بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو سزا ہو گی یا بری؟ 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا۔ احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا کل بروز سوموار 13 جنوری کو اڈیالہ جیل میں محفوظ فیصلہ سنائیں گے۔ آئیے یہ جانتے ہیں کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس کیا ہے؟
نیب کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے موضع برکالا، تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں واقع 458کنال، 4 مرلے اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی ہے جس کے بدلے میں مبیّنہ طور پر عمران خان نے ملک ریاض کو 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا تھا۔
گزشتہ سال اکتوبر 2022 میں نیب نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کردی تھی۔ نیب دستاویزات کے مطابق 3 دسمبر 2019 کو عمران خان کی زیرِ صدارت کابینہ اجلاس میں ملک ریاض کو برطانیہ سے ملنے والی 50 ارب روپے کی رقم بالواسطہ طور پر واپس منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ یہ رقم برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کے الزامات پر ضبط کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈ کیس: بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو سزا ہوگی یا بری ہوں گے؟ فیصلہ کل سنایا جائے گا
سابق وزیرِاعظم عمران خان نے 26 دسمبر 2019 کو ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر کے حوالے سے کابینہ کے فیصلے کے چند ہفتوں کے اندر القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے لیے ٹرسٹ رجسٹر کیا تھا جو بعد میں یونیورسٹی کے لیے ڈونر بن گیا۔ نیب کے مطابق ٹرسٹ کی رجسٹریشن سے صرف 3 ہفتے پہلے عمران خان کی کابینہ نے نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے پاکستان کو ملنے والی رقم واپس ملک ریاض کو بالواسطہ طور پر واپس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
نیب راولپنڈی نے اس معاملے میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا نوٹس لیتے ہوئے نیب آرڈیننس 1999 کے تحت پرویز خٹک، فواد چوہدری اور شیخ رشید سمیت 3 دسمبر 2019 کی کابینہ اجلاس میں موجود تمام ارکان کو علیحدہ علیحدہ تاریخوں پر طلب کیا تھا۔ نوٹس میں کہا گیا تھا کہ ’اختیارات کے ناجائز استعمال، مالی فائدہ اور مجرمانہ بدیانتی کے الزامات کی انکوائری کے دوران معلوم ہوا ہے کہ بطور کابینہ ممبر آپ نے 3 دسمبر 2019 کو وزیراعظم آفس میں ہونے والے کابینہ اجلاس میں شرکت کی جس میں آئٹم نمبر 2 پر فیصلہ کیا۔‘
نوٹس کے مطابق مذکورہ کابینہ اجلاس میں آئٹم نمبر 2 کا عنوان تھا ’احمد علی ریاض، ان کے خاندان اور میسرز بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹس کا انجماد اور پاکستان میں فنڈز کی منتقلی کا حکم نامہ‘۔ اس معاملے پر ایجنڈا آئٹم وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ (شہزاد اکبر) نے پیش کیا اور بریفنگ دی اور کابینہ سیکرٹری کو ہدایت کی کہ ریکارڈ کو سیل کردیا جائے۔ نوٹس میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے بیٹے احمد علی ریاض بھی طلب کیا گیا تھا
این سی اے کی رقم ملک ریاض کو کیسے واپس ملی؟تفصیلات کے مطابق 2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے ملک ریاض کے خلاف تحقیقات کیں اور پھر ان تحقیقات کے نتیجے میں ملک ریاض نے ایک تصفیے کے تحت 190 ملین پاؤنڈ کی رقم این سی اے کو جمع کروائی۔ این سی اے نے بتایا تھا کہ اس تصفیے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت ہے جسے پاکستان منتقل کردیا گیا۔
مزید پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈ کیس اور 5 بے وقوف
تاہم پاکستان میں پہنچنے پر کابینہ کے ایک فیصلے کے تحت رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے کی ایک تصفیے کے ذریعے قسطوں میں ادائیگی کررہے ہیں۔ اس طرح نیب کے مطابق ایک ملزم سے ضبط شدہ رقم واپس اسی کو مل گئی جبکہ یہ رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت تھی مگر اسے ملک ریاض کے ذاتی قرض کو پورا کرنے میں خرچ کیا گیا۔
اس حوالے سے 2019 میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کی سربراہی میں کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا اور معاملے کو حساس قرار دے کر اس حوالے سے ریکارڈ کو بھی سیل کردیا گیا تھا۔ ملک ریاض سے این سی اے نے جو معاہدہ کیا اس کی تفصیلات بھی رازداری میں رکھی گئی تھیں اور این سی اے کے بعد حکومتِ پاکستان نے بھی عوام یا میڈیا کو یہ تفصیلات نہیں بتائیں کہ ریاستِ پاکستان کا پیسہ دوبارہ کیسے ملک ریاض کے استعمال میں لایا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
190 ملین پاؤنڈ بحریہ ٹاؤن بشریٰ بی بی شہزاد اکبر عمران خان ملک ریاض حسین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 190 ملین پاؤنڈ شہزاد اکبر ملک ریاض حسین کابینہ اجلاس میں ملین پاؤنڈ کیس ملک ریاض کو ملک ریاض کے کے مطابق گیا تھا کے لیے کی رقم
پڑھیں:
علامہ اقبال اور پاکستان پوسٹ
محمکہ ڈاک پاکستان نے پہلا ڈاک ٹکٹ 9 جولائی 1948 کو جاری کیا تھا، اس سے پہلے ڈاک کا نظام کیسے چلتا رہا وہ کہانی پھر سہی، چونکہ آج شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی 87ویں برسی ہے، اس لیے آج ’اقبال‘ پر جاری کیے گئے ڈاک ٹکٹوں تک محدود رہتے ہیں۔
علامہ اقبال کی 20ویں برسی پر 21 اپریل 1958 کو 3 یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئےمحمکہ ڈاک پاکستان نے علامہ اقبال کی 20ویں برسی کے موقع پر 21 اپریل 1958 کو 3 یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے۔ جو ڈیڑھ آنہ، 2 آنہ اور 14 آنہ مالیت کے تھے۔ تینوں کا ڈیزائن ایک سا تھا لیکن رنگ الگ الگ تھے۔ ان پر علامہ اقبال کا مشہور شعر ’معمارِ حرم، باز بہ تعمیر جہاں خیز‘ بھی درج تھا۔
ان پر علامہ اقبال کے دستخط کا عکس اور پس منظر میں ’پاکستان‘ اردو، بنگالی اور انگریزی میں لکھا گیا تھا۔ علامہ اقبال کی پیدائش کا سال 1873 لکھا گیا تھا۔( بعد میں حکومتی کمیٹی کی سفارشات کے بعد آئندہ ڈاک ٹکٹوں پر پیدائش کا سال 1877 ہی چھاپا گیا)۔ عبدالرحمان چغتائی کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ انگلینڈ کی کمپنی ’ہیریسن لمیٹڈ لندن‘ نے چھاپے تھے۔
مزید پڑھیں: ’ایسا لگا کہ میں اقبال ہوں اور خود کو پینٹ کر رہا ہوں‘
علامہ اقبال کی 29ویں برسی پر 21 اپریل 1967 کو 2 یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئےمحکمہ ڈاک نے 21 اپریل 1967 کو علامہ اقبال کی 29ویں برسی پر 2 یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے۔ عبدالرؤف کے ڈیزائن کردہ 15 پیسے اور 1 روپیہ مالیت کے ٹکٹوں پر علامہ اقبال کے اردو اور فارسی اشعار بھی درج تھے۔ 15 پیسے والے ٹکٹ پر اردو میں یہ شعر درج تھا:
’ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پھوٹے
خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر‘
ٹکٹوں پر علامہ اقبال کا سن پیدائش 1877 اور سن وفات 1938 بھی درج تھا جبکہ اردو اور بنگالی میں ’پاکستان‘ بھی لکھا گیا تھا۔ ان کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی جبکہ ایک روپیہ والے ٹکٹ پر یہ فارسی شعر درج تھا:
’نغمہ کجا و من کجا، سازِ سخن بہانہ ایست
سوئے قطار می کشم، ناقۂ بے زمام را‘
9 نومبر 1974 کو علامہ اقبال کی سالگرہ کے موقع پر محکمہ ڈاک نے یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔ منور احمد کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ کی مالیت 20 پیسے تھی۔ ٹکٹ پر (Iqbal Centenary 1977) اور علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش 9 نومبر 1877 اور تاریخ وفات 21 اپریل 1938 بھی درج تھی۔ اس کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی جبکہ اردو اور انگریزی میں ’پاکستان‘بھی لکھا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: علامہ اقبال اور شاہ عبد العزیز: ایک فکری رشتہ جو تاریخ نے سنوارا
علامہ اقبال کی صد سالہ جشن پیدائش کی تیاری کے سلسلے میں ایک یادگاری ٹکٹ 9 نومبر 1975 کو ان کی سالگرہ کے موقع پر جاری کیا گیا۔ عادل صلاح الدین کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ کی مالیت 20 پیسے تھی۔ ٹکٹ پر (Iqbal Centenary 1977) اور علامہ اقبال کا تاریخ پیدائش 9 نومبر 1877 اور سن وفات 21 اپریل 1938 بھی درج تھا۔
مفکر پاکستان گہری سوچ میں دکھائی دے رہے ہیں جبکہ پس منظر میں ان کی تصانیف (جاوید نامہ، ضرب کلیم، پیام مشرق، بانگ درا، بال جبریل، رموز بیخودی) کے نام بھی درج تھے۔ اس کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی جبکہ اردو اور انگریزی میں ’پاکستان‘ بھی لکھا گیا تھا۔
علامہ اقبال کی 99ویں سالگرہ کے موقع پر 9 نومبر 1976 کو یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیاصد سالہ جشن پیدائش کی تیاری کے سلسلے میں ایک یادگاری ٹکٹ 9 نومبر 1976 کو علامہ اقبال کی 99ویں سالگرہ کے موقع پر جاری کیا گیا۔ عارف جاوید کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ کی مالیت 20 پیسے تھی۔
ٹکٹ پر (Iqbal Centenary 1977) اور علامہ اقبال کا تاریخ پیدائش 9 نومبر 1877 اور سن وفات 21 اپریل 1938 بھی درج تھا۔ اقبال کا مشہور شعر بھی درج تھا:
’فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں‘
مزید پڑھیں: ’قوم علامہ اقبال کے افکار کی پیروی کرے‘ صدر اور وزیرِاعظم کا شاعر مشرق کی برسی پر پیغام
صد سالہ جشن پیدائش پر 9 نومبر 1977 کو 5 ٹکٹوں پر مشتمل یادگاری سیٹ جاری کیا گیاپاکستان میں 1977 کو علامہ محمد اقبال کے صد سالہ جشن پیدائش کے طور پر منایا گیا۔ محکمہ ڈاک 9 نومبر 1977 کو 5 ٹکٹوں پر مشتمل یادگاری سیٹ جاری کیا۔ اخلاق احمد کے ڈیزائن کردہ 20 پیسہ اور 65 پیسہ مالیت کے ٹکٹوں پر اقبال کے فارسی اشعار اور ممتاز ایرانی مصور ’بہزاد‘ کی پینٹنگز شائع کی گئیں۔ ان پر یہ فارسی اشعار درج تھے:
’رفتم و دیدم دو مرد اندر قیام
مقتدی تاتار و افغانی امام‘
’روح رُومی پردہ ہا را بر درید
از پس کہ پارۂ آمد پدید‘
اسی ڈاک ٹکٹ سیٹ کی 1 روپیہ 25 پیسہ اور 2 روپے 25 پیسہ مالیت کی ٹکٹوں پر اقبال کے یہ اشعار درج تھے:
’کوئی اندازہ کرسکتا ہے اُس کے زورِ بازو کا؟
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘
’نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شاخساریم‘
پانچواں ٹکٹ جس کی مالیت 3 روپے تھی، اس پر علامہ اقبال کا پورٹریٹ شائع کیا گیا تھا۔ ان کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی جبکہ اردو اور انگریزی میں ’پاکستان‘ بھی لکھا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد میں یادگارِ اقبال
23 مارچ 1990 کو قراردادِ پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر 3 یادگاری ٹکٹ جاری کیے گئے23 مارچ 1990 کو قراردادِ پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر 3 یادگاری ٹکٹ جاری کیے۔ ان میں سے ایک پر علامہ اقبال کی پورٹریٹ اور ایک ٹکٹ پر ان کا شعر شائع کیا گیا تھا۔ ایک ٹکٹ پر منٹو پارک لاہور کی منظر کشی ہے جہاں قراردادِ پاکستان منظور کی گئی تھی۔ اس تصویر میں اسٹیج پر لگے بینر پر اقبال کا شعر درج تھا:
’جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے‘
ایک ٹکٹ پر علامہ اقبال کو 1930 میں الٰہ آباد جلسہ میں ان کی مشہور تقریر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جس میں انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا تھا۔ ایک، ایک روپے مالیت کے ان ٹکٹوں کو آفتاب ظفر نے ڈیزائن کیا تھا۔
14 اگست 1990 کو تحریک آزادی کے اکابرین پر 27 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا گیا14 اگست 1990 کو محکمہ ڈاک نے تحریک آزادی کے اکابرین پر 27 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا۔ یہ سیٹ قائداعظم، علامہ اقبال، لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح اور دیگر رہنماؤں پر مشتمل تھا۔ پروفیسر سعید اختر کے تیار کردہ پینسل اسکیچز سے بنے ہر ٹکٹ کی قیمت ایک روپے تھی۔
علامہ اقبال کی تصویر کے اوپر انگریزی میں ان کا نام اور پیدائش اور وفات کے سال درج تھے جبکہ سب سے اوپر (Pioneers of freedom) لکھا تھا۔
علامہ اقبال اور مولانا رومی کی یاد میں 2 یادگاری ٹکٹ جاری کیے گئے۔21 اپریل 1997 کو پاکستان اور ایران کے باہمی ثقافتی تعلقات کے اظہار کے طور پر پاکستان اور ایران کے محکمہ ڈاک نے علامہ اقبال اور مولانا رومی کی یاد میں 3، تین روپے مالیت کے 2 یادگاری ٹکٹ بیک وقت جاری کیے تھے۔
ٹکٹوں پر دونوں عظیم شعرا کے فارسی اشعار درج تھے۔ عظیم صوفی شاعر اور روحانی پیشوا مولانا جلال الدین رومی (1252-1148) کے ٹکٹ پر یہ شعر درج تھا: ’بشنو ازنی چون حکایت می کند ۔۔۔ وز جدا ییہا شکایت می کند‘۔
جاوید الدین کے ڈیزائین کردہ ان ڈاک ٹکٹوں کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی، علامہ اقبال کے ٹکٹ پر فارسی کا یہ شعر درج تھا: ’ ای امین حکمتِ اُم الکتاب ۔۔۔ وحدت گم گشتہ خود بازیاب‘۔
مزید پڑھیں: اقبال کی شاعری خود شناسی کی لازوال دعوت ہے، یوم اقبال پر وزیراعظم کا پیغام
14 اگست 1997 کو آزادی کے 50 برس مکمل ہونے پر 4 ٹکٹوں کا یادگاری سیٹ جاری کیا گیا۔14 اگست 1997 کو پاکستان کی آزادی کے 50 برس مکمل ہونے پر جشن (گولڈن جوبلی) منایا گیا۔ اس موقع پر محکمہ ڈاک نے تحریک آزادی کے اکابرین پر 4 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا۔ یہ سیٹ قائداعظم، علامہ اقبال، لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح پر مشتمل تھا۔
پروفیسر سعید اختر کے تیار کردہ ہر ٹکٹ کی قیمت 3 روپے تھی۔ علامہ اقبال کی تصویر کے اوپر انگریزی میں Golden Jubilee Celebrations (1947–1997)) لکھا تھا۔
9 نومبر 2002 کو 2 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا گیامحمکہ ڈاک پاکستان نے 2002 کو علامہ اقبال کا سال قرار دیا اور اسی سال 9 نومبر کو ان کے یوم پیدائش کی مناسبت سے 2 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا گیا۔ فیضی امیر کے ڈیزائین کردہ ٹکٹوں کی مالیت فی عدد 4 روپے تھی۔
ان ڈاک ٹکٹوں کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی تھی۔
14 جنوری 2005 کو علامہ اقبال اور میہائی ایمینیسکو کی اسلام آباد میں واقع یادگار پر 2 ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئےپاکستان پوسٹ نے 14 جنوری 2005 کو علامہ اقبال اور میہائی ایمینیسکو کی اسلام آباد میں واقع یادگار پر 2 ڈاک ٹکٹ جاری کیے تھے۔ ٹکٹوں کی فی عدد قیمت 5 روپے ہے جن پر دونوں شاعروں کی تصاویر کے ساتھ پاکستان اور رومانیہ کے جھنڈے بھی ہیں۔
