پاکستانی سیاست کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ شخصیات کے گرد کھڑی ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہاں ادارہ سازی کے بجائے افراد زیادہ مضبوط ہوتے ہیںاور انھی کی بالادستی ہوتی ہے۔ شخصیت پرستی کی بنیاد اگر نفرت، تعصب اور منفی بنیادوں پر یا شدت پسندی سمیت جنونیت پر ہوگی تو اس سے قومی سیاست کے اندر اور زیادہ مسائل گہرے ہو جائیں گے۔
بنیادی طور پر پاکستان میں شخصیت پرستی کو کمزور کرنے کے حوالے سے اہل دانش کی سطح پر بھی کوئی بڑا کام نہیں ہو سکا۔کیونکہ جو کام اہل دانش نے اپنی سطح پر انفرادی اجتماعی سطح پہ کرنا تھا، اس کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی جا سکی۔سیاسی جماعتوں میں اپنے سیاسی مخالفین کو دشمن بنا کر پیش کرنے کا رواج بتدریج بڑھ رہا ہے۔
یہ خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہم قومی سیاست کی ترتیب میں منفی پہلوؤں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔جب کہ مثبت پہلو ہماری قومی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکے۔شخصیت پرستی سے نمٹنے کے لیے ہمیں اہل دانش کی سطح پر یا علمی اور فکری بنیادوں پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔مگر یہ کام کسی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں،اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے اندر تمام طبقات مل جل کر انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایسا لائحہ عمل مرتب کریں کہ وہ لوگوں کے سیاسی اور سماجی شعور کو آگے بڑھائیں۔
شخصیت پرستی کا یہ کھیل پاکستان کی قومی سیاست کے اندر ایک بانج پن کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔جس سے نئی قیادت کا ابھرنا اور نئی جدید سیاسی تصورات کا ابھرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ یہ صدی افراد کے مقابلے میں ادارہ سازی کی صدی ہے، اس لیے ہمیں شخصیت پرستی کے بجائے ادارہ سازی پر توجہ دینی ہوگی۔ شخصیت پرستی کا ایک المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ سچ اور جھوٹ کی تمیز کو ختم کر دیتا ہے۔
لوگوں میں اندھی تقلید کو فروغ دیتا ہے۔جو معاشرے کو تنگ نظری کی طرف لے کر جاتا ہے۔ہمارے تعلیمی سماجی اور علمی اور فکری نظام کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ اس نے شخصیت پرستی کے معاملے میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے۔اس شخصیت پرستی نے ہمارے سیاسی سماجی معاشی اور انتظامی ڈھانچوں کو کھوکھلا بھی کر دیا ہے۔
لیکن اس کا علاج ہماری ترجیحات کا حصہ نظر نہیں آرہی۔اس لیے اس پر زیادہ غور ہونا چاہیے کہ ہم شخصیت پرستی کے کھیل میں کیسے خود کو باہر نکال سکتے ہیں اور کیسے ادارہ سازی کی طرف توجہ دے سکتے ہیں۔کیونکہ جب ادارے بالادست ہوں گے تبھی ریاست کی جدیدیت کا پہلو سامنیآئے گا اور ہم عالمی دنیا میں بھی اپنی ساکھ کو قائم کر سکیں گے۔
جہاں افراد کے مقابلے میں ادارے بالادست نہیں ہوں گے تو وہاں لوگوں پر بھروسہ زیادہ ہوگا اور لوگ اداروں کے مقابلے میں افراد پر انحصار کریں گے۔جب کہ آئین اور قانون کی پاسداری کا براہ راست تعلق افراد سے زیادہ ادارہ سازی کی مضبوطی اور شفافیت سے جڑا ہوا ہے۔یہ کام سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں ہوگا، اس میں ہم سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔
اس میں اصل کام علمی اور فکری بنیادوں پر ہونا چاہیے اور خاص طور پہ ہمارا تعلیمی نظام اس میں بنیادی تبدیلیاں درکار ہے۔نئی نسل پرانے خیالات کو چیلنج کر رہی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ شخصیت پرستی کے اس کھیل نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔یہی وجہ ہے کہ نئی نسل اور پرانی نسل کے درمیان ایک ٹکراؤ کا ماحول بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔نئی نسل مسائل کا حل چاہتی ہے اور ریاست سے سوال اٹھا رہی ہے۔ ریاست کو ان سوالوں کا جواب دینا ہے۔
شخصیت پرستی کے اس کھیل نے سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام کو بھی کمزور کر کے رکھ دیا ہے۔سیاسی جماعتیں بظاہر سیاسی جماعتیں کم اور نجی ملکیتی کمپنیاں زیادہ لگتی ہے۔ ان جماعتوں میں جو بھی شخصیت پرستی کو چیلنج کرتا ہے یا قیادت کو چیلنج کرتا ہے تو ان کے لیے راستے محدود کر دیے جاتے ہیں۔شخصیت پرستی کا کھیل سیاسی جماعتوں میں موجود لوگوں کو پیغام دیتا ہے کہ وہ قیادت کی تابعداری کریں۔اور جو اس کے حکم کو ماننے سے انکار کر دے وہ متبادل راستہ اختیار کرے۔یہ عمل سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کے مقابلے میں آمرانہ رجحان اور ڈکٹیٹر شپ کو فروغ دیتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے مقابلے میں ا سیاسی جماعتوں کے اندر کرتا ہے
پڑھیں:
معاشی چیلنجز اور سیاسی پیچیدگیاں
اس کالم کو لکھتے ہوئے ایک اہم خبر سامنے آئی کہ سابق آئی ایس آئی چیف فیض حمید کو چودہ سال قید با مشقت کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ اب وہ جنرل کا اعزاز اپنے کاندھوں پر سجانے کے مستحق نہیں رہے۔
یہ حقیقت ہے کہ قصور وارکوئی ایک نہیں ہوتا اور اس تصویرکا دوسرا رخ کیا ہے؟ وہ بھی عیاں ہونا چاہیے۔ ان چہروں کو بھی کٹہرے میں ضرورکھڑا ہونا چاہیے۔ فیض حمید کو سزا پی ٹی آئی سے وابستہ لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہوگی مگر یہاں سوال پھر یہی ہے کہ آخر نو مئی کے واقعے کا ذمے دار اور ماسٹر مائنڈ کون تھا؟
میرے آرکائیو فولڈر میں میرے تمام کالم موجود ہیں۔ ہم عمران خان کی حکومت کے دور میں بھی ایسی ہی باتیں کرتے تھے اور اس کا عتاب بھی بھگت چکے ہیں ، اس دور میں جو چند چینل ہمیں تجزیہ نگاری کے لیے مدعو کرتے تھے، انھوں نے ہمارے لیے اپنے دروازے بند کردیے۔
ایک اور اہم خبر اخبارات کی زینت بنی کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت کے حوالے سے ایک رپورٹ شایع کی ہے جس میں پاکستان کی معیشت کو قدرے مستحکم قرار دیا ہے اور یہ بھی کہ پاکستان مستحکم stability سے ایک قدم آگے جا کر ’’بڑھتی ہوئی معیشت‘‘ ( growing)بن کر ابھر رہا ہے۔
بیرونی مجموعی قرضہ جات میں آیندہ سال ایک فیصد تک کمی ہونے کا امکان ہے۔ افراطِ زر بڑھے گی ضرور لیکن رہے گی سنگل ڈجٹ۔ یعنی ایسا پہلی مرتبہ ہوگا کہ آٹھ سالوں کے بعد پاکستان کی شرح نمو پانچ فیصد تک پہنچنے والی ہے جوکہ اوسطاً پوری ایشیاء میں قائم ہے۔
خان صاحب کے دورِ حکومت کا اگر ہم جائزہ لیں تو ان کی حکومت ایک ہائبرڈ حکومت تھی، ایک ٹرائیکا تھا، خان صاحب کے ساتھ جو چل رہا تھا، دو بڑے چہرے فیض حمید اور جنرل قمر جاوید باجوہ بھی تھے اور جو معیشت کا حال تھا اور جس طرح سے ملک چل رہا تھا وہ ہمارے سامنے ہے۔
امریکا میں بسنے والے پاکستانی نژاد، ماہرِ معاشیات میاں عاطف نے پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ایک تجویز دی ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان کو معاشی سطح پر مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ انھوں نے اشرافیہ کو معیشت کی خرابی کا ذمے دار ٹھہرایا ہے۔
ان کا یہ تجزیہ ہے کہ پاکستان کو پچاس سال تک پانچ فیصد شرح نموکی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ان تجاویز پر عمل درآمد کرنا یا کرانا حقیقتاً مشکل ہے۔ اشرافیہ ہر حکومت کا حصہ بن جاتی ہے ، یہاں بڑے بڑے بزنس ٹائیکونز،کمپنیاں، اسلحے کے کاروباری، منشیات کے کاروبار سے وابستہ ، اسمگلنگ اور ان کو سہولیات فراہم کرنے والے اور ان کی نمایندگی کرنے والے افراد اور گروہ اقتداری ایوانوں تک اثر رسوخ رکھتے ہیں۔
اس اشرافیہ کا ایک حصہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہے اور دوسرا دھڑا پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے تو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر ان کی بات نہ مانی گئی تو وہ نو مئی جیسے ایک اور واقعے کے لیے بھی تیار ہیں، وہ دھڑا جو افغان جہاد کی پیداوار ہے، وہ ملک میں اس وقت خانہ جنگی چاہتا ہے۔
ہر ملک کی معیشت کے پیچھے ایک مخصوص سوچ اور بیانیہ ہوتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے اس بیانیے کو اس ملک کی بنیادوں میں پیوست کیا۔ جنرل ضیاء نے انتہا پرست سوچ رکھنے والوں کو اسی اشرافیہ کی کلب میں شامل کیا، اس طرح سے جناح کی گیارہ اگست کی سیکیولر پالیسی کا خاتمہ کیا گیا۔
ہمارا سیکیولر ہونا، ہماری معیشت اور مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے ضروری ہے۔ یہ سب ہمارے آئین میں موجود تھا مگر ہماری عدالتیں آئین کی صحیح تشریح کرنے سے کتراتی رہیں اور نظریہ ضرورت ان کے لیے ایک پناہ گاہ تھی۔
ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں ہماری معیشت کہاں تھی، افغان جہاد شروع ہونے کے بعد جب ملک میں Non-Documented معیشت نے اپنی جڑیں بنانا شروع کیں، تمام شرفاء کو ٹیکس میںسہولیات ملیں، ہم نے انسانی وسائل میں ترقی نہیں کی۔
ہمارے سالانہ بجٹ میں غربت کے خاتمے کے لیے، انسانی حقوق اور ترقی کے لیے، جتنے پیسے مختص کیے جاتے ہیں وہ خود اس بات کاثبوت ہے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں۔دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں ہمارے حق میں بہتر ثابت ہوئی ہیں۔بانی پی ٹی آئی کے دور میں پھیلی ہوئی معاشی تباہی اگر صحیح ستونوں پرکھڑی نہ ہو سکی تو ہم بکھرکر رہ جائیں گے۔
ہماری بیروزگاری کی شرح 7.1% پر پہنچ چکی ہے اور بیروزگاری کی یہ شرح گزشتہ بیس سالوں میں اس وقت اوپری سطح پر ہے۔ ہماری کل آبادی کے پینتالیس فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جو انتہائی تشویشناک ہے۔
ہماری اسٹاک ایکسچینج مارکیٹ، ایشیاء کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مارکیٹ ہے لیکن یہ معیشت کے صحت مند ہونے کا پیرامیٹر نہیں ہے۔ لوگ دیہاتوں سے ہجرت کر رہے ہیں، شہروں کی طرف آ رہے ہیں ان ہجرتوں کے اثرات منفی بھی ہیں اور مثبت بھی۔
