Nai Baat:
2025-04-22@17:20:27 GMT

مشرق و مغرب کا عروج!

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

مشرق و مغرب کا عروج!

ہم اس وقت اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں اور اکیسویں صدی مغرب کی صدی کہلاتی ہے۔ مغربی طاقتیں پچھلی تین چار صدیوں سے دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں۔ مغرب کا یہ عروج انسانیت اور خود زمینی سیارے کے لیے کیا تباہی لا سکتا ہے اس کے لیے آپ یہ رپورٹ پڑھیں۔ حال ہی میں معروف جریدے Food Nature میں ایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں دنیا میں ایٹمی جنگ کی صورت میں ممکنہ تباہی کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کو کمپیوٹر سیمولیشن (Simulations) کی مدد سے تیار کیا گیا ہے جس میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے پیدا ہونے والی تابکاری، حدت اور دھماکے کی شدت اور اس سے پیدا ہونے والی تباہی کی منظر کشی کی گئی ہے۔ رپورٹ کی تیار ی کیلئے تصوراتی طور پر 750 کلو ٹن طاقت کے بم کے حملے کو بنیاد بنایا گیا اور یہ بم ناگا ساکی پر گرائے جانے والے بم سے تین گنا زیادہ طاقت کا حامل ہو گا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر دنیا میں ایٹمی جنگ چھڑتی ہے تو 6 ارب 70 کروڑ افراد لقمہ اجل بن جائیں گے اور خوراک کی ترسیل کا سار انظام تباہ و برباد ہو جائے گا۔ امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے اکثر حصوں میں قحط جیسی صور تحال پیدا ہو جائے گی۔ جنگ میں براہ راست شریک ہونے والے ممالک مثلاً امریکہ، یورپ، روس، جنوبی ایشیا کے ممالک کے ستر فیصد آبادی تباہ ہو جائے گی۔ جنوبی امریکہ، آسٹریلیا اور کئی چھوٹے خطے ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کو نسبتاً بہتر طور پر سہہ پائیں گے کیونکہ ان ممالک کی زراعت زیادہ مستحکم بنیادوں پر استوار ہے۔ ارجنٹائن، برازیل، یوراگوئے، پیراگوئے، آسٹریلیا، آئس لینڈ اور عمان زراعت کے معاملے میں مستحکم ممالک ہیں اس لیے ایٹمی جنگ کی صورت میں یہ ممالک عالمی بحران کے باوجود اپنے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے قابل رہیں گے۔ ایٹمی جنگ کی صورت میں لائیو سٹاک پر انحصار کرنے والا غذائی نظام دو طرح کے حالات سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اول یہ کہ مویشی ہلاک نہیں ہوتے اور غذائی نظام کام کرتا رہتا ہے۔ دوم یہ کہ پہلے سال دنیا کے آدھے مویشی ہلاک ہو جائیں گے اور آدھے مویشی انسانی خوراک کے کام آئیں گے۔ جنگ اگر دوسرے سال میں داخل ہو گئی تو لوگوں کو کم ترین غذائیت کے ساتھ زندہ رہنا پڑے گا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایٹمی جنگ کی صورت میں محفوظ ترین جگہ گھر کا وہ کمرہ ہو گا جو دروازے کھڑکیوں سے دور کسی کونے میں ہو گا۔ یا ایسی خندق اور گہرا گھڑا جو کسی مناسب جگہ پر ہو اور شدید دھماکے اور شدید آندھی سے تحفظ دے سکے۔ رپورٹ کے مطابق ایٹمی جنگ کی صورت میں بعض علاقے ایسے ہیں جو جغرافیائی اعتبار سے اپنی الگ تھلگ حیثیت کی وجہ سے نسبتاً محفوظ رہیں گے۔ مثلاً انٹار کٹیکا ایٹمی جنگ کی صورت میں محفوظ ترین مقام ہو گا۔ یہ دنیا کے آخری کنارے پر واقع ہے اور یہ انتہائی وسیع و عریض علاقہ ہے۔ ایٹمی جنگ کی صورت میں ہزاروں لوگ یہاں پناہ حاصل کر سکتے ہیں۔ کچھ ممالک جنگ میں غیر جانبدار رہنے کی وجہ سے محفوظ رہ سکتے ہیں مثلاً آئس لینڈ جنگ میں کسی کی حمایت نہیں کرے گا لیکن یورپ پر ہونے والے حملوں کے کچھ اثرات یہاں بھی پہنچیں گے۔ نیوزی لینڈ بھی غیر جانبدار ملک ہے اور دوسرا یہ کہ یہ پہاڑی علاقوں سے بھرا پڑا ہے اس لیے ایٹمی اثرات سے محفوظ رہے گا۔ سوئٹزرلینڈ بھی پہاڑی علاقوں سے بھرا پڑا ہے اس لیے محفوظ رہے گا۔
