Nai Baat:
2025-04-22@11:18:40 GMT

ہائے یہ خوشامدی چیلے نہ اِدھر کے نہ اُدھر کے…

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

ہائے یہ خوشامدی چیلے نہ اِدھر کے نہ اُدھر کے…

کسی آفس، تقریب، خوشی مرگ کے مواقع، چھوٹے گروپس سے بڑے اداروں تک، سرکاری دفاتر سے ہر ماحول میں آپ نے ان لوگوں کو ضرور اپنے اردگرد پایا ہوگا جو خود کسی کام کے تو نہیں ہوتے مگر وہ کھانے پینے سے لے کر اپنی دیہاڑی لانے اور مفادات کی خاطر آپ کی تعریفیں کرتے تھکتے نہیں وہ اس قدر آپ کے بارے بول بولتے ہیں کہ آپ زمین نہیں آسمان پر ہیں۔ آپ کے اس قدر گن گاتے ہیں کہ بعض اوقات شرمندگی محسوس ہونے لگتی ہے۔ آپ کے یہ دوست لوگ کون ہیں؟ کبھی آپ نے ان کو پہچاننے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح ہمارے اردگرد کے ماحول میں یوں تو بڑے بڑے ایکٹر کریکٹر صبح سے رات گئے تک کہیں ایک دوسرے کی مخالفتیں کرتے تو کہیں اپنے مفادات کے لئے آپ کی خاطر خوشامدی باتیں کرتے ہوئے آپ کو بڑا مکھن لگاتے ہیں۔ یوں تو اب مارکیٹ میں اتنے برینڈ کے مکھن آ گئے ہیں کہ نہیں پتہ کہ کس مکھن کی تاثیر کتنی اچھی ہے اگر اب مکھن کا ذکر چلا ہے تو وہ کون کس کو نہیں لگاتا آپ نامور ہیں، آپ کا شمار بڑے لوگوں میں ہوتا ہے یا بڑے لوگوں کے درمیان اٹھتے بیٹھتے ہیں یا دوسروں کی نظر میں بڑے پن کے طور پر جب آپ کو لے لیا جاتا ہے تو پھر مان جایئے کہ آپ کے اردگرد دوستی کی آڑ میں خوشامدی اکٹھے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جو آپ کا دماغ خراب نہ ہونے کے باوجود خراب کر دیتے ہیں۔ آپ کچھ کریں نہ کریں وہ آپ کو ایسا مکھن لگائیں گے کہ انسان سوچتا ہے کہ یہ تو میری اوقات ہی نہیں۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ یہ خوشامدی لوگ کون ہوتے ہیں یا کبھی ہم ان کو ’’چمچے‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ کون اور کہاں سے آ جاتے ہیں۔ خاص کر سرکاری افسران بالا کے اردگرد گھومنے والی کلاس کے اندر ان کی بڑی کلاسز ہوتی ہیں اور جب تک آپ سے ان کے مفاد پورے نہیں ہو جاتے وہ آپ کی نسلوں کے اندر بھی اترنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اگر ان کی خوشامدیوں کی قسموں کو دیکھیں تو ان میں ایک ہوتے ہیں ’’ویلے‘‘ جن کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا اور اپنے کام نکلوانے کے لئے مکھن کی فیکٹری ساتھ رکھتے ہیں۔ دوسرے وہ خوشامدی جو دفتر کے اندر عہدے کے مطابق اپنے افسران کی قربت حاصل کرنے کے لئے پورے آفس میں ان کی تعریفیں کرتے تھکتے نہیں۔ خاص کر چھوٹے سٹاف کی شکل میں تو بڑے خوشامدی نظر آئیں گے۔ وہ آفس کے کام کم تو افسران کے ذاتی کاموں کو سرانجام دینے کے لئے بڑے خوش نظر آتے ہیں اور بعض ان کے بچوں اور بیگمات تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ ان کو افسران کے آنے اور جانے یعنی ہر وقت ان کے وقت پر گہری نظر ہوتی ہے اور جس دن صاحب دفتر نہیں آتے تو دوسرے لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ صاحب لاہور سے باہر گئے ہیں اور مجھے پتہ ہے کیوں گئے ہیں۔


