Daily Mumtaz:
2025-04-22@09:48:20 GMT

پی ٹی آئی، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

پی ٹی آئی، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ

حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات کی بات جب چلی تو میں نے اُسی وقت کہہ دیا تھا کہ اگر ان مذاکرات کو کامیاب ہونا ہے اور اس سے تحریک انصاف نے اپنی سیاست کے لیے کوئی آسانیاں پیدا کرنی ہیں تو پھر اس کی شرط یہ ہے کہ عمران خان کو اپنے ٹوئٹر اکائونٹ کے ساتھ ساتھ اپنے پارٹی کے سوشل میڈیا کو خاص طور پر فوج اور فوج کی اعلیٰ قیادت پر حملوں سے روکناپڑے گا۔

لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ نہ عمران خان خاموش رہ سکے نہ ہی اُن کا سوشل میڈیا رکا۔ اُن کا ٹوئٹر اکائونٹ اپنی پرانی ڈگر پر ہی چلا اور اُن کے ایک ٹوئٹ نے مذاکرات کے ماحول اور اس کے مستقبل کے بارے میں سنگین شکوک و شہبات پیدا کر دیے ہیں۔خان صاحب نے جب مذاکرات کے لیے کمیٹی بنا دی تو پھر ایسے جارحانہ ٹوئٹ اور بیانات دینے کی کیا ضرورت تھی۔

یہ تو کسی عام شخص کو بھی معلوم ہے کہ اگر عمران خان فوج اور اُس کی اعلیٰ قیادت کے حوالے سے اپنا رویہ نہیں بدلتے تو پھر مذاکرات کا نتیجہ نہیں نکل سکتا لیکن اس کے باوجود عمران خان نہیں رکے۔

تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کی اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات نہیں ہو رہی جس کا حکومتی کمیٹی نے اُن سے وعدہ کیا تھا۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ حکومت تو بے بس ہے، اس کے تو اختیار میں ہے ہی کچھ نہیں۔

اس پر حکومتی کمیٹی کے ایک اہم رکن کا کہنا تھا کہ حکومت کے اختیار میں جو کچھ ہے یہ معاملہ کسی سے ڈھکاچھپا نہیں۔ جب حقیقت یہی ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کے درمیان ایسے مذاکرات کی کامیابی کے لیے کیا یہ ضروری نہیں کہ عمران خان اور تحریک انصاف فوج سے اپنی لڑائی کو ختم کریں۔

اسٹیبلشمنٹ کتنی طاقت ور ہے یا اس کا موجودہ حکومت یا ماضی کی حکومتوں پر کتنا اثرورسوخ رہا یہ سب کو معلوم ہے۔ یہ بھی سب مانتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک ہائبرڈ نظام چل رہا ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار کلیدی ہے۔ تو اس کے باوجود عمران خان کیوں ایک ایسے عمل کا حصہ بن رہے ہیں جس سے ہائبرڈ نظام ہی مضبوط ہو رہا ہے اور سیاستدانوں کیلئے اسپیس کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔

پہلے تو خان صاحب اپنے سیاسی حریفوں سے بات ہی نہیں کرنا چاہتے تھے اور یہ کہتے تھے بات تو صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی ہو گی کیوں کہ موجودہ حکومت تو محض کٹھ پتلی ہے۔ اب جب کٹھ پتلیوں کے ساتھ بیٹھے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ پر حملے جاری رکھ کر کیا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔

یا تو عمران خان اپنے اُس غصے پر قابو پانے پر مکمل طور پر بے بس ہیں جس نے اُنہیں اور اُن کی سیاسی جماعت کو اس حال پر پہنچادیا یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈال کر وہ فوج کو اپنے حق میں جھکا سکتے ہیں تو یہ تجربہ تو اُنہوں نے پچھلے دو ڈھائی سال سے کر لیا اور اس سے اُن کا نقصان ہی نقصان ہوا۔ اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر اتنا آگے جا سکتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت سے ناراض ہو جائے جس کا فائدہ تحریک کو ہو سکتا ہے تو ایسا بھی کچھ نہیں ہونے والا۔

خان صاحب کو سمجھنا چاہیے کہ یہ تحریک انصاف کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ اپنے ماضی بالخصوص گزشتہ دو ڈھائی سال کی الزامات، انتشار، جلائو گھیرائو ، فوج سے ٹکرائو، ملکی معیشت پر حملوں کی منفی سیاست کو خیرباد کہہ کر اپنے لیے پولیٹکل اسپیس پیدا کرے۔