منفی اس لیے کہ گاؤں اور دیہاتوں میں زندگی کی بنیادی ضروریات میسر نہیں۔ نہ اسکول، نہ اسپتال، نہ صاف پینے کا پانی وغیرہ۔2022 کا ڈیٹا یہ معلومات دیتا ہے کہ اس وقت ملک کی 39% آبادی پینے کے شفاف پانی سے محروم تھی اور آج 45% آبادی صاف پانی کی بنیادی ضرورت سے محروم ہے جو کہ انتہا ئی تشویشناک ہے۔
ہم نے ہمیشہ معیشت کی منصفانہ تقسیم سے اجتناب برتا، بلکہ ایک مخصوص اشرافیہ کو ساتھ لے کر چلے۔ آزادی کے بعد فاٹا کو صرف چند سالوں تک ہی رہنا چاہیے تھا مگر کسی میں بھی اتنی سیاسی جرات نہ تھی کہ فاٹا کے ختم کر کے مستقل طور پر خیبر پختونخوا میں ضم کرتے اور جب ایسا کیا تو افغان جنگ ہماری دہلیز تک پہنچ چکی تھی۔
چلیں دیر ہی سہی مگر دیر آید درست آید۔ سندھ کے دیہات پیروں اور وڈیروں کے زیرِ اثر ہیں وہاں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ سندھ کے کسی حلقے constituency میں مڈل کلاس بیانیہ یا نظریہ موجود نہیں، وہاں کی تمام نشستیں غلامی کا عکس ہیں اور یہ صورتحال وقت کے ساتھ مزید بگڑ رہی ہے۔
سندھ میں مڈل کلاس سیاست نے اب جگہ لی ہے۔ بلوچستان میں ہم نے سرداری نظام کو چلنے دیا اور وہ ریاست کے اتحادی تھے، جس کے نتائج وہاں یہ نکلے کہ ابھرتی مڈل کلاس سیاست، ریاست ہی کے خلاف ہو گئی۔
معیشت کی مضبوطی ا س میں ہے کہ پیداواری حصوں کو آگے لایا جائے اس بات کی اب اشد ضرورت ہے، وہ بیانیہ جو خواتین کو معیشت کی پیداواری اور مضبوطی میں حصہ لینے سے روکے اس بیانیے کی حوصلہ شکنی کی جائے کیونکہ ایسے تمام بیانیہ، نظریات اور روایات کی ہمارے آئین میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
یہ نظریات اور روایات آئین کے اندر موجود بنیادی حقوق کے خلاف ہیں۔حقوقِ نسواں اور خواتین کی فلاح و بہبود کے جو پیمانے دنیا میں مروج ہیں ہم ان میں آخری نمبر پرکھڑے ہیں۔ دنیا میں انصاف فراہم کرنے کے جو مروج پیمانے ہیں وہ ہمیں صحت مند قوم اور ریاست نہیں سمجھتے۔
پاکستان کو بہ حیثیت ریاست اب ایک بات سمجھ میں آ رہی ہے کہ ریاست کو محض نظریات سے نہیں چلایا جا سکتا۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو یہ رپورٹ دی ہے کہ پچھلے سال پاکستان میں5300 ارب روپے کی خوردبرد ہوئی ہے جو کہ لگ بھگ بیس ارب ڈالرکے برابر ہے۔
ہماری کل وصولیات چالیس فیصد کرپشن میں چلا جاتا ہے جو ایک تشویشناک بات ہے، مگر Transparency International نے ہی رپورٹ دی ہے کہ پچھلے سال کی بہ نسبت پاکستان میں کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے۔
فیض حمید کا کورٹ مارشل اور سزا ، اپنے اختیارات سے تجاوز اورغلط استعمال کی بنیاد پر دی گئی۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار اداروں نے جرات کا مظاہرہ کیا اور خود ادارے نے احتساب کیا۔
یہاں سے اس روایت کا آغاز ہونا چاہیے اور یہ روایت تمام اداروں تک جانی چاہیے۔کیسے بلڈرز مافیا اور ٹھیکیداروں سے گٹھ جوڑ بنا کر اس ملک کی معیشت کو تباہ کیا گیا ہے۔
کرپشن اور اقرباء پروری کی داستان بہت طویل ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان ترقی کرسکتا ہے، مگر اس کے لیے ایک مستحکم معیشت کی ضرورت ہے اور ایک مضبوط و مستحکم معیشت کے پیچھے ریاست، معاشرہ، بھرپور سیاست ، انصاف کی فراہمی اور جمہوری رواداری کا بیانیہ جس کو مزید بہترکرنے کی اشد ضرورت ہے۔