مسلمان حکمرانوں سے اسلام کا تقاضا کرنا سب سے مشکل کام ہے، مولانا فضل الرحمان
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
ملتان: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پہلی بار دیکھا حکمران اور حزب اختلاف ہمارے قصیدے پڑھ رہے تھے، اس بار اس مولوی نے 2 کشتیوں پر پاؤں رکھا اور پار ہوگیا، عقیدہ ختم نبوت کی جنگ لڑنا ممکن نہ ہوتا اگر میں سیاست میں نہ جاتا، قومی اسمبلی میں تعداد میں کم ہونے کے باوجود ہم نے جدوجہد نہیں چھوڑی، ملکی سیاست عملی طور پر اسلامی اصولوں پر نہیں، کیا جدوجہد چھوڑ دیں؟
جامعہ خیر المدارس میں ختم بخاری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ انسان عقل سے بات سمجھتا ہے، انسانوں کے معاشرے میں اللہ نے انبیا کو چنا، مدارس میں علوم کی حفاظت ہوتی ہے، عقل اللہ کی اعلیٰ نعمت ہے، دنیا اس عقل کی روشنی کو مٹانا چاہتی ہے۔
ان کاکہناتھا کہ ہماری زیادہ تر مصروفیت اس ملک کی سیاست میں ہوتی ہے، ہمارا روزانہ سیاست دانوں سے پالا پڑتا ہے، مسلمان حکمرانوں سے اسلام کا تقاضا کرنا سب سے مشکل کام ہے، ہم پر تو بہت سے سوالات اٹھتے ہیں، ہم نے سیاست سے کیا حاصل کیا، یہ سب فضول سوالات ہیں۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ سیاست دان سے کچھ بھی منوانا مشکل نہیں ہے، عقیدہ ختم نبوت کی جنگ لڑنا ممکن نہ ہوتا اگر میں سیاست میں نہ آتا، سیاست عملی طور پر اسلامی اصولوں پر نہیں تو کیا اس جدوجہد کو چھوڑ دیں؟ عجیب بات ہے بازار سے ہم آتے ہیں اور نرخ وہ بتاتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جمعیت علما اسلام قومی اسمبلی میں آٹھ ممبران کے ساتھ ہے، تعداد میں کم ہونے کے باوجود ہم نے جدوجہد نہیں چھوڑی، ہم نے پہلی بار دیکھا حکمران اور حزب اختلاف ہمارے قصیدے پڑھ رہے تھے، ایسے مواقعوں پر فائدہ اٹھاتے ہیں، ہم اپنے اکابرین کی مشاورت سے آگے بڑھے۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار ہمارے تمام علما ایک ہی موقف پر ڈٹ گئے، اس بار اس مولوی نے دو کشتیوں پر پاؤں رکھا اور پار ہوگیا، اللہ نے ہم پر جدوجہد لازم قرار دی ہے، نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
سربراہ جمعیت علما اسلام نے کہا کہ ہمارے اکابرین نے ہمیں مدارس کی سیاست کا راستہ بتایا، ہم اپنے اکابرین کے بتائے گئے راستے پر چل کر کامیاب ہوں گے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ
پڑھیں:
فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں
تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جسمیں تازہ ترین مسائل کے بارے نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کیجاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںتجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: مسئلہ فلسطین اور امت مسلمہ ذمہ داریاں
قرآن و سنت کی نگاہ میں
مہمان تجزیہ نگار: پروفیسرڈاکٹر زاہد علی زاہدی (ڈین فکیلٹی آف اسلامک اسٹیڈیز جامعہ کراچی)
میزبان و پیشکش: سید انجم رضا
تاریخ: 20 اپریل 2024
ابتدائیہ
وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَذِہِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْراً﴾
ترجمہ: تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے راستے میں جہاد نہیں کرتے؟ جب کہ کمزور مرد، خواتین اور بچے پُکار پُکار کر کہہ رہے ہیں:
یا رب! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کسی کو حامی بنا دیجیے اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مدد گار کھڑا کر دیجیے۔(سورہ نساء: 75)
ماہ اکتوبر ۲۰۲۳ء کی ۷تاریخ سے تاحال فلسطین کے باشندوں خصوصاً اہالیانِ غزہ پر اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی جاری ہے۔
نہتے بچوں، بوڑھوں، خواتین حتیٰ کہ پناہ گزین کیمپوں میں موجود معصوم انسانوں اور ہسپتالوں میں موجود زخمیوں اور بیماروں پر بمباری کی جارہی ہے، جس سے ہزار وںسے زائد مسلمان شہید ہوچکے ہیں غزہ کے چاروں طرف محاصرہ کی بنا پر اہلِ غزہ پر خوراک، پانی، ایندھن اور ضروریاتِ زندگی کو تنگ کردیا گیا ہے،
جس کی بنا پر نہ صرف عالمِ اسلام کی عوام بلکہ انصاف پسند مغربی اقوام بھی سراپا احتجاج ہیں،
لیکن اقوامِ متحدہ سمیت مسلم حکمران مذمتی قراردادوں کے پاس کرانے کے سوا کہیں آگے نہیں بڑھ رہے۔ ان حالات میں عالمِ اسلام کی عوام اور حکمرانوں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے
خلاصہ گفتگو، اہم نکات:
اسرائیلی مظالم تو اس کے وجود میں آنے کے بعد ہی شروع ہوگئے تھے
غزہ اس صدی کا ایک انسانی المیہ بنتا رہا ہے
گزشتہ چوہتر برس میں زمینوں پہ قبضے کے بعد اب نسل کشی شروع کردی گئی ہے
صابرہ اور شتیلہ سے لے کر آج غزہ تک صیہونی مظالم کی تاریخ دنیا کے سامنے عیاں ہے
پاکستان کے علما کو اب اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتویٰ یاد آیا ہے
لیکن کیا صیہونی مظالم کے خلاف کسی فتویٰ کی بھی ضرورت ہے
سورہ نسا کی آیة 75 واضح طور پہ مسلمانوں پہ ظلم کرنے والوں سے قتال کا حکم دے رہی ہے
مسلمان علما کو تو مولا علیؑ کا خطبہ جہاد سُنانے کی ضرورت ہے
نہج البلاغہ کا خطبہ جہاد مسلمانوں کی حمایت و حفاظت کے لئے جہاد کا حکم بیان کرتا ہے
سیکورٹی کونسل اور اقوامِ متحدہ عضو معطل بن چکی ہے
مسلمان حکمران بھی اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کرنے سے گریزاں ہیں
اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا تو مسلمان حکمران اور عرب حکومتیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کو تیار ہوچکی تھیں
رہبرِ معظم نے مقاومت اور مزاحمت کو ایک نظریے کانام دیا ہے
مکتبِ مقاومت و مزاحمت اپنی نظریے سے ہٹ نہیں سکتے
جب کہ "مکتبِ مفاہمت" آج بھی اسرائیل اور امریکہ کے خوف میں مُبتلا ہے
قرآنِ مجید تو قتال و جنگ کا حکم دیتا ہے، حماس نے اسی پہ عمل کیا۔
حق کے لئے جنگ کرنے کا انحصار تعداد اور وسائل پر نہیں ہوسکتا
آبرو مندانہ اورعزت کی زندگی گزارنے کے لئے قیمت ادا کرنی پڑتی ہے