Jasarat News:
2025-04-22@07:06:49 GMT

مولانا فضل الرحمن کی سیاست اور حالیہ بیانات

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

مولانا فضل الرحمن کی سیاست اور حالیہ بیانات

مولانا فضل الرحمن، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ، ایک زیرک سیاست دان اور پاکستان کی سیاست کا ایک اہم کردار ہیں۔ ان کی حالیہ پریس کانفرنس نے ملک کی جمہوری اور انتخابی خامیوں پر روشنی ڈالی ہے۔ مولانا نے جمہوریت کو ’’ڈھونگ‘‘ قرار دیتے ہوئے اقتدار کے اصل مراکز کی جانب اشارہ کیا اور عام انتخابات کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا کہ کیا 2024 کے انتخابات شفاف تھے؟ موجودہ حکمرانوں کے پاس عوام کا حقیقی مینڈیٹ ہے؟ مولانا فضل الرحمن نے موجودہ جمہوری نظام کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے محض ایک دکھاوا قرار دیا۔ ان کے مطابق اصل طاقت ’’کسی اور‘‘ کے ہاتھ میں ہے، جب کہ سیاست دان آئین اور اصولوں پر سمجھوتے کر لیتے ہیں۔ اس دعوے نے عوام کے ذہن میں یہ سوال پیدا کیا ہے کہ پارلیمنٹ اور حکومت کتنے خودمختار ہیں؟ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جمہوری ادارے ہمیشہ بیرونی دباؤ کا شکار رہے ہیں۔ مولانا کی یہ تنقید ملک کے جمہوری ڈھانچے میں موجود خامیوں کی درست نشاندہی کرتی ہے اور یہ یاد دہانی کراتی ہے کہ یہ نظام ایک گورکھ دھندہ ہے۔ مولانا نے بلوچستان کے دو حلقوں، پی پی 7 اور پی پی 45، کی مثال دے کر انتخابی عمل میں سنگین مسائل کو اجاگر کیا۔ ان کے مطابق نادرا کی رپورٹ میں یہ واضح ہوا کہ پی پی 7 میں صرف 2 فی صد ووٹوں کی تصدیق ہو سکی، جب کہ 98 فی صد ووٹ مشکوک ہیں۔ پی پی 45 کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جیتنے والا امیدوار کسی ایک پولنگ اسٹیشن سے بھی اکثریت حاصل نہ کر سکا، جو انتخابی عمل کے ناقص ہونے کا ثبوت ہے۔ یہ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے انتخابی نظام کے تحت نتائج ہمیشہ ایسے ہی آتے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا کہ اگر انتخابات شفاف نہیں ہوں گے تو عوامی اعتماد کیسے بحال ہوگا؟ ان کا کہنا ہے کہ یہ رویہ عوام کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔ جب عوام کو لگے کہ ان کے ووٹ کی کوئی حیثیت نہیں تو وہ جمہوریت سے متنفر ہو جائیں گے۔ جمہوریت کا حقیقی مطلب عوام کی حکمرانی ہے، لیکن جب عوام کو یہ محسوس ہو کہ ان کا کردار محض رسمی ہے، تو یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ مولانا نے مدارس کے نظام تعلیم میں مداخلت پر بھی سخت اعتراض کیا۔ ان کے مطابق مدارس کسی صورت اپنے نظام میں بیرونی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ پاکستان میں مدارس صرف مذہبی تعلیم کا ذریعہ نہیں بلکہ معاشرتی استحکام اور نوجوان نسل کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ مدارس کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں ترتیب دے جو تعلیمی نظام کو جدید بنائیں لیکن مدارس کے خدشات کو بھی دور کریں۔ لیکن ان باتوں کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی سیاست ہمیشہ اقتدار کے گرد گھومتی رہی ہے۔ ان کی سیاست کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہیں کہ ان کی ترجیحات ہمیشہ ذاتی اور خاندانی مفادات کے تابع رہی ہیں۔ عوامی خدمت اور قومی مسائل کے حل کے بجائے وہ اقتدار کے حصول اور سیاسی اتحادوں کے ذریعے فائدہ اٹھانے تک ہی محدود رہے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کی تشکیل سے لے کر پی ڈی ایم کی قیادت تک، مولانا نے ہر دور میں سیاسی اتحاد قائم کیے اور اپنے اثر رسوخ کو مضبوط کیا۔ وہ اقتدار میں شمولیت کے لیے مختلف جماعتوں کے ساتھ سمجھوتے کرتے رہے ہیں، چاہے وہ نظریاتی طور پر ان کے قریب ہوں یا نہیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور یہاں تک کہ عمران خان کی حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات کی کوشش کی، حالانکہ ان کی جماعت کا عمران خان کے ساتھ نظریاتی اختلاف رہا اور ایک وقت میں وہ عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ کہتے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام بھی دیگر خاندانی جماعتوں کی طرح ایک مخصوص خاندان کی میراث بن چکی ہے۔ جس طرح نواز لیگ اور پیپلز پارٹی خاندانی سیاست کی مثالیں ہیں۔ مولانا کے سمدھی گورنر بن جاتے ہیں، بیٹے وفاقی وزیر، بھائی عطاء الرحمن سینیٹر اور پارٹی عہدے دار، لطف الرحمن خیبر پختون خوا میں اسمبلی رکن، اور مولانا کی سالی شاہدہ اختر رکن قومی اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رکن رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کی پوری سیاست اسی اقربا پروری کے گرد گھومتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود پارٹی کے سربراہ تھے، اور ان کے انتقال کے بعد یہ عہدہ مولانا فضل الرحمن کو منتقل ہوا۔ امکان یہی ہے کہ مستقبل میں یہ عہدہ ان کے بیٹے کو منتقل ہوگا۔ اسی لیے ان پر یہ تنقید بھی کی جاتی ہے کہ وہ اصولوں کے بجائے ذاتی و سیاسی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن ان کی سیاست کو الگ رکھتے ہوئے، اصولی طور پر مولانا فضل الرحمن کے حالیہ بیانات نے ملک کے جمہوری، انتخابی، اور سیاسی مسائل کو ایک بار پھر عوام کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ یہ وقت ہے کہ تمام سیاسی اور سماجی قوتیں مل کر ملک کے بہتر مستقبل کے لیے کچھ سوچیں اور عمل کریں۔ یہ وقت تقاضا کرتا ہے کہ تمام سیاسی اور سماجی قوتیں ملک کے بہتر مستقبل کے لیے سنجیدگی سے سوچیں اور عملی اقدامات کریں۔ عوام کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ اور مخصوص سیاست دانوں کا ’’سیاست‘‘ کے نام پر کھیل کب تک جاری رہے گا؟ یہ ایک اہم سوال ہے، کیونکہ اگر اس کا جواب تلاش نہ کیا گیا تو یہ ملک کے مستقبل کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ بلوچستان سے خیبر پختون خوا تک حالات تشویشناک ہیں، جبکہ امریکا، بھارت اور دیگر دشمن عناصر موقع کی تاک میں ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوم کے ساتھ جاری کھیل اور تماشے کا خاتمہ کیا جائے اور ملک کو ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن کیا جائے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمن مولانا نے کی سیاست عوام کے رہے ہیں کے ساتھ کے لیے ملک کے

