اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔13 جنوری ۔2025 )سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف 190 ملین پاﺅنڈ کیس کا فیصلہ ایک بار پھر موخر کرتے ہوئے احتساب عدالت نے17 جنوری کی تاریخ دے دی ہے یاد رہے کہ احتساب عدالت نے فیصلہ 18 دسمبر 2024 کو محفوظ کیا تھا۔

(جاری ہے)

احتساب عدالت نے فیصلہ سنانے کیلئے پہلے 23 دسمبر اور اس کے بعد 6 جنوری کی تاریخ مقرر کی تھی پھر تیسری 13 جنوری کی تاریخ دی ہے.

پیر کے دن جج ناصر جاوید رانا نے اڈیالہ جیل میں ملزمان کی موجودگی میں فیصلہ سنانا تھا تاہم اس سے کچھ ہی دیر قبل جج کی جانب سے نئی تاریخ سامنے آ گئی اس فیصلے کی وجہ بیان کرتے ہوئے جج ناصر جاوید نے ریمارکس دیے کہ دو گھنٹے انتظار کرتے رہے، ساڑے آٹھ بجے کمرہ عدالت میں موجود تھا، ملزم عمران خان کو دو مرتبہ پیغام بھجوایا گیا کہ وہ عدالت میں پیش ہوں لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے شریک ملزمہ بشری بی بی بھی اڈیالہ جیل نہیں پہنچ سکی تھیں انہوں نے کہا کہ ان کے پاس تحریر شدہ فیصلہ موجود ہے اور وہ آج اس فیصلے کو سنانا چاہتے تھے لیکن ملزمان اور ان کے وکلا کے عدالت میں نہ پہنچنے پر فیصلہ سنانے کی تاریخ 17جنوری مقرر کر رہے ہیں.

نیب کی پراسیکیوشن ٹیم کمرہ عدالت میں موجود تھی تحریک انصاف چیئرمین بیرسٹر گوہر نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں گیارہ بجے کا وقت دیا گیا تھا لیکن اس سے پہلے پتہ چلا کہ نئی تاریخ دی گئی ہے انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ اس کیس کا فیصلہ ہونا چاہیے. بشری بی بی کے وکیل فیصل فرید چوہدری نے اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گیارہ بجے فیصلہ سنانے کا وقت تھا لیکن جج صاحب کو بڑی جلدی تھی تو چلے گئے جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا کمرہ عدالت میں ملزمان کا فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر موجود ہونا ضروری ہے تو ان کا کہنا تھا کہ جی ہاں ایک یہی وجہ ہو سکتی ہے بشری بی بی ابھی پیش نہیں ہوئی ہو سکتا ہے اس وجہ سے بھی فیصلہ موخر کیا گیا ہو .

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ ہم فیصلے کے لیے تیار ہوکر آئے تھے جج صاحب نے اپنی مرضی سے فیصلہ موخر کیا یہ کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوںسے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ عدالتی عملے نے آج فیصلے سے متعلق آگاہ کردیا گیا اب یہ فیصلہ 17 جنوری کو آئے گا ہمارے ساتھ ناانصافی ہوتی رہی ہے ہمارے خلاف ٹرائل کورٹ کا رویہ غیر منصفانہ ہے ہم فیصلے کے لیے تیار ہوکر آئے تھے.

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے 190 ملین پاﺅنڈ کیس میں کوئی فائدہ نہیں لیا 190 ملین پاﺅنڈ کیس بےہودہ ہے گواہان نے تسلیم کیا کہ عمران خان نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اگر یہ فیصلہ انصاف پر ہوتا تو عمران خان بری ہوجاتے ان شااللہ عمران خان جھکیں گے نہیں ڈٹے رہیں گے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان انصاف اور آئین کی خاطر جیل میں ہیں انہیں اپنی جان کی پروا نہیں ہے.

تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 15 جنوری کو مذاکرات کی نشست متوقع ہے، مذاکرات کا مقصد جمہوریت اور انصاف کی بالادستی ہے، فیصلہ موخر کرکے ڈیل کا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے، ڈیل نہیں کریں گے، اعلیٰ عدلیہ سے انصاف کی امید ہے انہوں نے کہا کہ ہم ڈیل بالکل نہیں کر رہے ہم ڈیل کے لیے نہیں بلکہ جمہوریت کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں ہم کوئی آسانی نہیں مانگ رہے واضح کر رہا ہوں کوئی ڈیل نہیں ہو رہی.

عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے صحافیوں سے علیحدہ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج عمران خان سے ملاقات نہیں ہوسکی ہم اور وکلا وقت پر پہنچ گئے تھے انہوں نے کہا کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ فیصلہ سنایا جائے فیصلے کے بعد 190 ملین پاﺅنڈ ریفرنس ہائی کورٹ میں لے جائیں گے علیمہ خان نے کہا کہ عمران خان پر کوئی دباﺅ نہیں ہے، انہوں نے صرف دو مطالبات کیے تھے، وہ بے گناہ قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں اب فیصلے کے لیے 17 جنوری کا انتظار کر لیتے ہیں.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا کہ عمران خان ملین پاﺅنڈ کیس انہوں نے کہا کہ اڈیالہ جیل عدالت میں فیصلے کے کی تاریخ کا فیصلہ نہیں ہو کے لیے

پڑھیں:

اکادمی ادبیات کا اندھا یدھ

پہلی بار نہ سہی مگر اکادمی ادبیات پاکستان نے ادبی ایوارڈ زکی صورت میں جو اندھا یدھ برپاکیا ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔قومی معاملات میں مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر تو ہوہکار کے طوفان تو اٹھتے اور بیٹھ جاتے ہو ئے دیکھے ہیں مگر علم و دانش اور شعر و ادب کے حوالے سے ایسی رستاخیز کبھی برپا نہیں ہوئی تھی۔اس پر مستزاد اہل قلم مداہنت آمیز خاموشی…! اور تو اور جن کا قلم درد و الم کی گنگا بہانے کی’’خیالی نقش گری‘‘ میں کمال مہارت رکھتا ہے ، جن کی زنبیل میں سیاسی بد عنوانیوں اور بداعمالیوں پر ڈالنے کے لئے اطلس و کم خاب کے پارچہ جات کی کمی نہیں ،وہ جو ہر فیصلے اپنی پسند و ناپسندی کی جہت دینے کے وسیع اختیارات رکھتے ہیں ۔جو سفید کو سیاہ اور سیاہ کے سفید ہونے کی تصدیقی مہریں ہر پل اپنی جیبوں میں رکھتے ہیں اور طاقت پرواز ایسی کہ کاغذی بیمانوں پر سوار ہوکر جدہ پیلس پناہ جلینے میں ساعت بھر نہیں لگاتے ۔اپنا یہ حسن ظن بھی خیال خام ثابت ہوا کہ اس بار وہ بچ بچا کر ہونے والے امکانات کی روشنی میں فیصلے صادر کروائیں گے کہ اس پیرانہ سالی میں کفاروں کی ادائیگی کا اہتمام صاف و شفاف دکھائی دے گا ۔مگر وائے افسوس وہ دہکتے ہوئے ادبی ماحول کی بابت کچھ کہنے کی بجائے ’’لق و دق صحرا میں بگولے کی طرح رقص کرتے گھمن گھیریاں کھاتے‘‘
پی ٹی آئی کے وجود کا نوحہ لکھنے ہی میں مست رہے ،کیونکہ ان کے حکم اذاں کی تعمیل کے لئے عمرہ جاتی یا جاتی عمرہ کی جانب رخ انور سجائے رکھنا ضروری ہے ۔ اکادمی ادبیات کی نیاز بانٹنے والوں نے جو ’’یدھ‘‘ مچایا اس کی مثال نہیں ملتی اور مجال کا تو یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ قومی خزانے پر انہیں کا حق ہے جنہیں ان کے اجداد سانپ کی طرح اس کی نگرانی پر مامور کر گئے تھے۔یوں بھی اپنے اپنے خدا گھڑلینے کا رواج اب نہیں پڑا یہ بہت پرانی رسم ہے زمین پر خدا بنالینے والوں کی اپنی احتیاجات اور اپنی ضروریات ہوتی ہیں ۔مورت گری کے فن پر دسترس ہوتو ضمیر آڑے نہیں آتا کہ یہ تو ہنر ہی باد فروشوں ہی کا ہے ۔