مغرب پچھلی کئی دہائیوں سے مسلم ممالک پر تو جارحیت جاری رکھے ہوئے تھا اب چند سال سے مغربی دنیا کے مابین بھی کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ روس یوکرین تنازع کسی بھی وقت کسی بھی بڑے سانحہ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ پچھلے دنوں روس کے سابق صدر دمتری میدوف نے کہا تھا کہ روسی میزائل مغربی ممالک کے دفاعی حصار کو چکمہ دے کر آناً فاناً یورپی شہروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور اگر ان میزائلوں کے وار ہیڈ ایٹمی ہوئے تو یورپ اس نقصان کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ان میزائلوں کو مار گرانا یورپ کے جدید ترین دفاعی نظام کیلئے ممکن نہیں ہو گا اور یہ سارا کھیل چند منٹوں میں مکمل ہو جائیگا۔ روس نے پہلے ہی خبردار کر رکھا ہے کہ اگر روس اور اسکے اتحادیوں کیخلاف روایتی ہتھیاروں سے بڑھ کر کوئی طاقت استعمال کی گئی تو روس اس کے جواب میں ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ مغرب کی ان حرکتوں کے نتیجے میں اگر ایٹمی جنگ چھڑتی ہے تو اس کے ممکنہ نتائج ہم اور ذکر کر چکے ہیں۔
اس سارے منظر نامے کو دیکھنے کا ایک زاویہ یہ ہے کہ آج مغرب کے دور عروج میں انسانیت اور یہ زمینی سیارہ تباہی سے صرف چند قدم دور ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ماضی میں جب مسلمان عروج پر تھے تو انہوں نے نہ صرف مسلم دنیا بلکہ عالمی سطح پر امن، استحکام اور ترقی کو یقینی بنایا تھا۔ خاص طور پر عباسی خلافت اور عثمانی سلطنت کی مثالیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ مسلمانوں کی حکمرانی نے عالمی استحکام کو فروغ بخشا۔ مسلمانوں کے دور عروج میں دنیا کا مجموعی نظام معاشی، سائنسی اور ثقافتی ترقی کی طرف مائل تھا اور انسانوں نے عالمی تجارت، تعلیم، فنون اور علوم میںبے شمار کامیابیاں حاصل کیں۔ اس کے برعکس جب مسلمان زوال پذیر ہوئے تو عالمی سطح پر کئی مسائل نے جنم لیا۔ مسلمانوں کے زوال کا ایک بڑا نتیجہ یہ تھا کہ عالمی طاقتوں کے درمیان سیاسی خلا پیدا ہو گیا جس کا فائدہ مغربی طاقتوں نے اٹھایا۔ مغرب نے اپنی اقتصادی، فوجی اور سائنسی طاقت کو فروغ دیا اور عالمی سطح پر تسلط قائم کیا۔ اس تسلط کی بنیاد پر مغربی ممالک نے اپنے مفادات کے لیے جنگوں اور وسائل کا استحصال کیا جس سے نہ صرف مسلم دنیا بلکہ مجموعی طور پر دنیا بھر میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوئی۔ بیسویں صدی میںمغرب نے عالمی سطح پر 50 سے زائد جنگوں اور تنازعات کو جنم دیا جن میں لاکھوں افراد ہلاک اور کروڑوں بے گھر ہوئے۔ ان جنگوں کا ایک بڑا حصہ مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ میں تھا جو قدرتی وسائل کی لڑائی اور سیاسی اثر و رسوخ کے لیے لڑی گئیں۔ اگر مغرب کا یہ عروج جاری رہا اور اس عروج کی سرپرستی میں ایٹمی جنگ ہوئی تو دنیا میںکتنی بڑی تباہی آ سکتی ہے اس کا تذکرہ ہم اوپر کر چکے ہیں۔ جبکہ ماضی میں مسلمانوں کے دور عروج میں ایسا کوئی عالمی تصادم یا جنگ نہیں ہوئی جو اتنی بڑی تباہی کا سبب بنی ہو بلکہ بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے عہد عروج میں عالمی سیاست میں توازن، سماج میں امن، علوم و فنون میں ترقی اور زمینی سیارے پر اعتدال قائم رہا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: عالمی سطح پر مسلمانوں کے میں ایٹمی پیدا ہو سکتا ہے ہے کہ ا اور یہ گیا ہے کے لیے

