Express News:
2025-04-22@14:13:02 GMT

عہدجدید میں طاقت ور ممالک کی سیاسی و عسکری چالیں

اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT

عہدِجدید میں سیاسی و عسکری چالوں کی پیچیدگیاں دنیا کو پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ بناچکی ہیں۔ ریاستوں کے مفادات، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، اسلحے کی دوڑ، اور عالمی نظام میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ایسے چیلینجز کو جنم دیا ہے جو انسانی زندگی کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ موجودہ دور میں سیاست اور جنگ کی حکمت عملیوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے، اور یہ چالیں عالمی استحکام کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ موجودہ دور میں طاقت ور ممالک اپنی سیاسی برتری قائم رکھنے کے لیے عسکری طاقت کا کھلم کھلا یا پوشیدہ استعمال کر رہے ہیں۔

ایک وقت تھا جب جنگیں صرف میدانِ جنگ میں لڑی جاتی تھیں، لیکن آج عسکری حکمت عملیوں میں سائبر جنگ، پراکسی وار، اور اقتصادی جنگ شامل ہو چکی ہیں۔ ان حربوں کا مقصد اپنے مخالفین کو کمزور کرنا اور اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ ان چالوں نے نہ صرف ممالک کے درمیان کشیدگی کو بڑھا دیا ہے بلکہ عام شہریوں کی زندگی کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ سائبر جنگ جدید دور کا ایک خطرناک پہلو ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی نے جہاں انسانی زندگی کو آسان بنایا، وہیں اس نے نئی قسم کے خطرات کو بھی جنم دیا ہے۔

مختلف ممالک اپنی عسکری اور خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے مخالف ممالک کے انفرااسٹرکچر، ڈیٹا بیس، اور دفاعی نظاموں کو ہدف بنا رہے ہیں۔ سائبر حملے نہ صرف حکومتی اداروں کو متاثر کرتے ہیں بلکہ عوامی سہولیات، بینکنگ نظام، اور طبی سہولیات کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، چند سال قبل بڑے پیمانے پر ہونے والے سائبر حملے نے دنیا بھر میں اہم اداروں کو مفلوج کر دیا تھا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حملے کس حد تک خطرناک ہو سکتے ہیں۔

پراکسی جنگیں عہدِحاضر کی ایک اور پیچیدہ چال ہیں، جن میں بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے دوسرے ممالک میں اپنے اتحادی گروہوں کی مدد کرتی ہیں۔ یہ جنگیں براہِ راست تصادم سے بچنے کا ذریعہ ہوتی ہیں لیکن ان کے اثرات نہایت تباہ کن ہوتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا میں جاری تنازعات پراکسی جنگوں کی واضح مثالیں ہیں، جہاں بڑی طاقتوں کی مداخلت نے مقامی آبادی کو بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

ان جنگوں کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، اقتصادی نظام تباہ ہوچکا ہے، اور انسانی بحران شدت اختیار کرچکا ہے۔ علاوہ ازیں، اسلحے کی دوڑ نے بھی دنیا کو غیرمحفوظ بنادیا ہے۔ طاقت ور ممالک جدید ہتھیاروں کی تیاری اور فروخت میں مصروف ہیں، جس کے نتیجے میں کم زور ممالک کو بھی اپنی دفاعی صلاحیت کو بڑھانے کا دباؤ محسوس ہوتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہتھیار، جیسے ڈرونز، ایٹمی ہتھیار، اور مصنوعی ذہانت پر مبنی عسکری نظام، دنیا کو مزید خطرناک بنا رہے ہیں۔ ان ہتھیاروں کا بے تحاشہ استعمال نہ صرف انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالتا ہے بلکہ ماحولیاتی نظام کو بھی متاثر کرتا ہے۔

اقتصادی پابندیاں بھی جدید سیاسی و عسکری چالوں میں ایک اہم ہتھیار بن چکی ہیں۔ طاقت ور ممالک اپنے مخالفین کو دباؤ میں لانے کے لیے اقتصادی پابندیاں عائد کرتے ہیں، جو بظاہر غیرعسکری حربہ لگتا ہے، لیکن اس کے اثرات نہایت گہرے اور مہلک ہوتے ہیں۔ ایران، شمالی کوریا، اور وینزویلا جیسے ممالک پر لگائی گئی پابندیاں ان کی معیشت کو کم زور کرنے کا باعث بنی ہیں۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں عام عوام کو غذائی قلت، صحت کی سہولیات کی کمی، اور بے روزگاری جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

