہ حکومت کا بھی کوئی بڑا کردار ہمیں حالات کی بہتری میں دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔

 موجودہ حالات میں صوبائی حکومت کا کردار محدود نظر آتا ہے۔اصل میں بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں موجودہ حالات میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں سے بھی مایوس نظر آتی ہیں۔ان کے بقول بلوچستان کے حالات کی خرابی میں جہاں دیگر عوامل موجود ہیں وہیں بڑی سیاسی جماعتوں کا صوبے کے حوالے سے لاتعلقی کا پہلو بھی ہے۔

بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتیں یہ بھی سمجھتی ہیں کہ بلوچستان کے صوبے میں حقیقی سیاسی لوگوں کی بجائے نمائشی سیاسی لوگوں کی بالادستی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے حالات کی درستگی میں کب عملی اقدامات اٹھائے ہیں اور ان کوعملی اقدامات کرنے سے کب روکا گیا ہے۔اصل میں ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے خود سے بھی بلوچستان کے حالات میں کچھ بھی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے اور اس کا عملی نتیجہ بلوچستان کے حالات کی خرابی کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔

 پاکستان میں جو پاپولر سیاست ہو رہی ہے، اس میں نواز شریف سرگرم نظر نہیں آرہے۔ قومی سیاست ایک طرف وہ مسلم لیگ ن ہی نہیں بلکہ پارلیمانی سیاست میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہے اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔اسی طرح پارٹی کے اجلاس ہوں یا پارلیمانی میٹنگز میں بھی ان کی غیر حاضری واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اہم افراد اور دانش وروں و تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف موجودہ حالات سے مطمئین نظر نہیں آتے ہیں۔

اسی بنیاد پر جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نواز شریف بلوچستان میں کوئی بڑا مفاہمانہ کردار ادا کرسکیں گے اس پر بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ نواز شریف 8فروری کے انتخابات کے بعد بڑے بہت زیادہ فعالیت یا متحرک ہونے کی بجائے بیک ڈور بیٹھ کرخاموشی کے کردار کو ہی اپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں تاکہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو کسی بڑی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

 اس وقت وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی بلوچستان کے حالات کی بہتری میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کراسکے ہیں۔جس انداز سے قومی سیاست میں سیاست دانوں،سیاسی جماعتوں سمیت سیاست وجمہوریت کی جگہ محدود ہوئی ہے وہاں ایک بڑے مجموعی سیاسی کردار کی جنگ بھی محدود ہی نظر آتی ہے۔ماضی میں نواز شریف کئی بار بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اسی تناظر میں سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک نے نواز شریف سے ملاقات بھی کی ہے۔

اگر ان تمام تر حالات کے باوجود نواز شریف خود سے آگے بڑھ کر بلوچستان کے حالات کی درستگی میں عملی طور پر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی یقیناً سیاسی قدر کی جانی چاہیے۔اسی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کیا نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا کے بغیر بلوچستان کے حالات میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں یا ان کو اس تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔

کیونکہ مسلم لیگ ن اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر آگے بڑھ سکے ۔بلوچستان کی بیشتر قوم پرست سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت بلوچستان کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست پر تحفظات رکھتی ہیں۔ایسے میں نواز شریف کیا اسٹیبلشمنٹ اور بلوچستان کے قوم پرستوں کے درمیان غلط فہمیوں پر ایک بڑے پل کا کردار ادا کر سکیں گے۔ان حالات میںجب بلوچستان کی سنگینی کافی حساس نوعیت کی ہے تو نواز شریف نے بلوچستان جانے کی بجائے اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ بیلا روس اور لندن کے دورے پر جانے کو ترجیح دی اور اب وہ اپنے علاج کے سلسلے میں لندن میں موجود ہیں۔اس دورے سے ان کی ترجیحات کو سمجھا جاسکتا ہے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس وقت بلوچستان میں شرپسندوں کے خلاف طاقت کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اگر یہ درست ہے تو پھر سیاسی آپشن واقعی محدود ہو جاتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے بھی سیاسی آپشن محدود ہیں ۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں ،سیاسی قیادت اور اسٹیبلیشمنٹ کو مل کر سیاسی اور انتظامی حکمت عملی اختیارکرنا ہوگی تاکہ اس بحران کا حقیقی اور پائیدار حل سامنے آسکے۔بلوچستان کے مسائل کا بہتر حل قومی سیاست اور ایک بڑے سیاسی،معاشی اور سیکیورٹی استحکام کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے ۔

اس لیے ایک ایسے موقع پر جب خارجی یا علاقائی ممالک بالخصوص بھارت اور افغانستان کی مداخلت موجود ہے توایسے میں ہمیں داخلی سطح کے مسائل کا حل تلاش کرکے ایک بڑے سیاسی اتفاق رائے کو پیدا کرنا ہوگا اور اسی حکمت عملی کی بنیاد پر سیاسی حل تلاش کرکے ہمیں بلوچستان کا حل تلاش کرنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات تین ہفتوں کے لیے ملتوی
  • بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
  • کراچی میں رواں سال کے 110 روز میں مجموعی ٹریفک حادثات میں 289 شہری جاں بحق
  • 48 گھنٹوں میں گندم کی فصلوں میں آگ لگنے کے 164 واقعات رپورٹ
  • کراچی: موٹر سائیکل حادثات میں 3 افراد جاں بحق
  • کراچی، مختلف ٹریفک حادثات میں 3 افراد جاں بحق، ایک زخمی
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • بلوچستان کی ترقی اور کالعدم تنظیم کے آلہ کار
  • خیبر پختونخوا: بارش، ژالہ باری اور آسمانی بجلی گرنے سے 2 خواتین سمیت 4 افراد جاں بحق
  • خیبرپختونخوا میں بارشوں سے نقصان کی تفصیل جاری