ناجائز تجاوزات کی بھرمار، میئر حیدرآباد خاموش
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
(رپورٹ ابراہیم انڑ)حیدرآباد میونسپل کارپوریشن اور سائٹ ایسوسی ایشن آمنے سامنے ، تجاوزات کیخلاف ٹاؤن چیئرمین کو خط لکھنے پر صنعتی علاقے میں ایچ ایم سی کی انتقامی کارروائیاں، تفصیلات کے مطابق صنعتی علاقے میں بڑھتی ہوئی تجاوزات کے خاتمے کیلئے 11دسمبر کو ٹاؤن سچل سرمست کو خط لکھا گیا کہ صنعتی علاقے سے تجاوزات کو ختم کروایا جائے جس کے بعد میئر حیدرآباد کی چہیتی افسر انکروچمنٹ انچارج رشیدہ بانو رئیس نے حیدرآباد کے صنعتی علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے شاپنگ مالز اور فیکٹری کا لاکھوں روپیوں کا سامان ضبط کرلیا اور توڑ پھوڑ کیلئے نشانات بھی لگا دیئے ، ذرائع کے مطابق بھتہ نہ ملنے پر سائٹ ایریا میں فیکٹری اور شاپنگ مال کیخلاف کارروائی کی جارہی ہے جبکہ مزید بتایا کہ شہر میں بڑھتی ہوئی تجاوزات کیخلاف میئر حیدرآباد کاشف شورو کی جانب سے کسی قسم کا اقدام نہیں لیا گیا،حیدر چوک گاڑی کھاتہ،ٹاور مارکیٹ قاسم آباد سمیت دیگر علاقوں میں تجاوزات کی بھرمار ہونے کے باوجود کوئی بھی کارروائی نظر نہیں آرہی جبکہ سائٹ ایریا میں انتقامی کارروائیاں ہورہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ڈی سی حیدرآباد نے سائٹ لمیٹڈ اور ایچ ایم سی کے تنازع کی شدت کو کم کرنے کیلئے کمیٹی قائم کردی،انکروچمنٹ انچارج لطیف آباد رشیدہ بانو رئیس سے موقف لینے کیلئے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر اُن کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: صنعتی علاقے تجاوزات کی
پڑھیں:
خاموش طاقت، نایاب معدنیات کی دوڑ
زمانہ قدیم سے ہی سلطنتوں کی عظمت کا دارومدار ان کے زیرِزمین خزانوں اورتجارتی شاہراہوں پررہا ہے۔ آج بھی جب چین اورامریکا جیسے عظیم اقتصادی طاقتوں کے مابین تجارتی جنگ کی آگ بھڑکتی ہے،تواس کامرکزصرف محصولات تک محدودنہیں رہتابلکہ یہ جنگ اب ان نایاب معدنیات تک پھیل چکی ہے جوجدید ٹیکنالوجی کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہیں ۔ چین نے حال ہی میں ان معدنیات کی برآمد پرپابندیوں کااعلان کرکے امریکاکوایک ایسے میدان میں للکاراہے جہاں اس کی کمزوریاں عیاں ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔امریکااور چین کے درمیان ایک دوسرے کی اشیاء پرٹیرف اورجوابی ٹیرف لگانے کی اس تجارتی جنگ کاپس منظرنہ تونیاہے اورنہ ہی اچانک سامنے آیاہے۔
عالمی سیاسی منظرنامہ گزشتہ چنددہائیوں سے جس کروٹ پرہے،اس میں معیشت اورٹیکنالوجی کا امتزاج طاقت کے نئے پیمانے متعین کررہاہے۔یہ دور میدانِ جنگ میں گولیوں کی گونج سے زیادہ،معدنی وسائل کی تقسیم پرمبنی پالیسیوں کی گونج سن رہاہے۔چینی دانشورڈینگ شیوپنگ کایہ جملہ آج تاریخ کی سچائی بن چکاہے کہ ’’مشرقِ وسطیٰ‘‘ کے پاس تیل ہے،ہمارے پاس نایاب معدنیات ہیں۔
چین اورامریکاکے مابین جاری تجارتی جنگ اس وقت نہایت ہی نازک موڑپرآپہنچی ہے۔ایک طرف دونوں ممالک ایک دوسرے پربھاری محصولات (ٹیرف)عائدکرکے معاشی ضربیں لگارہے ہیں، تو دوسری طرف چین نے اپنی سب سے بڑی طاقت نایاب معدنیات کوبطورہتھیارا ستعمال کرناشروع کردیا ہے۔ ان معدنیات کی برآمدپرپابندی کے احکامات جاری کرنا امریکاکے لئے ایساہی ہے جیسے کسی زندہ جسم سے سانس کی ڈورکھینچ لی جائے۔