عہدِجدید میں اطلاعاتی جنگ (پروپیگنڈا وار) بھی ایک اہم عنصر بن چکی ہے۔ مختلف ممالک اپنے بیانیے کو تقویت دینے اور مخالفین کو کم زور کرنے کے لیے میڈیا، سوشل میڈیا، اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ یہ جنگیں ذہنوں کو کنٹرول، عوامی رائے کو متاثر کرنے اور اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ جھوٹی خبریں، غلط معلومات، اور گم راہ کن پروپیگنڈا مختلف معاشروں میں اختلافات اور دشمنی کو جنم دے رہا ہے۔ مثال کے طور پر، روس اور امریکا کے درمیان جاری اطلاعاتی جنگ نے دنیا بھر میں سیاسی اور سماجی عدم استحکام پیدا کیا ہے۔

دہشت گردی بھی عہدِجدید کے غیرمحفوظ حالات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کئی دہشت گرد تنظیمیں، جنہیں بعض اوقات طاقت ور ممالک کی خفیہ حمایت حاصل ہوتی ہے، اپنی سرگرمیوں کے ذریعے عالمی امن کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع کرتی ہیں بلکہ ممالک کے اقتصادی اور سماجی ڈھانچے کو بھی تباہ کرتی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیاں ان کے اثرات کی واضح مثال ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی وسائل کی کمی بھی عہدِجدید کی سیاسی و عسکری چالوں میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ پانی، تیل، اور دیگر قدرتی وسائل کے حصول کے لیے کئی ممالک کے درمیان تنازعات بڑھ رہے ہیں۔ ان تنازعات نے کئی خطوں میں مسلح تصادم کو جنم دیا ہے، جہاں عسکری طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ وسائل کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات نہ صرف موجودہ نسل کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔

عالمی اداروں کی ناکامی بھی موجودہ غیرمحفوظ حالات میں ایک اہم وجہ ہے۔ اقوام متحدہ جیسے ادارے، جو عالمی امن کے قیام کے لیے بنائے گئے تھے، بڑی طاقتوں کے مفادات کی وجہ سے مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کے درمیان اختلافات نے ان اداروں کو غیر فعال بنادیا ہے، جس کے نتیجے میں عالمی بحرانوں کو حل کرنے کی کوششیں ناکام ہورہی ہیں۔ فلسطین، شام، اور یمن جیسے تنازعات اقوام متحدہ کی ناکامی کی واضح مثالیں ہیں۔

موجودہ عالمی صورت حال میں، بڑی طاقتیں اپنی جغرافیائی سیاست کو مستحکم کرنے کے لیے جدید عسکری حکمت عملی اور ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہی ہیں۔ امریکا، روس، اور چین کی بڑھتی ہوئی کشیدگی، خاص طور پر یوکرین جنگ اور تائیوان کے تنازعے میں، عالمی سلامتی کو براہ راست متاثر کر رہی ہے۔ جدید جنگی ہتھیار، جیسے ہائپرسونک میزائل اور مصنوعی ذہانت پر مبنی نظام، ان تنازعات میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ، دنیا بھر میں انتخابی سیاست نے بھی جمہوری اقدار کو کم زور کیا ہے۔ کئی ممالک میں، سیاسی قائدین انتخابات کا سہارا لے کر اپنی آمریت کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، روس اور بیلاروس جیسے ممالک میں انتخابات کو طاقت وروں کی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، جب کہ دیگر جمہوری ممالک میں عوامی پولرائزیشن اور سیاسی تقسیم میں اضافہ ہو رہا ہے۔

یہ تمام چیلینجز اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ عہدِجدید کی سیاسی و عسکری چالوں نے دنیا کو غیر محفوظ بنادیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا ہم ان چیلنجز کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ عالمی راہ نماؤں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جنگ، تصادم، اور مفادات کی سیاست کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ مزید مسائل کو جنم دیتی ہے۔ دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے تعاون، مذاکرات، اور بین الاقوامی قوانین کی پاس داری کو فروغ دینا ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: طاقت ور ممالک کے نتیجے میں کو متاثر کر کر رہے ہیں کے درمیان ممالک میں کے طور پر ممالک کے کرتے ہیں کے اثرات دنیا کو رہی ہیں کو جنم لیکن ا کر رہی کو بھی دیا ہے

پڑھیں:

پوپ فرانسس کی وفات پر عالمی رہنماؤں اور عوام کا خراج عقیدت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) ویٹیکن کی جانب سے 88 سالہ پوپ فرانسس کی وفات کے اعلان کے بعد دنیا بھر سے صدور، وزرائے اعظم اور عام شہریوں کی طرف سے انہیں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ کیتھولک چرچ کے 266 ویں پوپ اور یہ عہدہ سنبھالنے والے پہلے لاطینی امریکی کلیسائی رہنما تھے۔ پوپ فرانسس طویل علالت کے بعد اور سانس کی بیماری کے باعث پیر 21 اپریل کی صبح انتقال کر گئے تھے۔

