WE News:
2025-04-23@00:25:48 GMT

غامدی صاحب کا جرم

اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT

ہمارا خطہ ایک اور طوفان کی زد میں ہے۔ گزشتہ 3-4 دہائیوں کے دوران بھی یہاں طوفان آتے رہے ہیں، لیکن پاکستان ان طوفانوں کا ہدف بالواسطہ طور پر بنا، لیکن اس بار صورت حال مختلف ہے۔ شیطان کے کان بہرے،  خطرہ یہی ہے کہ اس بار ہم دشمن کا کہیں براہِ راست نشانہ نہ بن جائیں۔ جاوید احمد غامدی صاحب کا جرم یہی ہے کہ انہوں نے بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی ہے  اور خبردار کیا ہے کہ اس بار کوئی غلطی سرزد ہوئی تو آئندہ 2-3 صدیوں تک اس کی سزا بھگتنی پڑے گی۔

سوال یہ ہے کہ آج ہمیں کس خطرے کا سامنا ہے؟ سیاست کی عالمی بساط پر بہت سے کھیل ایک ساتھ چلتے ہیں۔ یوں کہنا چاہیے کہ ہمہ وقت زیر زمین ہلچل مچی رہتی ہے۔ کبھی کبھی اس کے کچھ مظاہر سامنے آ جاتے ہیں، لیکن ان کا معاملہ کسی غوطہ خور کی طرح ہوتا جس نے ڈبکی تو غزہ میں لگائی لیکن برآمد وہ شام میں ہوا۔ شام کے واقعے کے بعد اسرائیل کے راستے کی بہت سی رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں یا وہ اتنی کمزور ہو چکی ہیں کہ اب ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ کیا فلسطین میں پھٹنے والے آتش فشاں کی منزل صرف دمشق تھی؟ کون یقین سے کچھ کہہ سکتا ہے، لیکن دیکھنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں، پھر مطالعہ بہت سے راز اور پیچیدہ گرہیں کھول دیتا ہے۔ یوں انہیں بہت کچھ معلوم ہو ہی جاتا ہے۔ لہٰذا غامدی صاحب یا ان جیسے بزرگ کوئی بات کہیں تو ضرور اس پر کان دھرنے چاہییں۔

یہ بھی پڑھیں:وسائل کے بغیر جنگ جیتنے کی حکمت عملی

سیاست کے عالمی پیچ و خم کے رازدانوں اور تجزیے اور بصیرت کے زور پر حالات پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ اس بار جس خرابی کا آغاز ہوا ہے، اس کا سلسلہ مشرق وسطیٰ تک رکنے والا نہیں۔ یہ ایران تک پہنچے گا لیکن ایران بھی اس کی آخری منزل نہیں ہوگی۔ اس کی حتمی منزل ایران کا پڑوس یعنی پاکستان ہے۔ سرسری انداز سے بھی دیکھیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ بظاہر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ شام میں رونما ہونے والی تبدیلی نے ترکیہ میں ہیجان بپا رکھنے والے کردوں کی کمر توڑ دی ہے اور اب ان میں پہلے جیسا دم خم باقی نہیں رہا۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ ایک محاذ تو ٹھنڈا ہو گیا لیکن ظاہر ہے کہ یہ بھی ایک اندازہ ہے۔ اگر اس کے الٹ ہوتا ہے تو اس کے اثرات بلوچستان تک محسوس کیے جائیں گے۔ پہلے سے بے چین بلوچستان کے لیے یہ ایک نیا خطرہ ہو گا۔ اس خطرے کے کچھ پہلو اور بھی ہیں۔