ایک مثل مشہور ہے کہ جہاں دو خوشامدی اکھٹے ہوتے ہیں تو وہاں شیطان رخصت پہ چلا جاتا ہے۔ آج کے دور میں ان خوشامدی حضرات کو بڑا واضح دیکھا جا سکتا ہے۔ ہم سوشل میڈیا کے بڑے خطرناک دور سے گزر رہے ہیں اگر میں غلط نہ کہوں تو ہر سیاسی جماعت کے اندر ایک ریاست موجود ہے اور اس ریاست پر بڑے بڑے خوشامدی براجمان ہیں جو ظل سبحانی، عالی جناب ، عالی مرتبت، عالم پناہ، جہاں پناہ اور جان کی امان پاؤں تو عرض کرنے کے لئے ہمہ تن آپ کی اجازات کے طلب گار نظر آتے ہیں۔ ان خوشامدی، مداری ، اور خاص کر نامور درباریوں نے تو اقتدار کے ایوانوں تک کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو حاکموں کو سب اچھا ہے کہہ کر تمام حالات سے بے خبر اور بے خوف کرتے رہتے ہیں۔ ان کی شاہانہ طرز زندگی، شاہانہ طعام و جام اور شاہانا جاہ و جال پرانے بادشاہوں اور شہزادوں سے کہیں بھی کم تر نہیں ہوتے۔ اب ان خوشامدیوں کا ذکر کرتے چلیں جب آپ ٹی وی آن کرتے ہیں تو بڑے نامور خوشامد تمام چھوٹے بڑے چینلز پر بھی اپنی شاہانہ خوشامدی گفتگو کے ساتھ رات کو لگنے والی عدالتوں میں جلوہ افروز ہوتے ہیں اور جس ڈھٹائی اور بے حیائی کے ساتھ وہ اپنے لیڈر کی شان میں ایسی ایسی گفتگو فرماتے ہیں کہ خدا کی پناہ اللہ تیری شان اور ایسے قصیدے اور دفاع کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر عام آدمی بھی شاید پانی پانی ہو جاتا ہوگا مگر مجال ہے کہ ان کے چہرے پر ایک لمحہ بھی شرمندگی آئے اور تو اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ جہاں تاریخ کو ادھیڑتے نظر آتے ہیں وہاں جھوٹ اس قدر بولتے ہیں کہ بعض اوقات وہ سچ نظر آنے لگتا ہے۔ ہماری سول سوسائٹی ہو یا سیاسی قد کاٹھ والے بونے خوشامدی در اصل ملک و ملت کو ہی نہیں بلکہ ہماری تھوڑی بہت بچی کھچی جمہوریت کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انہی کے ٹکڑوں پہ پلنے والے جب اپنی بھوک مٹانے کے لئے جیسے ہی ان کی حکمرانی جاتے دیکھتے ہیں تو مٹھائیاں تقسیم کرتے اور بھنگڑے ڈالتے فوٹو شوٹ کرانے کے لئے ادھار مٹھائیاں بھی خریدتے ہیں پھر ان کی جگہ آنے والے حکمرانی میں حصہ بقدر اپنی جگہ بنانے کے لئے کوشاں ہو جاتے ہیں اور آنے والے کے ساتھ بھی اپنے سابقہ کردار ادا کرنے کے لئے عوام میں ان کی مقبولیت کھونے کا احساس تک نہیں ہونے دیتے۔
سن تو سہی جہاں میں تیرا افسانہ ہے کیا
کہہ رہی ہے مخلوق خدا تجھے غائبانہ کیا

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے ساتھ ہیں اور نہیں ہو کے اندر کے لئے تے ہیں ہیں کہ

پڑھیں:

شہباز، بہترین، اسٹیبلشمنٹ وزیراعظم کی صلاحیتوں سے خوش

اسلام آباد (نیوز ڈیسک)آرمی چیف کی زیر قیادت موجودہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو وزیراعظم شہباز شریف کی صلاحیتوں اور کارکردگی پر مکمل اعتماد ہے۔

ایک سینئر ذریعے نے شہباز شریف کو ’’بہترین‘‘ قرار دیا کہ انہوں نے کارکردگی، سخت محنت، انتظامی نظم و ضبط، محتاط سفارت کاری اور پاکستان کی پاور ڈائنامکس کی گہری سمجھ بوجھ سے اسٹیبلشمنٹ کا بھروسہ حاصل کیا ہے۔

