اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 جنوری 2025ء) کسی بھی معاشرے میں زندگی کے کئی مقاصد ہوتے ہیں۔ کچھ افراد کی دلچسپی اس میں ہوتی ہے کہ دنیاوی سہولتوں کو حاصل کیا جائے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ اور دولت اکھٹی کرنے کے لیے دوسروں کے حقوق کو غصب کیا جائے۔ بدعنوانی، غبن اور رِشوت کے ذریعے اپنا معیارِ زندگی بڑھایا جائے۔
مُتوسط طبقے کی زندگی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنی محدود آمدنی میں زندگی گزاری جائے۔ نچلے طبقوں کی زندگی کا مقصد دو وقت کی روٹی کا حصُول ہوتا ہے۔ اس ماحول میں چند افراد ایسے ہوتے ہیں جو ناانصافی کو برداشت نہیں کرتے ہیں اور ماحول کو بدلنے کے لیے اپنی فکر اور سوچ کے ذریعے لوگوں میں شعور پیدا کرتے ہیں اور غربت اور افلاس کی زندگی مثالی کردار بن جاتی ہے۔
(جاری ہے)
امریکہ کے نسل پرست معاشرے میں افریقہ سے لائے ہوئے غلاموں کے ساتھ جس نفرت اور تعصب کا سلوک کیا گیا وہ پوری انسانیت کی تذلیل تھی۔ امریکہ کی آزادی کے بعد بھی اِنہیں مساوی مقام نہیں دیا گیا۔ جب خانہ جنگی کے بعد غلامی کا خاتمہ ہوا تب بھی اِنہیں ملازمت کے لیے دَربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑیں۔ اُنیسویں صدی میں افریقی رہنماؤں نے کچھ منصوبہ بندی کی تا کہ افریقیوں کی معاشی اور سماجی حالت بہتر ہو۔
یہ مہم چلائی گئی کہ افریقی نوجوانوں کو مُختلف ہُنر اور پیشہ ورانہ علوم سکھائیں جائیں۔ تا کہ وہ خودمختار ہو کر اپنی زندگی گزار سکیں۔ یہ کوشش بھی کی گئی کہ کچھ زمین حاصل کر کے اُسے کھیتی باڑی کے لیے استعمال کیا جائے۔ کیونکہ افریقیوں پر یہ تنقید کی جاتی تھی کہ سفید فاموں کے مقابلے میں وہ تہذیبی طور پر کم تر تھے۔ اس لیے یہ منصوبہ بنایا گیا کہ سفید فام لوگوں کے ساتھ مِل کر رہنا چاہیے تا کہ وقت کے ساتھ وہ تہذیبی طور پر بھی وہ برابر ہو جائیں۔افریقی رہنما اس بات کے مخالف تھے کہ سفید فاموں کے خلاف کوئی مزاحمتی تحریک چلائی جائے کیونکہ سفید فام طاقتور تھے۔ ریاست اُن کے ساتھ تھی۔ جب کہ افریقی بےیار و مددگار تھے۔ اس لیے اُن کی تحریک کا خاتمہ یقینی تھا۔ اس ماحول میں جس افریقی رہنما نے اُن میں نیا جذبہ پیدا کیا اور افریقی شناخت دی وہ ولیم ایڈورڈ ڈو بوائس William Edward Du Bois کی شخصیت تھی۔
وہ سیاہ فام امریکی دانشور اور فلسفی تھے۔ انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے برلِن یونیورسٹی میں دو سال کا وظیفہ دیا گیا، جہاں انہوں نے جرمن فلسفہ اور ادب کا مطالعہ کیا۔ امریکہ واپسی پر انہوں نے Harvard یونیورسٹی سے فلسفے میں Ph.D کی ڈگری حاصل کی۔
ڈو بوائس افریقی کمیٹی کی مختلف تحریکوں میں بھی شامل رہے۔ اُنہوں نے اندازہ لگایا کہ صرف سیاسی تحریکوں کے ذریعے افریقیوں کی حالت کو نہیں بدلا جا سکتا ہے۔
اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان میں تاریخی اور فلسفیانہ سوچ کو پیدا کیا جائے۔ انہوں نے اپنی کتابوں کے ذریعے افریقیوں میں شناخت کا نیا جذبہ پیدا کیا۔ The Souls of Black Folk اور Talented Tenth وغیرہ، ان کی چند مگر اہم کتابیں میں ہیں۔ڈو بوائس کی سیاسی اور علمی سرگرمیوں کی وجہ سے امریکی حکومت ان سے ناراض ہو گئی تھی۔ سابق امریکی صدر Theodore Roosevelt نے FBI کے ایجنٹوں سے کہا کہ اس شخص پر نظر رکھو کیونکہ یہ کمیونسٹ ہے۔
اس کے بعد ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا جو انہیں آٹھ سال بعد واپس دیا گیا۔اس کے بعد ہی ڈو بوائس نے پہلی مرتبہ افریقی مُلکوں کا دورہ کیا۔ وہاں وہ دیہاتوں اور گاؤں میں پھرتے رہے اور اپنی افریقی شناخت کو تلاش کرتے رہے۔ ان کو پورا اندازاہ تھا کہ جب تک افریقیوں میں اتحاد پیدا نہیں ہو گا وہ امریکی سامراج سے نجات حاصل نہیں کر سکیں گے۔