اب تک تو دنیا یہی سمجھتی آئی ہے کہ امریکا طالبان کا مخالف ہے، اس کی حکومت کو بھی اس نے تسلیم نہیں کیا، لیکن امریکی امداد پھر بھی اسے مل رہی ہے۔ صرف امریکی امداد نہیں مل رہی، امریکی اتحادیوں کے ساتھ بھی ان کے راز و نیاز بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کا تازہ ثبوت دبئی سے میسر آیا ہے جہاں بھارتی سیکریٹری خارجہ اور افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ کے درمیان ملاقات ہوئی ہے۔ یہ ملاقات کئی اعتبار سے اہم ہے۔ کیا یہ بات توجہ طلب نہیں  ہے کہ طالبان  بھارت کی ترجیحات میں بہت نیچے تھے۔ اس کے ذمے داران سے اگر بھارتی ملتے بھی تھے تو بہت نچلی سطح پر۔ اب یہ سطح یک دم بلند ہوئی ہے۔ صرف بلند نہیں ہوئی بھارت نے طالبان حکومت کو بھاری مالی امداد بہم پہنچانے کا وعدہ بھی کیا ہے اور افغانستان نے چاہ بہار کی بندرگاہ کے سلسلے میں بھارت سے تعاون بڑھانے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ باتیں تو وہ ہیں جو علانیہ ہیں۔ غیر علانیہ کیا کیا کچھ ہے؟ اس کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ سامنے آ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:رچرڈ گرینل پریشان کیوں ہیں؟

اب ایک اور معاملے پر توجہ کیجیے۔ کچھ دن ہوتے ہیں، ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے ایک بات کہی تھی۔ انہوں نے اپنی گفتگو کی ایک وڈیو جاری کی تھی جس میں انہوں نے چونکا دینے والی ایک بات کہی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایک قوم پرست گروہ نے پاکستان کے سابق قبائلی علاقوں میں ایک جرگہ منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ الطاف حسین نے اپنی گفتگو میں دونوں طرف کے قوم پرستوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ تمہارا اصل دشمن کون ہے، لہٰذا اس جرگے میں جوق در جوق شرکت کی جائے۔ یہ جرگہ ہو جاتا تو ایک بہت بڑا دھماکا ہوتا، لیکن اس وقت بہت سے متعلقہ لوگ حرکت میں آئے یوں یہ سرگرمی بے اثر ہو گئی۔ یہ سرگرمی بے اثر ضرور ہوئی لیکن ختم نہیں ہوئی۔ سازش نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس پر کام بھی جاری ہے، جس کے اثرات کرم سمیت پورے خیبر پختونخواہ میں صاف دکھائی دیتے ہیں۔

ان اثرات کے 2 پہلو تو ہمارے قومی منظر پر صاف نظر آتے ہیں، جن کا ایک پہلو سیاسی ہے اور دوسرا غیر سیاسی۔ غیر سیاسی منظرنامہ کرم میں ہمارے سامنے ہے جہاں صرف چند دنوں کے دوران ہی سینکڑوں افراد کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اسی طرح صوبے میں دہشتگردی کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ یہ معاملہ کثیر پہلو ہے۔ یہ صرف فرقہ واریت اور دہشتگردی نہیں ہے۔ اس قضیے میں بہ ظاہر 2 فریق ہی سامنے ہیں، لیکن بات ان 2 تک محدود نہیں۔ اگر چند سوالوں پر غور کر لیا جائے تو مزید فریق بھی بے نقاب ہو جائیں گے۔

اس ضمن میں پہلا سوال یہ ہے کہ کرم میں جب خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی، صوبائی حکومت اس سے لاتعلق کیوں رہی؟ وہ صرف لاتعلق نہیں تھی بلکہ اس نے دوسرا محاذ بھی گرم کر رکھا تھا۔ اس سیاسی گروہ کی طرف سے اسلام آباد پر بار بار یلغار کا مقصد کیا صرف سیاسی تھا؟ اب یہ حقیقت تو واضح ہو چکی کہ اسلام آباد میں لاشیں مطلوب تھیں۔ یہ لاشیں مل جاتیں تو پورا منظر نامہ ہی بدل جاتا۔ کرم صرف کرم تک محدود نہ رہتا، اس کی تباہ کاری کا دائرہ مزید وسیع ہو جاتا۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں بھی پی ٹی آئی کا غیر ذمے دارانہ طرز عمل اسی وجہ سے ہے۔ بہت سی قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان کو معاشی اور انتظامی طور پر ناکام بنا دیا جائے جس کے نتیجے میں صرف حکومت ہی نہیں ریاست کے غیر مؤثر ہونے کا تاثر بھی پختہ ہو جائے۔ 2018 سے اب تک ملک کو دیوالیہ کرنے کی عملی کوششوں کا تعلق بھی اسی منصوبے کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ اب جو کچھ دن قبل عمران خان نے یہ کہا ہے کہ حکومت معیشت کو بہتر کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے، یہ ان کی طرف سے خوشی کا اظہار نہیں تھا بلکہ اپنے لوگوں کو ان کی طرف سے ڈانٹ تھی کہ نالائقو! یہ تم نے کیسے ہونے دیا؟

