شہر قائد میں واٹر ٹینکرز کی بے قابو رفتار اور قانون شکنی کی وجہ سے ہونے والے حادثات ایک خوفناک حقیقت بن چکے ہیں۔ تازہ ترین واقعات میں 6 قیمتی جانوں کا ضیاع اور متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع نے عوام کے غم و غصے کو بڑھا دیا ہے۔ شہید ملت روڈ پر پیش آنے والے حادثے میں دو موٹر سائیکل سوار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ ایک شخص زخمی ہوا۔ اسی طرح حب ریور روڈ پر دو مزید افراد واٹر ٹینکر کی زد میں آکر جاں بحق ہوگئے۔ ان المناک واقعات کے بعد ٹینکرز کے ڈرائیورز ہمیشہ کی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حسب معمول بے بسی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ یہ حادثات صرف چند مثالیں ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ شہر کی سڑکیں غیر محفوظ ہو چکی ہیں۔ ان واٹر ٹینکرز کے ڈرائیورز کی لاپروائی، غیر تربیت یافتہ ہونا اور قوانین کی خلاف ورزی معمول بن چکی ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی اور مجرموں کے خلاف کارروائی میں ناکامی نے ان حادثات کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ گزشتہ سال کے اعداد وشمار کو اگر دیکھا جائے تو کراچی میں ٹریفک حادثات کے نتیجے میں 771 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں اور 8014 زخمی ہوئے ہیں۔ ان میں مرنے والے 601 مرد، 88 خواتین، 61 بچے اور 21 بچیاں شامل ہیں، جبکہ زخمیوں میں 6714 مرد، 1064 خواتین، 290 بچے اور 79 بچیاں شامل ہیں۔ شہریوں کا مشتعل ہوکر احتجاج کرنا اور ٹینکرز کو آگ لگانا ان کے اندر بڑھتے ہوئے مایوسی اور بے بسی کے جذبات کو ظاہر کرتا ہے، لیکن یہ عمل مسئلے کا حل نہیں بلکہ مزید نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ عوام کو قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اپنی ذمے داریوں کو نبھائیں۔ واٹر ٹینکرز کے ڈرائیورز کی تربیت کو یقینی بنایا جائے، ان کے روٹ اور اوقات کار کو منظم کیا جائے، اور سخت قوانین کے ساتھ ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ عوامی آگاہی مہم نمائشی نہ ہوں وہ بھی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ٹریفک قوانین کی پاسداری کو فروغ دیا جا سکے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان حادثات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کرے، تاکہ شہری اپنی زندگی کو محفوظ محسوس کریں۔
.
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
محکمہ تعلیم کی امبریلہ اسکیموں کے تحت تخمینہ لاگت اور مختص کردہ وسائل میں ہم آہنگی پیدا کی جائے تاکہ وسائل کا ضیاع نہ ہو اور ہر اسکیم مثر انداز سے مکمل ہو، وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی
کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 اپریل2025ء)وزیر
اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیر صدارت محکمہ
تعلیم کی امبریلہ
اسکیموں کی پیش رفت و بہتری سے متعلق اہم اجلاس پیر کو یہاں چیف منسٹر سیکرٹریٹ میں منعقد ہوا اجلاس میں جاری اور مجوزہ اسکیموں کی پیش رفت، شفافیت، اور مثر عمل درآمد کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اجلاس میں
وزیر اعلی بلوچستان نے تمام اضلاع میں تعلیمی ضروریات کے حوالے سے ایک جامع اور منظم سروے کرانے کی ہدایت دی تاکہ حقائق پر مبنی منصوبہ بندی ممکن ہو سکے وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ محکمہ تعلیم کی امبریلہ اسکیموں کے تحت تخمینہ لاگت اور مختص کردہ وسائل میں ہم آہنگی پیدا کی
جائے تاکہ وسائل کا ضیاع نہ ہو اور ہر اسکیم مثر انداز سے مکمل ہو انہوں نے واضح کیا کہ ایسے اضلاع جو تعلیمی میدان میں پسماندہ ہیں ان کو امبریلہ اسکیموں میں ترجیح دی جائے تاکہ تعلیمی عدم توازن کا خاتمہ ممکن ہو انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امبریلہ اسکیموں کے لیے دستیاب وسائل کی تقسیم ہر قسم کی مصلحت، دبا یا سیاسی اثر و رسوخ سے بالاتر ہو کر صرف شفافیت اور میرٹ کی بنیاد پر کی جائے وزیر اعلی نے کہا کہ بنیادی سہولیات سے محروم اسکولوں کو ان اسکیموں میں اولین ترجیح دی جائے تاکہ نچلی سطح پر تعلیمی بہتری یقینی بنائی جا سکے وزیر اعلی میر سرفراز بگٹی نے ہدایت کی کہ ترقیاتی منصوبوں کی مثر نگرانی کے لیے ضلعی سطح پر مانیٹرنگ کمیٹیوں کو فعال کیا جائے اور تمام اسکیموں میں شفافیت اور نتیجہ خیزی کو ترجیح دی جائے انہوں نے کہا کہ تعلیم سے جڑی اسکیموں میں مقامی کمیونٹی کی رائے اور ضروریات کو مدنظر رکھنا ناگزیر ہے تاکہ منصوبے زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہوں اجلاس میں صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ حمید خان درانی، صوبائی وزیر خزانہ میر شعیب نوشیروانی، مشیر بلدیات نوابزادہ بابا امیر حمزہ خان زہری، ایڈیشنل چیف سیکرٹری منصوبہ بندی و ترقیات حافظ عبدالباسط، پرنسپل سیکریٹری وزیر اعلی بابر خان، سیکریٹری تعلیم صالح محمد ناصر، سیکریٹری خزانہ عمران زرکون سمیت متعلقہ محکموں کے اعلی افسران نے شرکت کی ، وزیر اعلی نے تمام حکام پر زور دیا کہ تعلیمی میدان میں حقیقی تبدیلی لانے کے لیے ادارہ جاتی بہتری، شفاف طریقہ کار، اور موثر عمل درآمد پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