اس منفی سیاست نے سب سے بڑا نقصان تحریک انصاف کا ہی کیا اور عمران خان کے لیے مشکلات میں اضافے کا باعث بنا۔اب بھی موقع ہے کہ عمران خان اپنی اس پالیسی پر نظرثانی کریں۔

اگر وہ خاموش ہوتے ہیں تو مذاکرات سے تحریک انصاف اور عمران خان کو ریلیف ملنا شروع ہو جائے گا۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مذاکرات کا جوبھی نتیجہ نکلے گا اور تحریک انصاف اور عمران خان کو اگر کوئی رعایت ملے گی تواس میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی ضرور شامل ہو گی۔

اس لیے ضروری کہ عمران خان اور تحریک انصاف اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے، اپنی سیاست کے مستقبل کے لیے رستہ ہموار کریں۔
انصار عباسی

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: اور تحریک انصاف کہ عمران خان کے ساتھ کے لیے ہیں تو ہیں کہ اور اس

پڑھیں:

جے یو آئی (ف) کا تحریک انصاف کیساتھ سیاسی اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ

جمعیت علمائے اسلام کے ذرائع نے بتایا ہے کہ جے یو آئی کے زیر اہتمام 27 اپریل کو مینار پاکستان کے سبزہ زار پر ’’اسرائیل مردہ باد‘‘ ریلی ہو گی۔ اسی طرح 10 مئی کو پشاور اور 17 مئی کو کوئٹہ میں ’’اسرائیل مردہ باد‘‘ کے اجتماعات ہوں گے۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے اسلام نے حتمی طور پر فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کیساتھ اتحاد نہیں کرے گی اور نہ ہی کسی ایسے اتحاد میں شامل ہوگی جو تحریک انصاف کے ایماء پر قائم کیا جائے گا۔ جے یو آئی نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں آزاد حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی رہے گی، وہ حکومت کا حصہ نہیں بنے گی اور پارلیمنٹ میں زیر غور آنیوالے معاملات کا جائزہ لیتی رہے گی اور بوقت ضرورت تحریک انصاف کیساتھ تعاون کرنے یا نہ کرنے کا تعین ہوگا۔

جمعیت علمائے اسلام کے ذرائع نے بتایا ہے کہ جے یو آئی کے زیر اہتمام 27 اپریل کو مینار پاکستان کے سبزہ زار پر ’’اسرائیل مردہ باد‘‘ ریلی ہو گی۔ اسی طرح 10 مئی کو پشاور اور 17 مئی کو کوئٹہ میں ’’اسرائیل مردہ باد‘‘ کے اجتماعات ہوں گے۔ جے یو آئی نے پنجاب میں نہریں نکالے جانے کے معاملے میں اپنی سندھ تنظیم کے موقف کی تائید کا فیصلہ کیا ہے اور طے کیا ہے کہ پارٹی کی مرکزی تنظیم اس بارے میں کوئی راہ عمل اختیار نہیں کرے گی۔ منرلز اور مائنز کے قانون کے سلسلے میں جمعیت علمائے اسلام صوبوں کے آئینی مفادات کا تحفظ کرے گی۔

دوسری جانب سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمان کا امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے، جبکہ آج مولانا فضل الرحمان منصورہ لاہور میں حافظ نعیم الرحمان سے ملاقات بھی کریں اور بعدازاں دونوں رہنما میڈیا سے بھی گفتگو کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • جے یو آئی (ف) کا تحریک انصاف کیساتھ سیاسی اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ
  • جے یو آئی کا پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ
  • جے یو آئی کا پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ
  • تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد نہیں ہوگا، جے یو آئی
  • کینالز کیخلاف سندھ میں تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کے دھرنے
  • ’ عمران خان 45دن میں رہا ہوسکتے ہیں، دو شرائط ہیں، پہلی شرط کہ بانی پی ٹی آئی خاموش رہیں اور دوسری ۔ ۔ ۔ ‘تہلکہ خیز دعویٰ سامنے آگیا
  • ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، شیخ وقاص اکرم
  •  کینالز ، سیاست نہیں ہونی چاہئے، اتحادیوں سے ملکر مسائل حل کریں گے: عطاء تارڑ 
  • ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات جاری نہیں ہیں، شیخ وقاص اکرم
  • انتخابات میں دھاندلی کیخلاف درخواست: پی ٹی آئی کی اضافی دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع