عمران خان کی جانب سے این آر اوپر دستخط کا سوال، حامد رضا نے کیا جواب دیا؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
راولپنڈی (ڈیلی پاکستان آن لائن )بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے این آر او پر دستخط سے متعلق سوال پر پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن حامد رضا نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق عمران خان سے ملاقات کے لئے پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان صاحبزادہ حامد رضا اڈیالہ جیل پہنچے جہاں انہوں نے صحافیوں کے سوالات کے جواب بھی دیے۔
صحافی نے حامد رضا سے سوال کیا، کیا بانی پی ٹی آئی آج باقاعدہ این آراوپردستخط کریں گے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کیا آپ کے پاس این آر او کی کوئی اطلاع ہے، کیا آپ نے این آر او دیکھا ہے؟ مجھ سے بھی شیئر کریں۔
صاحبزادہ حامد رضا کا کہنا تھاکہ این آراو حکومت مانگ رہی ہے، بانی پی ٹی آئی نہیں مانگ رہے۔
قبل ازیں پی ٹی آئی رہنما شوکت یوسفزئی نے بھی اپنے بیان میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی نہ کسی کے کہنے پر اور نہ کسی کے خوف سے مذاکرات کر رہی ہے، پی ٹی آئی ملک کے مفاد میں مذاکرات کر رہی ہے۔
شوکت یوسفزئی کا کہنا تھاکہ مسلم لیگ ن کی قیادت مذاکرات کو سبوتاژکر رہی ہے، خواجہ آصف مایوسی پھیلا رہے ہیں، وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب اور تمام وزراء بانی پی ٹی آئی کےخلاف پراپیگنڈا کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا بانی پی ٹی آئی ایک ٹوئٹ کرتے ہیں تو ان سب کی چیخیں نکل جاتی ہیں، بانی پی ٹی آئی کبھی بھی این آر او نہیں لیں گے، این آر او لینے والے اب رائیونڈ میں آرام کر رہے ہیں۔
آئین اچھا ہے یا برا، اس کو فالوکرنا چاہئے،شاہد خاقان عباسی
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی رہی ہے
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
شیعہ علما کونسل گلگت کے جنرل سیکرٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا کہ کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل ضلع گلگت کے جنرل سکریٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مورخہ 19 اپریل 2025ء کو جاری ہونے والی مشیر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مولانا محمد دین کی پریس ریلیز محض ایک بیان نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کی شناخت پرامن بقائے باہمی، مذہبی رواداری اور اجتماعی شعور ہے۔ ایسے میں کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے ہمارا سوال ہے کہ کیا مشیر موصوف کی یہ پریس ریلیز آپ کی منظوری سے جاری کی گئی؟ اگر ہاں، تو یہ طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے کہ ایک حکومت اپنے عوام سے اس انداز میں مخاطب ہو رہی ہے جو نفرت، تقسیم اور اشتعال کو ہوا دے رہا ہے۔ اور اگر یہ بیان آپ کی اجازت یا علم کے بغیر جاری کیا گیا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے غیر سنجیدہ اور نالائق مشیروں کو فوراً برطرف کریں تاکہ حکومت کی نیک نامی، شفافیت اور سنجیدگی پر عوام کا اعتماد قائم رہ سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشیر موصوف نے خطیب جامع مسجد امامیہ گلگت جناب آغا سید راحت حسین الحسینی جیسے محترم، سنجیدہ اور باوقار عالم دین کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ گلگت بلتستان کے مہذب سیاسی و سماجی کلچر سے متصادم ہے۔ ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو ذاتی حملے سمجھتے ہیں اور سنجیدہ تنقید کا جواب اخلاقیات کے دائرے سے باہر نکل کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور سوال اٹھانا ہر باشعور شہری، خصوصاً اہل علم کا آئینی، اخلاقی اور سماجی حق ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں واقعی عوامی مفاد پر مبنی ہیں تو دلیل و حکمت سے عوام کو مطمئن کیا جائے، نہ کہ ان پر الزام تراشی کر کے ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی جائے۔ مشیر موصوف کا یہ کہنا کہ "دین کو سیاست سے الگ رکھا جائے" نہ صرف فکری گمراہی کی نشانی ہے بلکہ اس قوم کے نظریاتی اساس سے انحراف بھی ہے۔ پاکستان کا قیام ہی کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ“ کے نام پر ہوا تھا، اور اس ملک کی بقاء اسی وقت ممکن ہے جب دین اور سیاست کو ہم آہنگی سے مربوط کیا جائے۔