ایک ذریعے کے مطابق، موجودہ منقسم سیاسی ماحول اور معاشی چیلنجز کے دور میں وزیراعظم شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو کے عہدے کیلئے بہترین انتخاب سمجھتی ہے۔

اسٹیبشلمنٹ کا شہباز شریف پر بھروسہ یکطرفہ نہیں۔ شہباز شریف آرمی چیف کی پیشہ ورانہ مہارت، نظم و ضبط اور قومی ویژن کی تعریف کے معاملے میں عوامی اور نجی سطح پر کھل کر بات کرتے رہے ہیں۔

کئی مرتبہ، وزیراعظم نے قوم کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں حکومت کی ’’غیر متزلزل حمایت‘‘ کا کریڈٹ آرمی چیف اور فوج کو دیا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم کئی مرتبہ کھل کر آرمی چیف کی تعریف کر چکے ہیں لیکن ایک باخبر ذریعے کا دعویٰ ہے کہ جنرل عاصم منیر بھی فوجی حلقوں میں شہباز شریف کے بحیثیت وزیراعظم کارکردگی کی تعریف کرتے نظر آئے ہیں۔

باہمی احترام اور ستائش کا یہ غیر معمولی مظہر ایک ایسے نظام کو مستحکم رکھے ہوئے ہے جس میں تاریخی طور پر اہم طاقتور حلقے ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے نظر نہیں آتے۔

کچھ لوگ قیاس آرائیاں کرتے ہیں کہ شہباز شریف شاید اسٹیبلشمنٹ کی امیدوں پر پورا نہیں اترے، لیکن قابل بھروسہ ذرائع ایسے دعووں کی سختی تردید کرتے ہیں۔ عموماً شہبازشریف کو ایک ایسے شخص کے طور پر جانا جاتا ہے جو کام کرکے دکھاتا ہے، اور کافی عرصہ سے وہ اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ بھی رہے ہیں۔

حتیٰ کہ نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹنے والے جنرل پرویز مشرف بھی بہترین انتظامی کارکردگی کی وجہ سے شہبازشریف کے معترف تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جس ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کی 2013ء تا 2017ء کی حکومت میں ان کو اقتدار سے نکال باہر کیا تھا، وہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف کو آئندہ کے اقتدار کیلئے اپنی پہلی چوائس سمجھتی تھی۔

لیکن شہباز شریف کو اس وقت جیل میں ڈال دیا گیا جب انہوں نے اپنے بڑے بھائی کا ساتھ نہ چھوڑنے کا فیصلہ سنا دیا۔ بالآخر اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی حمایت کی اور اس کے بعد جو ہوا وہ سبھی جانتے ہیں۔

انصار عباسی

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • شہباز، بہترین، اسٹیبلشمنٹ وزیراعظم کی صلاحیتوں سے خوش
  • مولانا فضل الرحمان کی مرضی اتحاد کرتے ہیں یا نہیں، عمر ایوب
  • ٹرمپ ٹیرف: چین کا امریکا کے خوشامدی ممالک کو سزا دینے کا اعلان
  • یو این او کو جانوروں کے حقوق کا خیال ہے، غزہ کے مظلوموں کا کیوں نہیں،سراج الحق
  • ڈھائی ہزار پاکستانی کام کرتے ہیں،فوڈ چین پر حملہ اچھی بات نہیں،عظمیٰ بخاری
  • پارٹی کا سوشل میڈیا علیمہ خان کنٹرول کرتی ہیں،حیدر مہدی،عادل راجا انہی کی ایما پر پراپیگنڈا کرتے ہیں‘ شیر افضل مروت
  • کومل میر کی کاسمیٹک سرجری اور وزن میں اضافے پر لب کشائی
  • برداشت ختم ہوئی تو آپ کو مذمت کا موقع بھی نہیں ملے گا: جنید اکبر 
  •  دو ریاستی حل ہم کبھی بھی اسرائیل کو قبول ہی نہیں کرتے، فخر عباس نقوی 
  • کینال منصوبوں سے سندھ اور پنجاب کے کسانوں کو نقصان ہوگا، سعید غنی