'پناہ گزینوں کے وکیل‘

فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ''بیونس آئرس سے روم تک، پوپ فرانسس نے چاہا کہ چرچ غریبوں کے لیے خوشی اور امید کا ذریعہ بنے۔ وہ چاہتے تھے کہ انسانوں کو آپس میں اور فطرت کے ساتھ جوڑا جائے۔

(جاری ہے)

‘‘

پیرس کی میئر این ہڈالگو نے اعلان کیا کہ پوپ کی یاد میں آئفل ٹاور کی روشنیاں پیر کی رات بند رہیں گی۔

انہوں نے کہا کہ پوپ فرانسس نے ''ماحولیات کو روحانی معاملات کے مرکز میں رکھا اور پناہ گزینوں کے استقبال کی وکالت کی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ فرانسیسی دارالحکومت میں ایک مقام پوپ کے نام سے منسوب کیا جائے گا۔

برطانیہ کے بادشاہ چارلس، جو چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا، ''میں پوپ فرانسس کی وفات سے انتہائی رنجیدہ ہوں۔

‘‘ انہوں نے کیتھولک چرچ کے لیے پوپ کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا، '' وہ اس چرچ کے لیے اپنی خدمات پوری لگن سے سرانجام دیتے رہے۔ میری گہری تعزیت اور گہری ہمدردی اس چرچ کے ساتھ ہے، جس کی انہوں نے اس قدر عزم سے خدمت کی۔‘‘ بادشاہ چارلس اور ملکہ کامیلا نے رواں ماہ ہی ویٹیکن میں پوپ سے ملاقات کی تھی۔ امریکی نائب صدر کا بیان

امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے ایکس پر لکھا، ''میرا دل ان لاکھوں مسیحیوں کے ساتھ ہے، جو ان سے محبت کرتے تھے۔

‘‘ انہوں نے کہا، ''میں کل ان سے مل کر خوش تھا، حالانکہ وہ واضح طور پر شدید بیمار تھے۔‘‘ وینس نے بھارت روانہ ہونے سے قبل ایسٹر کے موقع پر پوپ سے ملاقات کی تھی۔ پوپ کی وفات 'گہری اداسی میں ڈبو دینے والا لمحہ‘

اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے کہا، ''میں ان کی دوستی، ان کے مشوروں اور ان کی تعلیمات سے مستفید ہونے کا اعزاز رکھتی ہوں، جو کبھی مجھے ناکام نہیں ہونے دیتے تھے، یہاں تک کہ آزمائش اور تکلیف کے وقت میں بھی۔

‘‘ انہوں نے پوپ کی وفات کو ''گہری اداسی میں ڈبو دینے والا لمحہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا، ''ہم ایک عظیم انسان اور عظیم راعی کو الوداع کہہ رہے ہیں۔‘‘ میلونی ان چند حکومتی شخصیات میں شامل تھیں، جنہوں نے پوپ کے ہسپتال میں حالیہ قیام کے دوران ان سے ملاقات کی تھی۔ 'محبت، جو کیتھولک چرچ سے بھی آگے تک پھیلی ہوئی تھی‘

یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیر لاین نے لکھا، ''انہوں نے اپنی عاجزی اور پسماندہ افراد کے لیے ایسی خالص محبت سے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا، جو کیتھولک چرچ سے بھی کہیں آگے تک پھیلی ہوئی تھی۔

‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''میری دعائیں ان تمام لوگوں کے ساتھ ہیں، جو اس گہرے نقصان کو محسوس کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ وہ اس خیال سے کچھ تسلی پائیں گے کہ پوپ فرانسس کی میراث ہمیشہ زیادہ منصفانہ، پرامن اور ہمدرد دنیا کی طرف ہماری رہنمائی کرتی رہے گی۔‘‘

یورپی سینٹرل بینک کی صدر کرسٹین لاگارڈ نے ایکس پر لکھا، ''میں پوپ فرانسس کی وفات سے گہری اداسی میں ہوں۔

وہ اتحاد، انصاف اور انسانی وقار کی عالمی آواز تھے۔ ان کی حکمت اور عاجزی نے انسانی زندگیوں کو عقیدے سے بالاتر ہو کر چھوا۔‘‘ ' پوپ کی غریبوں، مہاجرین اور پسماندہ افراد کے لیے خصوصی توجہ‘

