قبرص، پولیس کی فائرنگ سے پاکستانی کی موت کی تحقیقات کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
قبرص میں مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ سے پاکستانی شہری کی ہلاکت کے معاملے پر چیف پراسیکیوٹر نے مجرمانہ تحقیقات کی نگرانی کے لیے آزاد تفتیش کار مقرر کر دیا۔
قبرص اٹارنی جنرل جارج ایل سویدیس کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نوجوان کی ہلاکت کے سلسلے میں ایک آزاد مجرمانہ تفتیش کار مقرر کیا ہے، سینئر وکیل نینوس کیکوس پولیس کی طرف سے کی جانے والی تحقیقات کی قیادت کریں گے۔
قبرص حکام کے مطابق دارالحکومت نکوسیا میں پولیس کو 24 سالہ پاکستانی شہری کی لاش 6 جنوری کو کھیت سے ملی تھی۔
پاکستانی شہری کو پولیس کے ہتھیار سے گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا، پوسٹ مارٹم کے مطابق پاکستانی شخص کی کمر کے دائیں جانب گولی کا زخم پایا گیا جبکہ ابتدائی فرانزک رپورٹ میں نوجوان کی ہلاکت میں مجرمانہ حالات کو مسترد کیا گیا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ افسران نے ایک واقعہ میں مشتبہ افراد کو روکنے، گرفتار کرنے کی کوشش میں گولیاں چلائی تھیں، واقعے کا تعلق غیرقانونی تارکین وطن کی اسمگلنگ سے تھا، پاکستانی شخص کی ہلاکت کا اس واقعے سے تعلق ہو سکتا ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کی ہلاکت
پڑھیں:
پاکستانی احمدی شہری مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اپریل 2025ء) پاکستان میں حکام کے مطابق کراچی میں جمعہ کے روزاحمدیوں کی ایک عبادت گاہ کے باہر ہنگامہ آرائی کے دوران ہجوم کی جانب سے ایک احمدی شہری کو شدید تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا گیا۔
کراچی کے علاقے صدر کی پریڈی اسٹریٹ پر مشتعل ہجوم نے پہلے سے ظلم و ستم کے شکار اس مذہبی اقلیتی گروپ کی عبادت گاہ کو گھیر لیا تھا۔
احمدی برادری کے ترجمان امیر محمود نے بتایا کہ ایک 47 سالہ شخص، جو کہ گاڑیوں کی ورکشاپ کا مالک تھا، اس حملے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔کراچی کے تھانہ پریڈی کے ایس ڈی پی او محمد صفدر نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ احمدی کمیونٹی کے ایک فرد کو اس وقت ہلاک کر دیا گیا جب ہجوم نے اس کی شناخت احمدی کے طور پر کی۔
(جاری ہے)
ان کے بقول، "ہجوم نے مقتول شخص پر لاٹھیوں اور اینٹوں سے حملہ کیا۔
" مشتبہ حملہ آور کون تھے؟مقامی میڈیا ادارے ڈان نے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل آف پولیس سید اسد رضا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ "تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے تقریباً 400 کارکن کراچی کے صدر بازار میں واقع موبائل مارکیٹ کے قریب ہال میں جمع ہوئے تھے۔" ٹی ایل پی ایک سخت گیر مذہبی گروپ ہے جس پر ملک میں ماضی میں عارضی طور پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
محمود نے ڈان نیوز کو بتایا، "مقتول، جو کمیونٹی کی ایک جانی پہچانی شخصیت تھا، عبادت گاہ سےکچھ میٹر کے فاصلے سے گزر رہا تھا جب ٹی ایل پی کے ارکان نے اسے پہچان لیا اور اسے مارنا شروع کر دیا، جس سے اس کی موت ہو گئی۔" بعد ازاں پولیس نے گروپ کو منتشر کر دیا اور اندر پھنسے لوگوں کو بچا لیا۔ محمود کے مطابق اس کے بعد درجنوں افراد کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔
احمدیوں کی عبادت گاہ پر حملے کی مذمتپاکستان میں احمدی برادری کی قیادت کے مطابق ملک میں تقریباً پانچ لاکھ احمدی رہتے ہیں۔ پاکستانی آئین میں احمدی باشندوں کو سن 1974 میں غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا اور سن 1984 کا ایک قانون انہیں ملک میں اپنے عقیدے کے اسلامی ہونے کا دعوی کرنے یا کھلے عام اسلامی رسومات پر عمل کرنے سے بھی منع کرتا ہے۔
پاکستان میں اس اقلیتی گروپ کو کئی دہائیوں سے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں ان کے خلاف پرتشدد واقعات میں شدت آئی ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اس واقعے کو "امن و امان کی ناکامی" قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایکس پر جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق، "امن و امان قائم رکھنے میں ناکامی متاثرہ کمیونٹی کے خلاف منظم ظلم و ستم کو ریاست کی طرف سے نظر انداز کرنے کی واضح یاد دہانی ہے۔
"ایچ آر سی پی نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ مجرموں کا سراغ لگا کر انہیں فوری گرفتار کیا جانا چاہیے۔ ان کے بقول، "ذمہ داروں کی رہائی کے لیے دائیں بازو کے دباؤ میں آئے بغیر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جانا چاہیے۔"
ع آ / ع ب (اے پی، روئٹرز ، مقامی نیوز ادارے)