پڑھیں:

افغان باشندوں کی وطن واپسی میں حالیہ کمی، وجوہات کیا ہیں؟

نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے دورہ افغانستان کے بعد پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی وطن واپسی کے دوران ان کی سہولت اور شکایات کے ازالے کے لیے اسلام آباد میں کنٹرول روم قائم کر دیا گیا ہے۔

تاہم حکام کے مطابق تمام تر انتظامات کے باوجود بھی گزشتہ کچھ دنوں سے رضاکارانہ افغانستان واپس جانے والوں کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔

واپسی کا عمل سست روی کا شکار

پاکستان حکام کے مطابق پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی رضاکارانہ واپسی کا دوسرا مرحلہ یکم اپریل سے شروع ہوچکا ہے جس کے تحت افغان سٹیزن کارڈ کے حامل افغان باشندوں کی واپسی ہو رہی ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے احکامات کے بعد محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا نے پاک افغان مرکزی گزرگاہ طورخم کے قریب لنڈی کوتل کے مقام پر کیمپ قائم کیا ہے، محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق یکم اپریل سے عید تک روزانہ  2500 سے 3000 افغان باشندے پاکستان سے واپس افغانستان جا رہے تھے۔

لیکن عید کے بعد واپسی کے عمل میں ان میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے اور گزشتہ چند دنوں میں یہ تعداد ہزاروں سے کم ہو کر سینکڑوں میں رہ گئی ہے، جو حکام کے لیے تشویش کا باعث بن رہی ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ روز 479 افراد نے افغانستان واپسی کا سفر کیا۔

واپس جانے والے افغان باشندوں کے لیے حکومتی انتظامات

پاکستان سے افغان باشندوں کی باعزت واپسی اور سہولت کے لیے پاکستان نے موثر اقدامات اٹھائے ہیں، حکام کے مطابق پنجاب سے بھی زیادہ تر افغان باشندے واپسی کے لیے طورخم کا رخ کرتے ہیں اسی بنیاد پر لنڈی کوتل کے مقام پر کیمپ قائم کیا گیا ہے، جہاں رات قیام کی بھی سہولت ہے جبکہ واپس جانے والوں کی ضروری تصدیق کے بعد مکمل سیکیورٹی میں طورخم پر لے جایا جاتا ہے۔

خصوصی کنٹرول روم قائم

حکام کے مطابق نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کے دورے افغانستان کے دوران افغان باشندوں کی جائیداد کے حوالے سے تحفظات سامنے آئے تھے، جس کے بعد ان شکایات کے ازالے کے لیے ایک کنٹرول روم قائم کرکے ہیلپ لائن نمبر بھی جاری کیے گئے ہیں، تاکہ افغان باشندوں کی شکایات کا بروقت ازالہ کیا جا سکے۔

حکام کے مطابق کنٹرول روم نیشنل کرائسس اینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سیل میں قائم کیا گیا ہے، جو 24 گھنٹے افغان شہریوں کی معاونت کے لیے کام کرے گا۔

اب تک کنتے افراد افغانستان واپس گئے؟

پاکستان میں مقیم افغان سٹیزن کارڈ کے حامل افغان باشندوں اور غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے، محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دوسرے مرحلے کے تحت گزشتہ روز 479 افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز اور 1008 غیر قانونی تارکین وطن کو طورخم بارڈر کے راستے افغانستان روانہ کیا گیا۔

دوسرے مرحلے میں یکم اپریل سے اب تک مجموعی طور پر 26083 افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے افراد رضاکارانہ طور پر واپس گئے ہیں جبکہ 17892 غیر قانونی تارکین وطن کو واپس افغانستان بھیجا جا چکا ہے، اب تک دوسرے مرحلے میں مجموعی طور پر 43496 افراد افغانستان واپس گئے۔

یہ بھی پڑھیں: تمام صوبے آن بورڈ ہیں، افغان باشندوں کی وطن واپسی کی ڈیڈ لائن میں توسیع نہیں ہو رہی، طلال چوہدری

اعداد و شمار کے مطابق اسلام آباد سے 1982 ، پنجاب سے 16624، گلگت سے 2 جبکہ آزاد کشمیر سے 1019 افراد اور سندھ سے 44 افراد کو طورخم کے راستے افغانستان واپس بھیجا گیا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 2023 سے لے کر اب تک خیبر پختونخوا کے مختلف بارڈرز سے مجموعی طور پر 5 لاکھ 15 ہزار 892 افغان باشندوں کو وطن واپس بھیجا جا چکا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ حکومت اس عمل کو مزید شفاف، منظم اور انسانی ہمدردی کے اصولوں کے تحت جاری رکھنا چاہتی ہے تاکہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کو باعزت طریقے سے ان کے ملک واپس بھیجا جا سکے۔

واپسی کا عمل سست روی کا شکار کیوں؟

پاکستان حکام کے مطابق پاکستان سے افغان باشندوں کی واپسی کا عمل مرحلہ وار جاری ہے اور اس وقت طورخم سے واپس جانے والوں سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں مقیم افغان شہروں کی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق دوسرے مرحلے میں سب سے زیادہ 16624 افغان باشندے پنجاب سے طورخم کے راستے اپنے ملک واپس گئے جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ واپسی میں کمی آنے لگی ہے۔