جرمنی کے صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے ایک تعزیتی خط میں کہا، ''پوپ فرانسس کے ساتھ دنیا نے امید کی ایک روشن کرن، انسانیت کے ایک مستند وکیل، اور ایک پکے مسیحی کو کھو دیا ہے۔

‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''ان کی سادگی، ان کی بے ساختگی اور ان کا مزاح، لیکن سب سے بڑھ کر ان کے واضح طور پر گہرے ایمان نے پوری دنیا کے لوگوں کو چھوا اور انہیں سہارا، طاقت اور سمت فراہم کیے۔‘‘

انہوں نے پوپ کی غریبوں، مہاجرین اور پسماندہ افراد کے لیے خصوصی توجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''بہت سے لوگ، جو خود کو بھلا دیا گیا سمجھتے تھے، پوپ فرانسس نے انہیں سنا، دیکھا اور سمجھا۔

‘‘ جرمن صدر نے مزید کہا کہ جرمنی کے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مسیحی یکجہتی کے ساتھ ان کی وفات پر سوگوار ہیں۔

جرمن چانسلر اولاف شولس نے ایکس پر لکھا، ''پوپ فرانسس کے ساتھ کیتھولک چرچ اور دنیا نے کمزوروں کے ایک وکیل، ایک مصالحت کار اور ایک ہمدرد شخص کو کھو دیا ہے۔‘‘

پوپ اور فلسطینی عوام

فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا، ''آج ہم نے فلسطینی عوام اور ان کے جائز حقوق کے ایک وفادار دوست کو کھو دیا۔

‘‘ ان کے مطابق، ''پوپ فرانسس نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا اور ویٹیکن میں فلسطینی پرچم بلند کرنے کی اجازت دی۔‘‘

اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے ایکس پر لکھا، ''میں واقعی امید کرتا ہوں کہ مشرق وسطیٰ میں امن اور یرغمالیوں کی محفوظ واپسی کے لیے ان کی دعائیں جلد پوری ہوں گی۔‘‘ پوپ نے اسرائیل کی جنگی کارروائیوں پر تنقید کی تھی اور غزہ میں مبینہ نسل کشی کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا، جنہیں اسرائیل نے سختی سے مسترد کر دیا تھا۔

'بے آوازوں کی آواز‘

مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے ایک بیان میں کہا، ''پوپ فرانسس نے ایک عظیم انسانی ورثہ چھوڑا، جو انسانیت کے ضمیر میں ہمیشہ محفوظ رہے گا۔‘‘ انہوں نے پوپ کو ''ایک غیر معمولی عالمی شخصیت قرار دیا، جنہوں نے اپنی زندگی امن اور انصاف کی اقدار کی خدمت کے لیے وقف کی۔‘‘

ہسپانوی وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے ایکس پر لکھا، ''پوپ فرانسس نے دنیا کے سب سے کمزور لوگوں پر توجہ دی۔

‘‘ پولش وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے پوپ کے ساتھ اپنی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئےکہا، ''پوپ فرانسس ایک مہربان، گرم جوش اور ہمدرد شخص تھے۔‘‘ آئرش وزیر خارجہ سائمن ہیرس نے کہا، ''ان کی طرف سے غریبوں کی وکالت، بہتر بین المذاہبی تعلقات اور ماحولیاتی تحفظ پر توجہ نے انہیں امید کی کرن اور بے آوازوں کی آواز بنایا۔‘‘

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کریملن کے ذریعے تعزیت کا پیغام بھیجا، جبکہ افریقی یونین کی قیادت نے پوپ کو ''اخلاقیات کی عظیم آواز‘‘ قرار دیا۔

پوپ کی وفات کا سنتے ہی ویٹیکن سٹی کے سینٹ پیٹرز اسکوائر پر بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہو گیا، جبکہ پوپ کی یاد میں دنیا بھر کے گرجا گھروں میں پھول رکھے جا رہے ہیں۔

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • خاموش طاقت، نایاب معدنیات کی دوڑ
  • بحرین کے بے گناہ قیدیوں کی آواز
  • بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
  • عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
  • عالمی شہرت یافتہ پاکستانی شیف ذاکر انتقال کرگئے
  • پوپ فرانسس کی وفات پر عالمی رہنماؤں اور عوام کا خراج عقیدت
  • جان سینا ریکارڈ 17 ویں بار ڈبلیو ڈبلیو ای چیمپئن بن گئے
  • پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
  • پاکستان بطور ایٹمی طاقت مسلم ممالک کی قیادت کرے، اسرائیلی مظالم روکے جائیں، شہدائے غزہ کانفرنس
  • امریکہ کے اندھا دھند محصولات کے اقدامات غلط ہیں،یونیڈو