بھارتی باشندوں کو لالچ میں کروڑوں کا چُونا لگوانے کا چسکا پڑگیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
ایک دنیا کہتی ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھارت کی مہارت کا جواب نہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی ٹی میں بڑے پیمانے پر افرادی قوت تیار کرکے بھارت اب دنیا بھر سے ہر سال اربوں ڈالر کمارہا ہے۔ ایسے میں یہ بات بہت حیرت انگیز دکھائی دیتی ہے کہ بھارت ہی میں آئی ٹی سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد، بلکہ پروفیشنلز آن لائن کمائی اور سرمایہ کاری کے ذریعے کمانے کے چکر میں خطیر رقوم سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور ہاتھ پیر ہلائے بغیر کمائی کا چسکا ایسا پڑا ہے کہ دوسروں کے انجام سے سبق سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی۔
بھارت کے تجارتی دارالحکومت ممبئی میں گزشتہ دنوں آن لائن فراڈ (پونزی اسکیم) کے ذریعے لوگوں کو 22 کروڑ روپے (پاکستانی 72 کروڑ 60 لاکھ روپے) سے محروم کردیا گیا۔ تفتیش سے معلوم ہوا کہ اس گھوٹالے میں یوکرین کے دو باشندے بھی ملوث ہیں۔
شکایت کنندہ پردیپ کمار مامراج ویشیا کا کہنا ہے کہ یہ گھوٹالا 21 جون اور 30 دسمبر 2024 کے دوران کیا گیا۔ پردیپ کمار مامراج سبزی کا آڑھتی ہے اور ممبئی میں نریمان پوائنٹ کا رہائشی ہے۔
تھوڑی سی سرمایہ کاری پر غیر معمولی بلکہ انتہائی پُرکشش منافع کا جھانسا دے کر کروڑوں روپے ہتھیانے کے اس کیس میں ایک خاتون سمیت 2 یوکرینی باشندے بھی ملوث پائے گئے ہیں۔
ٹوریز جوئیلرز نامی برانڈ کے خلاف دی اکنامک آفینسز ونگ کے افسران تحقیقات کر رہے ہیں۔ یہ ادارہ بہت جلد آرٹم اور اولینا اسٹوئن کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کرے گا۔ خیال ہے کہ یہ دونوں بھارت سے فرار ہوچکے ہیں۔ ٹوریز جوئیلرز کے پروموٹرز اور ٹاپ ایگزیکٹیوز بھی اس کیس میں قانون نافذ کرنے والوں کو مطلوب ہیں۔
پولیس نے ایک جامع ایف آئی آر درج کرلی ہے۔ ایف آئی آر میں پلاٹینم ہرن پرائویٹ لمٹیڈ کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ یہ ادارہ ٹوریز جوئیلرز کا نظم و نسق سنبھالتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
قدیم رومی افسران اور بھارتی بندروں کے درمیان دلچسپ تعلق کا انکشاف!
ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مصر میں رہنے والے رومی فوجی افسران دولت کی نمائش کے لیے بھارت سے منگائے پالتو بندر رکھا کرتے تھے۔
مصر کے مغربی ساحل میں واقع قدیم بندرگاہ بیرینیک میں موجود قبرستان پہلی بار 2011 میں دریافت ہوا تھا اور تب سے اب تک یہاں محققین تقریباً 800 قبریں کھود چکے ہیں۔
سائنس دانوں نے بتایا کہ ان کھدائیوں میں سب سے دلچسپ موقع وہ تھا جب مصری بندرگاہ کے شہری علاقے کے باہر موجود ایک جگہ سے 35 بندروں کی باقیات نکلیں تھیں۔
اب محققین نے ان بندروں کی باقیات سے متعلق بتایا ہے کہ ان کا تعلق پہلی دوسری صدی عیسوی سے ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب اعلیٰ عہدے پر فائز رومی ملٹری افسران اس علاقے میں رہا کرتے تھے۔
بندروں کی ہڈیوں کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ یہ زیادہ تر بندروں کا تعلق بھارت سے تھا، جو کہ بھارت سے رومی مصر تک زندہ جانوروں کی تجارت کا پہلا طبعی ثبوت ہے۔
جرنل رومن آرکیالوجی میں شائع ہونے والی تحقیق میں سائنس دانوں نے لکھا کہ بیرینیک میں دفن بندروں کی یہ نسل جانوروں ایک منظم تجارت کا پہلا واضح ثبوت ہے۔
سائنس دانوں نے بتایا کہ کسی کے پاس بندر ہونا ممکنہ طور پر معاشرے میں شناخت کا عنصر رکھتا تھا یعنی یہ وہ علامت تھی جو کسی کو مقامی معاشرے میں بطور اشرافیہ واضح کرتی تھی۔