اب کی بار اکادمی ادبیات کی شہ نشین صنف نازک ہیں نزاکتوں بھرے فیصلے ہی ان کی زبانی سنوائے جانے تھے ،انہیں کیا خبر عدل کیا ہوتا ہے ؟ انصاف کسے کہتے ہیں ؟ کہ ان کے زریں دور میں تو ایسے ہی غیر شفاف فیصلوں کا چلن ہے ،پھر ان پر کیا دوش کہ ان کے گرد بھی تو باد سنجوں کی ایک فوج ظفر موج ہوگی ، جنہیں سچ کہنے اور حق کرنے کا بھلے یارہ ہی کس نے بخشا ہوگا اور وہ بھی لکھے ہوئے فیصلوں پر دستخط کرنے کا اختیار رکھتی ہیں، خط تنسیخ کی اجازت آنہیں کہاں تفویض کی گئی یہ اختیار تو سنا ہے ریاست اور حکومت کے سربراہ کے پاس بھی نہیں ہوتا ،سوائے اس کے کہ فیصلے سارے اسی کے ہیں ہماری بابت اختیار بس اتنا کہ خبر میں رہنا ہے کتنے سخن ساز ہیں ،قلم کار ہیں بھوک رات دن جن کے آنگنوں میں رقص کرتی ہے مگرکسے خبر ہے ہمارے اندر ہر ایک منظر بہ چشم تر ہے کسے خبر ہے (مصدق سانول) ایک نابغہ روزگار نوجوان شاعر تھا عین شباب میں داعی اجل ہوا ۔آج تک کسی کی نظر سے نہیں گزرا ،اس کی نظمیں ،اس کی گائی ہوئی کافیاں ،سرائیکی شعری سرمایہ سب حالات کی بھینٹ چڑھ گیا ۔
سرائیکی وسیب کے منفرد لہجے کے شاعر حبیب فائق کسے یاد ہیں،یاد تو فقیر منش سرائیکی شاعر اسلم جاوید بھی کسی کو نہیں جو ابھی زندہ ہے اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔کس کس کا ذکر کریں کہ یہاں یہ رسم رہی ہے کہ ’’منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘‘ مقبول تنویر سرائیکی مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے عین جوانی میں داغ مفارقت دے گئے ۔مرحوم ڈاکٹر مقصود زاہدی اردو رباعی کے بادشاہ کبھی کسی ایوارڈ کے مستحق نہیں ٹھہرائے گئے اور ممتاز اطہر اردوغزل کو نئی جہت اور جدید رنگ عطا کرنے والے ،غربت و افلاس کے اندھیروں میں بھٹکرہے ہیں کسی نے ان کی انگلی نہیں تھامی کہ بے روزگاری کے اندھے کنویں سے نکل آتے ۔ایسے کئی اور رتن ہوں گے جو آسودہ خاک ہوئے اور وہ ہیں کہ ابھی بے سمتی اور بے حکمتی کے لق و دق صحرا میں رقص کرتی، پی ٹی آئی پر ہی سوئی اڑائے ہوئے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • 26 نومبر ڈی چوک احتجاج کیس: پی ٹی آئی وکلاء کی جانب سے آج بھی گواہوں پر جرح نہ ہوسکی
  • سعودی عرب: سیاحت کے شعبے میں 41 پیشوں کو مقامی بنانے کا فیصلہ
  • جج ہمایوں دلاور کے خلاف مبینہ سوشل میڈیا مہم‘اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی 
  • ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس: عمران خان اور بشریٰ بی بی کی اپیلوں پر بڑی پیش رفت
  • علیمہ خانم اور بشریٰ بی بی پر شیر افضل مروت کی تنقید ناجائز ہے، عمر ایوب
  • جے یو آئی کا 27 اپریل کو لاہور میں غزہ ملین مارچ کا اعلان
  • دوسری شادی کرنے کی صورت میں بچے کی کسٹڈی کا حق دار کون؟ عدالت کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا
  • اکادمی ادبیات کا اندھا یدھ
  • لاہور ہائیکورٹ نے خلع کی صورت میں خواتین کے حق مہر کے حوالے سے اصول وضع کردیے
  • لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ، خلع لینے والی خاتون بھی حق مہر کی حق دار