ان کی سیاسی حیثیت کو دیکھتے ہوئے روسی حکومت کی جانب سے انہیں لینن پرائز دیا گیا۔ انہوں نے لندن میں افریقی مُلکوں کی کانفرسیں کرائیں۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب دوسری عالمی جنگِ کے بعد افریقی ممالِک آزاد ہوئے تھے اور اُن میں قوم پرستی کا جذبہ تھا جس کے ذریعے وہ سامراج کے ماضی سے آزاد ہونا چاہتے تھے۔گھانا کے صدر کوامے انکروما نے انہیں اپنے ہاں بلایا تا کہ ڈو بوائس ان کی نگرانی میں افریقی تاریخ اور کلچر کو افریقی نقطہ نظر لکھیں۔
انہوں نے encyclopedia of Africans لکھنے کا منصوبہ، جو اُس کی زندگی میں تو پورا نہیں ہوا، مگر بعد میں اسے افریقی مورخوں نے مکمل کیا۔ امریکی حکومت نے اِن کا پاسپورٹ ضبط کر لیا اور اُن کی امریکی شہریت منسوخ کر دی۔ اس کے بعد انہیں گھانا کی شہریت دی گئی اور 92 سال کی عمر میں اُن کی وفات ہوئی اور ریاست کی جانب سے اُن کی تدفین کی گئی۔ڈو بوائس نے اپنے لیے تو کچھ حاصل نہیں کیا اور اپنا سارا وقت افریقی کمیونٹی کے حقوق کے حصول کے لیے استعمال کیا۔
اُنہوں نے جو کچھ علمی سرمایہ چھوڑا تھا وہ آج تک امریکی افریقیوں کے لیے رہنمائی کا باعث ہے اور تاریخ میں اُن کا نام اور اُن کے کارنامے زندہ رہیں گے۔ڈو بوائس کے بعد امریکہ کی افریقی کمیونٹی میں کئی رہنما آئے جن میں میلکم ایکس اور مارٹن لوتھر کِنگ شامل ہیں۔ دونوں کے قتل کے بعد افریقی امریکی کمیونٹی رہنماؤں سے محروم ہو گئی تھی اور آج تک امریکہ کی جمہوریت میں افریقیوں کو مساوی مقام نہیں مِلا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں افریقی کہ افریقی ڈو بوائس کی زندگی انہوں نے کے ذریعے افریقی م کیا جائے دیا گیا کے ساتھ کہ سفید ا نہیں کے لیے کے بعد
پڑھیں:
فلم اسٹار خوشبو خان نے اپنی زندگی کے دکھوں سے پردہ اٹھا دیا
کراچی(نیوز ڈیسک)فلم، ڈرامہ اور تھیٹر میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوانے والی معروف فلمی اداکارہ خوشبو خان نے پہلی بار اپنی نجی زندگی، دکھوں اور اندرونی کشمکش کے حوالے سے حیران کن انکشافات کیے ہیں۔
وہ حال ہی میںایک شو میں بطور مہمان شریک ہوئیں، جہاں ان کی گفتگو نے شائقین کے دلوں کو چھو لیا۔
خوشبو خان نے بتایا کہ ان کا فنی سفر صرف 7 سال کی عمر میں شروع ہو گیا تھا، جب وہ بطور چائلڈ آرٹسٹ کام کرنے پر مجبور ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ، یہ میری پسند نہیں تھی۔ میں ہمیشہ سے ٹیچر بننا چاہتی تھی۔ لیکن مجھے شوبز میں دھکیلا گیا، اور یہ سب ایک معمول میں بدل گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ مسلسل کام کرتی رہیں اور اسی دوران اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکیں، جس کا انہیں آج بھی شدید افسوس ہے۔
اداکارہ نے اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں بے شمار قربانیاں دیں، چاہے وہ دوست ہوں، خاندان والے ہوں یا کوئی خاص شخص سب سے وفا کی، لیکن بدلے میں صرف دھوکہ ملا۔
میں نے سب کے لیے جیا، سب کی مدد کی، مالی طور پر بھی اور جذباتی طور پر بھی۔ لیکن جب مجھے ضرورت پڑی، سب نے منہ موڑ لیا۔ ان کا کہنا تھا۔
خوشبو خان نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ پچھلے کئی سالوں سے ڈپریشن کا شکار رہی ہیں۔ وہ مہینوں اپنے کمرے میں بند رہیں، کسی سے بات نہیں کی، صرف روتی رہیں۔
اداکارہ نے کہ، مجھے لگتا تھا میں صرف تھکی ہوئی ہوں، لیکن دراصل میں ڈپریشن میں تھی۔ میں نے اس سے خود ہی لڑا، اور خود ہی نکلی، لیکن اس عمل میں اندر سے ٹوٹ گئی۔
خوشبو خان کی شادی معروف فلمی اداکار ارباز خان سے ہوئی ہے، اور اس جوڑے کے دو بچے ہیں۔ اگرچہ ان کی ذاتی زندگی بظاہر خوشحال دکھائی دیتی ہے، لیکن انٹرویو میں سامنے آنے والی حقیقتیں بتاتی ہیں کہ وہ اندر سے ایک مسلسل جدوجہد سے گزر رہی ہیں۔
اداکارہ کی صاف گوئی اور دل کو چھو لینے والی گفتگو نے سوشل میڈیا پر بھی ہلچل مچا دی ہے۔ مداحوں نے نہ صرف ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ ان کے حوصلے اور ہمت کو بھی سراہا۔
مزیدپڑھیں:صارفین کی حقیقی عمر کی تصدیق کیلئے میٹا نے اے آئی کا سہارا لے لیا