مزید پڑھیں: افغان تارکین وطن کی واپسی، کوئٹہ کی کاروباری صورتحال کتنی متاثر ہوئی ہے؟

افغان باشندوں کی واپسی کی نگرانی کرنے والے ایک سرکاری افیسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ دوسرے مرحلے کے آغاز پر کریک ڈاؤن اور حکومتی کاروائی کا ڈر تھا اور گرفتاری اور قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے واپسی میں تیزی آئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ سب سے زیادہ افغان باشندے خیبر پختونخوا میں مقیم ہیں، جن کی واپسی ابھی تک شروع نہیں ہوسکی ہے،ان کے مطابق ابھی تک افغان باشندوں کی وطن واپسی بیشتر پنجاب سے ہی ہورہی ہے۔

’جن افغان شہریوں نے پاکستان میں گھر خریدا ہے یا ان کی یہاں جائیداد ہیں وہ ابھی تک وطن واپسی کا فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں، زیادہ تر افغان باشندے اپنے سامان بھی ساتھ لے کر جا رہے ہیں تاکہ وہاں ان کی زندگی آسان ہو۔‘

گھر زمین کچھ نہیں وہاں جا کر کیا کریں گے؟‘

’منی کابل‘ کہلائے جانیوالے پشاور کے بورڈ بازار میں افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے، یہاں کے سبزی فروش افغان شہری سمیع اللہ نے بتایا کہ افغان باشندے سخت پریشانی میں مبتلا ہیں اور منتظر ہیں کہ کسی بھی وقت پاکستانی حکومت یہ فیصلہ واپس لے۔

‘میری پیدائش پاکستان کی ہے، اردو بول سکتا ہوں، دوست گھر سب یہاں ہیں، واپس جا کر کیا کروں گا، وہاں نہ گھر ہے نہ زمین۔‘

سمیع اللہ نے بتایا کہ اکثر لوگ پولیس کارروائی کے ڈر سے جا رہے ہیں، خوشی سے کوئی نہیں جا رہا، انہوں نے بتایا کہ ان کا تین مرلے کا گھر بھی ہے اور اس وقت تک رہیں جب تک زبردستی نکال نہیں دیتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آزاد کشمیر اسحاق ڈار اسلام آباد افغان سٹیزن کارڈ افغان شہریوں افغانستان پنجاب تارکین وطن خیبرپختونخوا رضاکارانہ سمیع اللہ سندھ طورخم غیر قانونی کنٹرول روم گلگت لنڈی کوتل ہیلپ لائن وزیر خارجہ

متعلقہ مضامین

  • فضل الرحمن حافظ نعیم ملاقات : جماعت اسلامی ، جے یوآئی کا غزہ کیلئے اتحاد ، اپریل کو پاکستان پر جلسہ 
  • افغان باشندوں کی وطن واپسی میں حالیہ کمی، وجوہات کیا ہیں؟
  • پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں بات چیت ہوسکے، فضل الرحمان
  • مولانا فضل الرحمٰن اور امیر جماعت اسلامی کے درمیان ملاقات آج ہوگی
  •  امت کا حوالہ حضور ؐکے ساتھ عظیم تعلق، رشتہ اور نسبت ہے،پیر نقیب الرحمن
  • مولانا فضل الرحمن کا پاکستان تحریک انصاف کیساتھ سیاسی اتحاد کرنے سے انکار
  • بلوچستان کو خیرات نہیں، بلکہ حقوق دیں، مولانا ہدایت الرحمان
  • یہ وقت جھوٹے بیانات، شعبدہ بازی کا نہیں، عوامی خدمت کا ہے: عظمیٰ بخاری 
  • کینالز منصوبہ پیپلز پارٹی ہی مسترد کرائے گی، وزیراعلیٰ سندھ
  • ینالز منصوبہ پیپلز پارٹی ہی مسترد کرائے گی، وزیراعلیٰ سندھ