یہ بھی پڑھیں:صدیق الفاروق: جسے ہو غرور آئے کرے شکار مجھے

اس گورکھ  دھندے کے مقاصد بڑے خوف ناک ہیں، ان کا تعلق پاکستان کے ساتھ براہ راست ہے۔ ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت سیاسی حدت اور دہشتگردی و خون ریزی میں مسلسل اضافے کا مقصد پاکستان میں اقوام متحدہ کی مداخلت کا راستہ ہموار کرنا ہے۔ ایسی صورت میں یہ بات کہے بغیر بھی سمجھ میں آتی ہے کہ خانہ جنگی میں مبتلا ملک کے پاس ایٹمی اثاثے کوئی رہنے نہیں دیتا۔ ملک کو بہ تدریج اسی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ اس سازش کا دوسرا نکتہ ملک کو آئین سے محروم کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حالیہ بحران 2 شاخہ ہے۔ آئین سے محرومی کا مقصد ملک کے اتحاد کا خاتمہ ہے تاکہ ملک کو اپنی نظریاتی شناخت سے محروم کر دیا جائے۔ پاکستان کے موجودہ بحران کی اصل کہانی یہی ہے۔

ایسی خطرناک فضا میں ملک کی دفاعی فورس کو متنازع بنانا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے، یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ فوج کے ہیڈکوارٹر اور دیگر اہم تنصیبات پر حملوں اور اس کے ذمے داران کی کردار کشی کا تعلق بھی اسی صورت حال سے ہے۔ یہ معاملہ صرف پی ٹی آئی تک محدود نہیں بلکہ اس کی شاخیں دور دور تک یعنی بیرون ملک تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ جو پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کا تخریبی پروپیگنڈا تھمنے میں نہیں آ رہا اور کوئی نہیں جانتا کہ اس کے پیچھے کون ہے، اس کی وجہ بھی یہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:راضی بہ رضا امین احسن اصلاحی

اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ایک بار پھر 1971 جیسے حالات سے دوچار ہے۔ اس قسم کے حالات میں فوج کی پالیسیوں سے اگر اختلاف بھی ہو تو اسے کمزور کرنا دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے۔ غامدی صاحب نے ہمیں یہی سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی مخالفت اور کردار کشی کرنے والے دشمن کے آلہ کار ہیں اور اس کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ ان کے حرف نصیحت کو ان کا جرم بنا دینے والے کتنا بڑا جرم کر رہے ہیں، یہ بات ان کی سمجھ میں آ جائے تو وہ پچھتائیں اور سینہ کوبی کریں لیکن سردست تو وہ قاتلینِ حسین کی طرح تلواریں سونتے کھڑے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

1971 ایران جاوید احمد غامدی دہشتگردی شام غزہ کرم.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایران جاوید احمد غامدی دہشتگردی کے ساتھ رہے ہیں بھی اس یہ بات ملک کو

پڑھیں:

مودی حکومت وقف کے تعلق سے غلط فہمی پیدا کررہی ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر نے کہا کہ ہمارے درمیان مسلکی اور عقیدے کی بنیاد پر اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن اسکو ہمیں اپنے درسگاہوں تک محدود رکھنا ہوگا اور اس لڑائی کیلئے سبھی کو اتحاد کیساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذریعہ تال کٹورہ انڈور اسٹیڈیم میں منعقدہ تحفظ اوقاف کانفرنس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ وقف قانون کے تعلق سے لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کے لوگ کہتے ہیں کہ وقف قانون کا مذہب سے تعلق نہیں ہے، تو پھر مذہبی قیدوبند کیوں لگائی ہے، کہا جاتا ہے کہ وقف قانون کا مقصد غریبوں کی مدد کرنا ہے، لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ کوئی بھی نکات یا پہلو بتا دیجیئے جس سے غریبوں کو فائدہ ہوسکتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون کسی بھی طرح سے غریبوں کے حق میں نہیں ہے، ہمیں احتجاج کرنا ہے، یہ ہمارا جمہوری حق ہے، لیکن احتجاج پُرامن ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری صفوں میں لوگ گھس کر امن و امان کو ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں اس سے محتاط رہنا ہے۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ ہمیں اپنے اتحاد کو مزید مضبوط کرنا ہے، ہمارے درمیان مسلکی اور عقیدے کی بنیاد پر اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن اس کو ہمیں اپنے درسگاہوں تک محدود رکھنا ہوگا اور اس لڑائی کے لئے سبھی کو اتحاد کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے غیر مسلم بھائی اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ہمارے ساتھ ہیں، ہماری مضبوط لڑائی کو جیت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے علماء کرام اس کانفرنس میں شیروانی پہن کر آئے ہیں، کل اگر ضرورت پڑی تو وہ کفن بھی پہن کر آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج ان کے ہاتھوں میں گھڑی ہے، کل ضرورت پڑی تو ہتکڑی بھی پہننے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ حکومت کہتی ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے مفاد میں ہے اور غریب مسلمانوں کے مفاد میں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت ملک میں نفرت پیدا کرکے اوقاف کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ وقف قانون بناکر حکومت نے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کو اجاگر کر دیا ہے، لیکن ہم اپنی پُرامن لڑائی کے ذریعہ اس قانون کی مخالفت کرتے رہیں گے۔ اس موقع پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی، امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی، بورڈ کے نائب صدر اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، شیعہ مذہبی رہنما مولانا سید کلب جواد، خواجہ اجمیری درگاہ کے سجادہ نشین حضرت مولانا سرور چشتی، محمد سلیمان، صدر انڈین یونین مسلم لیگ، عیسائی رہنما اے سی مائیکل، محمد شفیع، نائب صدر ایس ڈی پی آئی، روی شنکر ترپاٹھی، سردار دیال سنگھ وغیرہ موجود تھے۔

قابل ذکر ہے کہ مودی حکومت نے وقف ترمیمی بل 2024 کو پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا، لیکن اپوزیشن کی مخالفت کے بعد اسے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) میں بھیج دیا گیا۔ جے پی سی کا چیئرمین یوپی کے ڈومریا گنج کے رکن پارلیمنٹ جگدمبیکا پال کو بنایا گیا تھا۔ مختلف ریاستوں میں کئی میٹنگوں کے بعد 14 ترامیم کے ساتھ اس بل کو منظوری دی تھی۔ جس کے بعد پارلیمنٹ میں اس بل کو منظور کیا گیا۔ اس کے بعد صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے بھی مہر لگا دی، جس کے بعد یہ قانون بن گیا۔ اس کے بعد مختلف تنظیموں اور کئی اراکین پارلیمنٹ نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، جس پر سماعت جاری ہے۔ حکومت کو جواب داخل کرنے کے لئے ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے، جبکہ عدالت نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے اس قانون کے کچھ پہلوؤں پر سوال اٹھایا اور چند نکات کے نفاذ پر روک لگا دی ہے۔ عدالت میں اب 5 مئی 2025ء کو اس معاملے کی اگلی سماعت ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • سروس کی اگلی پرواز… پی آئی اے
  • مودی حکومت وقف کے تعلق سے غلط فہمی پیدا کررہی ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
  • فلم اسٹار خوشبو خان نے اپنی زندگی کے دکھوں سے پردہ اٹھا دیا
  • پیپلز پارٹی کو حکومت سے علیحدہ ہونا پڑا تو 2 منٹ نہیں لگائیں گے، ناصر حسین شاہ
  • بنیادی صحت کے مراکز کی نجکاری قبول نہیں، دھرنا جاری رہے گا، رخسانہ انور
  • بلاول کو پنجاب کے کسان کا خیال آگیا لیکن سندھ کے کسان کی بات نہیں کی، عظمی بخاری
  •  خیبر پختونخوا کی بے اختیار بلدیاتی حکومتیں اور نمائندے 3 سال گزرنے کے باوجود فنڈز سے محروم
  • ریاست اپنی جگہ لیکن کسی کی زندگی سےکھیلناقابل قبول نہیں:عظمیٰ بخاری
  • فیکٹ چیک: کیا سابق چینی وزیر اعظم نے واقعی سزائے موت کی تجویز دی؟
  • ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، شیخ وقاص اکرم