پڑھیں:

تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار

تہران(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اپریل ۔2025 ) اعلیٰ ایرانی عہدیدار نے بتایا ہے کہ تہران امریکا کو واضح کرچکا ہے کہ یورینیم کی افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن اس کے لیے مضبوط ضمانتوں کی ضرورت ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نئے جوہری معاہدے سے دوبارہ دستبردار نہیں ہوں گے.

(جاری ہے)

عرب نشریاتی ادارے نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان روم میں ہونے والے مذکرات کے دوسرے دور کو دونوں فریقوں نے مثبت قرار دیا ہے صدر ٹرمپ نے فروری سے تہران پر”زیادہ سے زیادہ دباﺅ“ کی مہم دوبارہ نافذ کی ہے اپنی پہلی مدت کے دوران 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے ایٹمی معاہدے سے 2018 میں دستبردار ہو گئے تھے اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں.

ٹرمپ کی دو شرائط کے درمیان کے سالوں میں تہران نے 2015 کے معاہدے کے تحت اپنے ایٹمی پروگرام پر عائد پابندیوں سے مسلسل تجاوز کیا ان پابندیوں کا مقصد ایٹمی بم تیار کرنا مزید مشکل بنانا تھا سابق امریکی صدر جو بائیڈن، جن کی انتظامیہ نے 2015 کے معاہدے کو بحال کرنے کی ناکام کوشش کی تھی تاہم وہ تہران کی جانب سے اس ضمانت کے مطالبے کو پورا کرنے میں ناکام رہے کہ آئندہ کوئی امریکی انتظامیہ معاہدے سے دستبردار نہیں ہوگی.

تہران احتیاط کے ساتھ مذاکرات کے قریب پہنچ رہا ہے وہ کسی معاہدے تک پہنچنے کے امکان کے بارے میں شکوک اور ٹرمپ کے موقف پر شکوک و شبہات کا شکار ہے ٹرمپ نے بارہا دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے یورینیم کی افزودگی کے تیز رفتار پروگرام کو روکا نہیں تو ایران پر بمباری کی جائے گی ایران کا مسلسل کہنا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن ہے. تہران اور واشنگٹن کہہ چکے ہیں کہ وہ سفارت کاری کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں لیکن دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری تنازع پر ان کے موقف ایک دوسرے سے الگ ہیں ایرانی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ تہران کی ریڈ لائنز جو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے لگائی گئی ہیں کو مذاکرات میں عبور نہیں کیا جا سکتا.

ایرانی عہدیدار نے کہا کہ ایران کی ریڈ لائنز کا مطلب ہے کہ وہ اپنے یورینیم کی افزودگی سینٹری فیوجز کو ختم کرنے، افزودگی کو مکمل طور پر روکنے یا افزودہ یورینیم کی مقدار کو اس سطح تک کم کرنے پر راضی نہیں ہوگا جو 2015 کے معاہدے میں طے پایا تھا انہوں نے کہا کہ وہ اپنے میزائل پروگرام پر بات چیت نہیں کرے گا جسے وہ کسی بھی ایٹمی معاہدے کے دائرہ کار سے باہر سمجھتا ہے ایرانی عہدیدار نے کہا کہ ایران کو عمان میں بالواسطہ بات چیت میں معلوم ہوا کہ واشنگٹن نہیں چاہتا کہ وہ اپنی تمام ایٹمی سرگرمیوں کو روکے یہ ایران اور امریکہ کے لیے منصفانہ مذاکرات شروع کرنے کی بنیاد ہو سکتی ہے یہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ایران نے گزشتہ روز کہا کہ امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ ممکن ہے اگر وہ سنجیدہ ارادوں کا مظاہرہ کرے اور غیر حقیقی مطالبات نہ کرے.

امریکہ کے مذاکرات کار سٹیو وِٹکوف نے کو”ایکس“پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ ایران کو امریکہ کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی ایٹمی افزودگی روکنا اور قریب ترین ہتھیاروں کے درجے کے یورینیم کے ذخیرے کو ختم کرنا ہوگا . ایرانی عہدیدار نے بتایا کہ ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے ایران اس ادارے کو اس عمل میں واحد قابل قبول ادارہ سمجھتا ہے انہوں نے بتایا کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکیوں کو آگاہ کیا ہے کہ امریکہ کو اس تعاون کے بدلے ایران کے تیل اور مالیاتی شعبوں پر عائد پابندیاں فوری طور پر ہٹانی ہوں گی.

متعلقہ مضامین

  •   سابق وومن کرکٹ کی کپتان عروج ممتاز نے حسن علی کے بالوں کا نیا سٹائل بنا دیا
  • مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
  • تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار
  • امریکی ٹیرف مذاکرات میں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک خوشامد سے باز رہیں، چین کا انتباہ
  • مرکزی مسلم لیگ کے تحت کراچی میں شہدائے غزہ کانفرنس
  • پاکستان بطور ایٹمی طاقت مسلم ممالک کی قیادت کرے، اسرائیلی مظالم روکے جائیں، شہدائے غزہ کانفرنس
  • خواتین مردوں کے مقابلے میں لمبی عمر پاتی ہیں، تحقیقی رپورٹ
  • امریکہ کے اندھا دھند محصولات کے اقدامات غلط ہیں،یونیڈو
  • برکس میکانزم گلوبل ساؤتھ میں اتحاد کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم بن چکا ہے ، رپورٹ
  • دنیا کا خطرناک ترین قاتل گانا، جس کو سن کر مرنے والوں کی تعداد تقریباً 100 رپورٹ ہوئی