ایک ٹکٹ پر تہذیبوں کے مابین مکالمے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا تھا۔ یہ ڈاک ٹکٹ عادل صلاح الدین نے ڈیزائن کیے تھے۔ ان کی طباعت پاکستان پوسٹ فاؤنڈیشن پریس نے کی تھی۔
علامہ اقبال کی 75ویں برسی 21 اپریل 2013 کو یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیاعلامہ اقبال کی 75ویں برسی کے موقع پر 21 اپریل 2013 کو بھی ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا تھا۔ عادل صلاح الدین کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ کی مالیت 15 روپے تھی۔
یہ علامہ اقبال پر جاری کیا گیا پہلا ڈاک ٹکٹ تھا جس پر شاعر، فلاسفر اور سوشل ریفارمر بھی درج کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: لاہور کی جاوید منزل جہاں سے آج بھی شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کی خوشبو آتی ہے
پاک ترک سفارتی تعلقات کے 70 سال مکمل ہونے پر مشترکہ یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرا9 نومر 2017 کو پاکستان اور ترکی کے درمیان سفارتی تعلقات کے 70 سال مکمل ہونے کے موقع پر ترکی کی ڈاک اور ٹیلی گراف تنظیم (PTT) اور پاکستان پوسٹ نے 2 مشترکہ یادگاری ٹکٹ جاری کیے۔ 10 روپے فی عدد مالیت کی ٹکٹوں پر پاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال (1938-1877) اور ترکی کے قومی شاعر مہمت عاکف ارسوی (1963-1873) کی تصاویر موجود تھیں، جنہیں دونوں ممالک کے عوام دل سے چاہتے ہیں۔
ترکی اب تک پاکستان کے حوالے سے 13 ڈاک ٹکٹ جاری کرچکا تھا، لیکن یہ پہلا موقع تھا جب دونوں ممالک نے مشترکہ ٹکٹ جاری کیا۔ ٹکٹ عادل صلاح الدین نے ڈیزائن کیے تھے جبکہ ان کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی۔
پاکستان اور ایران نے بنا رائیلٹی کے ڈاک ٹکٹس پر چھاپے؟پاکستان پوسٹ نے 9 نومبر 2021 کو پاک جرمن تعلقات کے 70 برس مکمل ہونے پر ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا تھا، جس پر علامہ اقبال اور جرمن شاعر گوئٹے کے پورٹریٹ شائع کیے گئے تھے۔ پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کمپنی، کراچی سے طباعت شدہ 20 روپے مالیت کے 4 لاکھ ٹکٹس جاری کیے گئے تھے۔
پاکستان پوسٹ نے مصور اقبال ’عجب خان‘ کی اجازت کے بغیر ان کا بنایا ہوا اقبال کا پورٹریٹ شائع کیا تو انہوں نے رائیلٹی کے لیے 3 دسمبر 2021 کو ڈائریکٹر جنرل پاکستان پوسٹ سمیت دیگر ارباب اختیار کو خطوط لکھے جو تاحال جواب کے منتظر ہیں۔
فرزند اقبال کی 100ویں سالگرہ پر یادگاری سونیئر شیٹ بمعہ یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیاڈاکٹر جاوید اقبال (1924–2015) پاکستان کے عظیم مفکر، مصنف، ماہرِ قانون اور جج تھے۔ وہ علامہ محمد اقبال فرزند تھے، ان کی زندگی بھی فکری، علمی اور عدالتی خدمات سے بھرپور تھی۔ ان کی 100ویں سالگرہ کی مناسبت سے پاکستان پوسٹ کی جانب سے 100 روپے مالیت کی سونیئر شیٹ بمعہ یادگاری ڈاک ٹکٹ 9 نومبر 2024 کو جاری کیا۔
یوم اقبال (9 نومبر) کے موقع پر جاری کیے گئے ٹکٹ کو ابو عبیدہ ایاز اور حسنین محمود نے ڈیزائین کیا تھا۔ پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کمپنی، کراچی سے طباعت شدہ 10 ہزار سونیئر شیٹز جاری کی گئی تھیں۔ یہ پاکستان کی ڈاک تاریخ میں پہلی بار QR کوڈ والا ٹکٹ بھی ہے۔QR کوڈ اسکین کرنے سے ڈاکٹر جاوید اقبال کی زندگی، خدمات اور تصانیف کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں جو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے علم کے فروغ کی جانب اہم قدم ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں