ریاض(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔13 جنوری ۔2025 )سعودی عرب نے شام پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے مشرق وسطیٰ اور یورپ کے اعلیٰ سفارت کاروں کے ساتھ دارالحکومت ریاض میں ہونے والی بات چیت کے بعد یہ مطالبہ سامنے آیا ہے جس کا مقصد جنگ سے تباہ حال ملک کے مستقبل پر بات کرنا ہے.

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے مذاکرات کے اختتام پر کہا کہ ہم نے یک طرفہ اور بین الاقوامی پابندیاں ختم کرنے کی اہمیت پر زور دیا کیوں کہ ان پابندیوں کا جاری رہنا شامی عوام کی ترقی اور تعمیر نو کے خوابوں میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے مشرق وسطیٰ اور یورپ کے اعلیٰ سفارت کار سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچے جہاں شام کے معاملے پر بات چیت ہوئی.

(جاری ہے)

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ایک سعودی عہدے دار نے بتایا کہ بات چیت کی دو نشستیں ہوئیں پہلی نشست میں پہلی بار عرب ممالک کے حکام شریک ہوئے جب کہ ترکی، فرانس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ سمیت دیگر ممالک کے نمائندے دوسری نشست کا حصہ تھے عالمی طاقتیں بشار الاسد کے زوال کے بعد خطے میں استحکام لانے کی کوشش کر رہی ہیں. شام کے راہنما احمد الشرع جو اس اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں جس نے اسد کو اقتدار سے ہٹایا شام پر عائد پابندیاں ختم کرانے کی کوشش کر رہے ہیں مغربی طاقتوں، جن میں امریکہ اور یورپی یونین شامل ہیں نے 2011 میں اسد کی حکومت پر پابندیاں عائد کیں تھیں جب انہوں نے حکومت مخالف مظاہروں کو سختی سے کچل دیا جس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہو گئی.

13 سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والے اس تنازعے میں پانچ لاکھ سے زیادہ شامی شہری جان سے گئے بنیادی ڈھانچہ تباہ کر ہو گیا اور عوام کو غربت کا شکار ہو گئے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے گئے جن میں سے بہت سے لوگوں یورپی ملکوں میں پناہ لی . یورپی یونین کی اعلیٰ سفارت کار کاجا کلاس نے کہا کہ 27 ممالک پر مشتمل اتحاد شام کے نئے حکمرانوں کی جانب سے اقلیتوں کے تحفظ اور جامع حکومت کی تشکیل کے اقدامات پر پابندیاں اٹھانے پر غور کر سکتا ہے سعودی عرب نے 2012 میں بشار الاسد کی حکومت سے تعلقات منقطع کر لیے اور طویل عرصے تک ان کی برطرفی کے حق میں آواز بلند کرتا رہا لیکن 2023 میں اس نے عرب لیگ کے اجلاس کی میزبانی کی جہاں بشارالاسد کو دوبارہ خطے کے سیاسی دھارے میں خوش آمدید کہا گیا اس ماہ خلیجی ریاست نے زمینی اور فضائی راستوں سے شام کو خوراک، خیمے اور طبی سامان فراہم کیا ریاض اب جنگ زدہ ملک کی نئے دور میں داخلے کے لیے تعاون کے طریقے طے کرنے پر بات چیت کر رہا ہے.

عرب گلف سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ واشنگٹن کی محقق اینا جیکبز نے کہا کہ یہ اجلاس یہ پیغام ہے کہ سعودی عرب شام کی بحالی میں معاونت کے لیے خطے کی کوششوں کو مربوط کرنے میں قیادت کرنا چاہتا ہے ان کا کہنا تھا کہ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ سعودی عرب اس کوشش میں کتنا وقت اور وسائل لگائے گا؟ اور پابندیوں کے برقرار رہنے کی صورت میں کیا ممکن ہو سکے گا؟. سعودی عہدیدار نے کہا کہ بات چیت شام میں اسد کے بعد کے دور پر اردن میں گذشتہ ماہ ہونے والی بات چیت کا تسلسل ہے عقبہ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد سفارت کاروں نے ایک مشترکہ بیان میں شام کی قیادت میں ایسی سیاسی تبدیلی کا مطالبہ کیا جس میں جامع، غیر فرقہ وارانہ اور نمائندہ حکومت تشکیل دے جو شفاف عمل کے ذریعے وجود میں آئے.

بیان میں انسانی حقوق کے احترام اور ’دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے‘ کی اہمیت پر زور دیا گیا اور فریقین سے شام میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ترکی کے وزیر خارجہ اور عراق کے اعلیٰ سفارت کار بھی ریاض میں موجود تھے جرمنی کے وزیر خارجہ ‘امریکہ کے نائب وزیر خارجہ جان باس نے بھی بات چیت میں شرکت کی وہ ترکی میں ہونے والی بات چیت کے بعد ریاض پہنچے تھے امریکی محکمہ خارجہ نے بتایا کہ ان مذاکرات میں علاقائی استحکام کی اہمیت شام کو دہشت گردی کے اڈے کے طور پر استعمال ہونے سے روکنااور داعش کی مستقل شکست کو یقینی بنانا جیسے موضوعات شامل تھے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پابندیاں ختم کا مطالبہ کے اعلی بات چیت کے بعد کہا کہ

پڑھیں:

بنگلہ دیش نے 1971 کے واقعات پر معافی اور معاوضے کا مطالبہ کیا ہے، پاکستان

ڈھاکہ ٹریبیون نے رپورٹ کیا تھا کہ بنگلہ دیش نے 1971 کے واقعات پر معافی، معاوضے، غیر ادا شدہ فنڈز اور 1970 کے سمندری طوفان کے لیے ملنے والے بین الاقوامی عطیات کی رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان حالیہ اعلیٰ سطحی سفارتی مشاورت کے دوران بعض دیرینہ معاملات پر بات چیت ہوئی، جن میں 1971 کے واقعات پر بنگلہ دیش کی جانب سے رسمی معافی اور معاوضے کے مطالبات شامل تھے۔ دفتر خارجہ کی سیکریٹری آمنہ بلوچ گزشتہ دنوں 15 سال بعد دفتر خارجہ کی مشاورت کے لیے ڈھاکہ پہنچیں۔ ملاقات کے بعد بین الاقوامی میڈیا اور بنگلہ دیشی اخبارات ڈیلی اسٹار اور ڈھاکہ ٹریبیون نے رپورٹ کیا کہ بنگلہ دیش نے 1971 کے واقعات پر معافی، معاوضے، غیر ادا شدہ فنڈز اور 1970 کے سمندری طوفان کے لیے ملنے والے بین الاقوامی عطیات کی رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈیلی اسٹار کے مطابق بنگلہ دیشی سیکریٹری خارجہ جاشم الدین نے کہا کہ ان معاملات کو حل کیے بغیر مضبوط دوطرفہ تعلقات ممکن نہیں۔ ڈھاکہ ٹریبیون نے ان کے حوالے سے لکھا کہ یہ معاملات ہماری باہمی بنیاد کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ جس کے بعد ہفتہ وار پریس بریفنگ میں سوال و جواب کے دوران دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ کچھ دیرینہ معاملات واقعی زیر بحث آئے، تاہم دونوں فریقوں نے انہیں باہمی احترام اور افہام و تفہیم کے ماحول میں پیش کیا۔ شفقت علی خان نے کہا کہ بعض عناصر جھوٹی یا سنسنی خیز خبریں پھیلا کر پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، انہوں نے زور دیا کہ مذاکرات انتہائی خوشگوار اور تعمیری ماحول میں ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ 15 سال کے تعطل کے بعد ان مشاورتوں کا انعقاد دونوں ممالک کے درمیان خیرسگالی اور ہم آہنگی کا ثبوت ہے، اور گمراہ کن رپورٹس اس اہم پیشرفت کی اہمیت کو کم نہیں کر سکتیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ دونوں ممالک نے سیاسی، معاشی، ثقافتی، تعلیمی اور تزویراتی تعاون پر وسیع تبادلہ خیال کیا، جو مشترکہ تاریخ، ثقافتی ہم آہنگی اور عوامی امنگوں پر مبنی ہے۔ دونوں فریقوں نے نیویارک، قاہرہ، ساموآ اور جدہ میں ہونے والی حالیہ اعلیٰ سطحی ملاقاتوں پر اطمینان کا اظہار کیا اور تعلقات میں بہتری کے لیے مسلسل ادارہ جاتی رابطے، زیر التواء معاہدوں کی جلد تکمیل، تجارت، زراعت، تعلیم اور روابط میں تعاون بڑھانے پر زور دیا۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق، پاکستان نے اپنی زرعی جامعات میں تعلیمی مواقع فراہم کرنے کی پیشکش کی، جبکہ بنگلہ دیش نے فشریز اور میری ٹائم اسٹڈیز میں تکنیکی تربیت کی پیشکش کی۔ بنگلہ دیشی فریق نے پاکستانی نجی جامعات کی جانب سے اسکالرشپ کی پیشکش کو سراہا اور تعلیم کے شعبے میں مزید تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ دسمبر میں قاہرہ میں ڈی-8 کانفرنس کے موقع پر شہباز شریف اور ڈاکٹر محمد یونس کے درمیان ملاقات میں 1971 کے تناظر میں باقی ماندہ شکایات کو حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔ دونوں ممالک کی افواج بھی جنوری میں اس بات پر متفق ہوئیں کہ ان کے باہمی تعلقات کو بیرونی اثرات سے محفوظ رکھا جائے اور دیرپا شراکت داری کو فروغ دیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • افریقہ میں امریکہ کا غیر ضروری سفارت خانے اور قونصل خانے بند کرنے پر غور
  • تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار
  • پیپلز پارٹی کا  بلدیاتی الیکشن کا مطالبہ
  • امریکا کا افریقا میں غیرضروری سفارت خانے اور قونصل خانے بند کرنے پر غور
  • کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا، مرتضیٰ حسن
  • کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا : مرتضی حسن
  • پاکستانی پاسپورٹ کے حصول کیلئے نئی شرائط عائد کی جارہی ہیں؛ وفاقی وزیر داخلہ
  • چوہدری شافع حسین کی زیر صدارت اجلاس ،وزیر اعلیٰ آسان کاروبار فنانس ،آسان کاروبار کارڈ سکیموں پر پیش رفت کا جائزہ
  • نئے جرمن چانسلر کروز میزائل فراہم کریں، یوکرینی سفارت کار
  • بنگلہ دیش نے 1971 کے واقعات پر معافی اور معاوضے کا مطالبہ کیا ہے، پاکستان