امریکاکاان نایاب معدنیات پرانحصار بے حد زیادہ ہے۔ سکینڈیئم، یٹریئم، لانتھانم اور دیگر ریئرارتھ عناصرجدید ٹیکنالوجی کے بنیادی ستون ہیں۔میزائل سازی،جیٹ طیارے ،موبائل فونز،ریڈار،الیکٹرک گاڑیاں،اورحتیٰ کہ سبزتوانائی کی مصنوعات میں ان کا استعمال لازم ہے۔ان معدنیات کو’’نایاب ‘‘اس لئے کہاجاتاہے کہ یہ زمین میں قلیل مقدارمیں پائے جاتے ہیں،اور انہیں علیحدہ کرنا،صاف کرنااورپروسیس کرنا انتہائی مہنگااورماحول دشمن عمل ہے۔
دنیامیں سب سے زیادہ ذخائرآسٹریلیا، چین،امریکا،برازیل اورروس میں پائے جاتے ہیں،مگر پروسیسنگ کا92فیصدحصہ صرف چین کے پاس ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق،چین اس وقت عالمی سطح پر61 فیصدتک نایاب معدنیات پیداکرتاہے اور92 فیصدتک ان کی ریفائننگ چین کے ہاتھ میں ہے۔اس یکطرفہ اجارہ داری نے چین کواس شعبے کابلاشبہ شہنشاہ بنادیاہے۔
یہ معدنیات نہ صرف قیمتی ہیں بلکہ ماحولیاتی طورپرمہلک بھی ہیں۔ان کی کان کنی میں تابکاری عناصرشامل ہوتے ہیں، جوماحول اورانسانی صحت کے لئے خطرناک ہیں۔یہی سبب ہے کہ یورپ اوردیگر مغربی اقوام نے اس میدان سے راہِ فرار اختیارکی اور چین نے اس خلاکوکئی دہائیوں کی جامع منصوبہ بندی سے پرکر دیا ۔ چین نے سات اہم نایاب معدنیات کی برآمد پر پابندی لگادی ہے،جن میں ایسے عناصربھی شامل ہیں جوامریکی دفاعی صنعت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس اقدام سے نہ صرف امریکاکی دفاعی تیاریوں میں خلل پڑا،بلکہ عالمی منڈی میں بے چینی بھی بڑھ گئی ہے۔
چین نے اپریل سے برآمدات کے لئے سپیشل لائسنس لازمی قراردے دیاہے،جوکہ’’دوہری استعمال‘‘ کے معاہدات کے تحت ایک جائزقدم ہے۔یہ معدنیات جنگی اورغیر جنگی، دونوں ٹیکنالوجیزمیں استعمال ہوتی ہیں، جس سے ان کی حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ سینٹرآف سٹریٹجک اینڈانٹرنیشنل سٹڈیزکی رپورٹ کے مطابق، ایف 35 جیٹس، ٹوموہاک میزائل اوردیگرہائی ٹیک دفاعی آلات کا انحصارانہی معدنیات پرہے۔چین کی موجودگی نہ ہوتوامریکاکے لئے یہ دفاعی سلسلہ تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔
امریکاکے پاس بھی محدودمقدارمیں ذخائر ہیں، مگرپروسیسنگ کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین سے معاہدے کی کوشش کی تاکہ چین پرانحصارکم کیاجاسکے۔ بدقسمتی سے،یوکرین کے وہ علاقے جہاں یہ معدنیات ہیں،روسی قبضے میں آچکے ہیں۔دراصل یوکرین کی جنگ میں امریکا اوریورپ کی دلچسپی انہی معدنیات کی وجہ سے ہے لیکن ناکامی کی وجہ سے اب ٹرمپ کی پالیسی کایوٹرن انہی مفادکے لئے ہے۔اسی لئے ٹرمپ نے یوکرین کے زیلنسکی کوکھلی دھمکی سے مرعوب کرنے کی کوشش کی تھی اوراس سے براہِ راست ان معدنیات کے حصول کامطالبہ کیاتھا جوابھی تک پور انہیں ہوسکا۔
گرین لینڈکوامریکاخریدنے کی پیشکش کرچکا ہے۔ معدنیات سے مالامال یہ خطہ،ڈنمارک کی مالی امدادپرانحصارکرتاہے،مگرٹرمپ کی جارحانہ حکمت عملی نے اس تجویزکوعالمی سطح پرمزاح کانشانہ بنادیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے غیرمتوازن فیصلوں نے امریکاکودوہری مشکل میں ڈال دیاہے۔نہ صرف اس نے چین جیسے اجارہ دار کو ناراض کردیاہے بلکہ یورپ جیسے اتحادی بھی اس کے اقدامات سے نالاں ہیں۔یہ جنگ محض تجارتی یااقتصادی نہیں بلکہ عالمی طاقت کے نئے مراکزکاتعین کررہی ہے۔اگرامریکا نے وقت پرکوئی نیا راستہ نہ چنائوتوممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ میدانِ جنگ میں موجودتو ہو،مگراس کے پاس جنگ جیتنے کے لئے ہتھیار نہ ہوں۔یوں بھی تاریخ سے یہ ثابت ہوچکاہے کہ امریکااب تک36سے زائدممالک میں جارحیت کا مرتکب ہوچکاہے اورہرجنگ کا مقدررسواکن شکست اور فرار پر مبنی ہے۔آئیے!چین اورامریکا میں موجودہ تناؤکو سمجھنے کے لئے اس تنازعہ کا شواہدکے ساتھ تجزیہ کرتے ہیں کہ مستقبل میں طاقت کے مراکز کس کے ہاتھ میں ہوگا؟
دراصل اس کشیدگی کی بنیادٹرمپ نے اپنے پہلے دورِاقتدارمیں2018ء میں چین پرٹیکنالوجی چوری، غیرمنصفانہ تجارتی پالیسیوں،اورذہین ملکیتی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائدکرتے ہوئے250 ارب ڈالرمالیت کی چینی مصنوعات پر ٹیرف لگاکررکھی تھی جس کے جواب میں چین نے اپنے ردعمل میں 110ارب ڈالرکی امریکی مصنوعات(سویا بین،الیکٹرانکس، پٹرولیم) پر ٹیرف کاجواب دیاتھا۔2023ء تک دونوں ممالک کے درمیان 50 فیصد تک اضافی ٹیرف عائدہوچکے تھے۔ پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، امریکا کو 2023ء تک0.5 فیصد جی ڈی پی کانقصان،جبکہ چین کو1.2 فیصد جی ڈی پی کااقتصادی دھچکالگا۔گویاامریکااورچین کے درمیان یہی نایاب معدنیات کامحاذایک مرتبہ پھر ایک خوفناک جن کی صورت میں عالمی تجارتی منڈی میں آن پہنچاہے۔
نایاب زمینی معدنیات وہ17کیمیائی عناصر ہیں جن کے بغیرآج کی ٹیکنالوجی چاہے وہ اسمارٹ فونزہوں،الیکٹرک گاڑیاں یاجنگی میزائل سسٹم ،ناممکن ہیں۔ سکینڈیئم سے لے کر لٹیٹیئم تک،یہ تمام عناصرایسے ہیں جوزمین کی گودمیں تووافرمقدارمیں موجودہیں، مگران کانکالنااورصاف کرناانتہائی مشکل اورمہنگاعمل ہے۔تاریخی طورپر،ان کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ بیسویں صدی میں یورینیم کے بعدیہی وہ دوسرے خاموش ہتھیارہیں جونہ صرف عالمی طاقتوں کی جنگی اوراقتصادی پالیسیوں کو تشکیل دیتے ہیں بلکہ یہ نایاب معدنیات جدید تہذیب کامضبوط ستون بن کر مستقبل فاتح قوم کااستعارہ بن گئی ہیں۔
گزشتہ دوعشروں میں چین نے نہ ان معدنیات کی کان کنی اوران کی پروسیسنگ میں بھی دنیاپرغلبہ حاصل کرلیاہے۔کان کنی سے پروسیسنگ تک چین کی بالادستی نے امریکاکی صنعتی اورمعاشی دنیا پرلرزہ طاری کردیا ہے۔ بین الاقوامی اعدادوشمارکے مطابق، چین اس وقت دنیا بھر میں61 فیصد نایاب معدنیات پیداکرتاہے، جبکہ ان کی پروسیسنگ کا 92 فیصد حصہ بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔یہ بالادستی محض اتفاق نہیں،بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کانتیجہ ہے۔1980ء کی دہائی میں جب مغربی ممالک نے ماحولیاتی تحفظ کے نام پرکان کنی کے سخت قوانین بنائے،توچین نے اس موقع کوغنیمت جانا۔اس نے کم لاگت،کم مزدوری ، اورماحولیاتی پابندیوں میں نرمی کے ذریعے دنیابھرکی صنعت کواپنی جانب متوجہ کیا۔یہی وجہ ہے کہ آج چین کے صوبے انرمونگولیا اورجیانگشی میں واقع کانیں دنیا کی ٹیکنالوجی کوسہارا دے رہی ہیں۔
(جاری ہے)