کراچی یہ شہر جو کبھی خوابوں کی تعبیر تھا، آج اپنی گلیوں سڑکوں اور عوام کی حالت زار پر نوحہ کناں ہے۔ یہ وہی کراچی ہے جسے کبھی روشنیوں کا شہرکہا جاتا تھا۔ ایک ایسا شہر جہاں زندگی کے ہر رنگ کی جھلک ملتی تھی، ہر چہرے پر مسکراہٹ تھی اور ہر قدم پر امید کا چراغ جلتا تھا۔ یہ شہرکسی ماں کی طرح تھا جو اپنے دامن میں سب کو جگہ دیتا تھا، سب کو گلے لگاتا تھا، لیکن آج یہی ماں تھکی ہوئی اور زخمی نظر آتی ہے جیسے برسوں سے اپنے بچوں کی بے توجہی کا شکار ہو۔
کبھی کراچی کی سڑکیں ہوا کرتی تھیں، سیدھی صاف اور ہموار جیسے کسی خواب کا راستہ ہو۔ دن رات وہاں گاڑیاں چلتی تھیں اور لوگ اپنی منزل تک پہنچنے میں کوئی پریشانی محسوس نہیں کرتے تھے۔ ٹرام ہوا کرتی تھی جو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک لوگوں کو سفرکی سہولت دیتی تھی۔ آج بھی جب استنبول کی استقلال اسٹریٹ پر چلتی ہوئی ٹرام کو دیکھتے ہیں تو کراچی کے علاقے صدرکی یاد تازہ ہو جاتی ہے جہاں کبھی ٹرام عوام کی زندگی کا حصہ ہوا کرتی تھی۔ یہ سوچ دل کو دکھ دیتی ہے کہ ہم بھی اس تاریخی ٹرام کو ایک سیاحتی کشش میں بدل سکتے تھے لیکن ہم نے اپنی اس میراث کو کھو دیا۔
کراچی کی لوکل ٹرین ایک ایسی مثال تھی، جس پر پوری دنیا رشک کرتی تھی، مگر آج ان سب کا کوئی نشان باقی نہیں۔ ٹرام کی گھنٹیوں کی آوازیں اور ریل کی سیٹیاں تاریخ کے ورق میں دفن ہو چکی ہیں۔ عوام کے لیے اب سفر ایک عذاب بن گیا ہے۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں جیسے کسی پرانی کتاب کے پھٹے ہوئے ورق ہوں۔گلیوں میں دھول اڑتی ہے اور ٹریفک کے ہجوم میں انسان اپنی منزل کھودیتا ہے۔
کراچی کا ذکر آتے ہی وہ گلیاں یاد آتی ہیں جہاں ہر رات عید جیسی لگتی تھی، ہر بازار جگمگاتا تھا، ہر دکان روشنیوں میں نہائی ہوتی تھی، مگر آج ان روشنیوں کی جگہ اندھیروں نے لے لی ہے۔ کچرے کے ڈھیرگندی نالیاں اور بدبو یہ بتاتے ہیں کہ یہ شہر اپنے وجود کی بقا کے لیے جنگ لڑ رہا ہے۔ کبھی جو شہر امن کا گہوارہ تھا، آج خوف کی علامت بن گیا ہے۔
دنیا کے دوسرے شہروں پر نظر ڈالیں تو افسوس مزید بڑھ جاتا ہے۔ ترکی کا شہر استنبول دیکھ لیجیے جہاں حکومت نے نہ صرف اس کے تاریخی ورثے کو محفوظ کیا بلکہ جدیدیت اور سہولتوں کو بھی ساتھ لے کر چلی۔ استقلال اسٹریٹ پر چلتی ہوئی ٹرام آج دنیا بھرکے سیاحوں کے لیے کشش کا مرکز ہے، مگرکراچی کا صدر جہاں کبھی ٹرام کی گھنٹیاں گونجتی تھیں آج بدحالی کی تصویر بنا ہوا ہے۔
دبئی کی مثال لیجیے جو کبھی ایک چھوٹا سا صحرا تھا، آج دنیا کے سب سے پرکشش شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ دبئی کی حکومت نے وسائل کا بہترین استعمال کیا ،جدیدیت کو اپنایا اور اپنے شہریوں کی سہولت کے لیے بے مثال اقدامات کیے۔ دبئی کی سڑکیں عمارتیں اور پبلک ٹرانسپورٹ دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔
آذربائیجان کے شہر باکو پر نظر ڈالیں تو یہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک ایسا ملک جو ترقی پذیر ہے، کیسے اپنے دارالحکومت کو ترقی کی بلندیوں پر لے گیا۔ باکو کی گلیاں اور سڑکیں نہ صرف صاف ستھری ہیں بلکہ جدید انفرا اسٹرکچر اور تاریخی عمارتوں کی حفاظت نے اسے ایک پرکشش شہر بنا دیا ہے۔ یہاں کے حکمران جانتے ہیں کہ تاریخی ورثے اور جدید ترقی کے امتزاج سے شہروں کو زندہ رکھا جا سکتا ہے۔
کراچی جو ماں کی طرح سب کا سہارا تھا، آج اپنے بچوں کے لیے خود ایک بوجھ بن گیا ہے، لیکن یہ شہر ہمارے لیے آج بھی امیدکا چراغ ہے۔ یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اس ماں کی حالت بہتر بنائیں۔ اربابِ اختیارکو چاہیے کہ وہ دنیا کے ان شہروں سے سبق سیکھیں اورکراچی کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کریں۔
کراچی صرف ایک شہر نہیں تھا، یہ ایک تہذیب تھی، ایک روایت تھی ایک کہانی تھی جو محبت مہمان نوازی اور ثقافت سے بھری ہوئی تھی۔ یہاں کی ہوائیں خوشبوؤں کا پیغام لاتی تھیں، یہاں کے لوگ محبت کے دیپ جلاتے تھے، مگر آج یہ سب ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔
یہ شہر جو ماں جیسا تھا آج ہم سے فریاد کر رہا ہے۔ آئیے ! اس کی فریاد سنیں اور اسے وہ محبت وہ احترام دیں جس کا یہ ہمیشہ سے حق دار رہا ہے۔ آئے اس خواب کو دوبارہ زندہ کریں، کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنائیں۔ اس شہر کو ہماری توجہ اور محبت کی ضرورت ہے، یہ ہمارا گھر ہے، اس کو آباد رکھنا اور اس کا خیال کرنا ہم پہ لازم ہے۔
ہم جب دنیا کے دوسرے شہر دیکھ کر رشک کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں تو ہم اپنے شہر کو کیوں ویسا نہیں بنا سکتے۔ اس کے لیے ضرورت احساس اور ذمے داری کی ہے۔ یہ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کی بھی ذمے داری ہے کہ اس طرف توجہ دیں۔
کراچی کا زوال اس بات کا غماز ہے کہ ہم نے اس شہرکو جس قدر لاپرواہی سے نظر اندازکیا، اس کا تذکرہ صرف افسوس کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ کراچی کے اندر بے شمار مسائل ہیں لیکن ان کا حل ایک مربوط حکمت عملی اور اجتماعی کوششوں کے ذریعے ممکن ہے۔ دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ شہروں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
استنبول کی تاریخی گلیوں اور دبئی کے جدید انفرا اسٹرکچر نے دنیا بھر میں اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اگر حکومتی سطح پر فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں تو ایک شہرکو دوبارہ عروج پر پہنچایا جا سکتا ہے۔ ہمیں ان شہروں سے سبق سیکھ کرکراچی کے لیے ایک ایسا ماڈل تیارکرنا ہوگا جس میں تاریخی ورثے کی حفاظت کے ساتھ ساتھ جدید ترقی کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ یہ شہر ہماری توجہ خلوص اور پیارکا منتظر ہے۔
ہمیں اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ کراچی صرف ایک شہر نہیں بلکہ ہماری ثقافت تاریخ اور ہماری پہچان ہے۔ اس کی ترقی کے لیے ہم سب کو اپنی ذمے داری ادا کرنی ہوگی۔ وہ وقت جلد آئے جب کراچی کی گلیوں میں لوگ اپنے آپ کو محفوظ محسوس کریں۔ عام شہری کی زندگی خوش حال ہو اور یہ شہر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ روشنیوں کا شہر بن جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرتی تھی کراچی کے دنیا کے کے ساتھ یہ شہر کے لیے کا شہر
پڑھیں:
خاموش بہار ۔وہ کتاب جوزمین کے دکھوں کی آواز بن گئی
ڈاکٹر جمشید نظر
دنیا بھر میں ہر سال 22اپریل کومدر ارتھ ڈے ” عالمی یوم ارض”منایا جاتا ہے جس کا مقصدزمین پر رہنے والے انسانوں کو زمین کے مسائل اور مشکلات سے متعلق آگاہ کرنا اوراس بات کا شعور پیدا کرنا ہے کہ انسانوں سمیت دیگر جانداروں کے رہنے کے قابل واحد سیارے ”زمین ”کوہر طرح کی آفات اور آلودگی سے محفوظ رکھنے کے لئے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ زمین کا عالمی دن منانے کا آغاز سن1970 میں امریکہ سے ہواتھا جس میں20ملین لوگوں نے حصہ لیا تھا۔موجودہ سال اس عالمی دن کا موضوع ہے (OUR POWER, OUR PLANET) یعنی ہر جاندار کی سب سے بڑی طاقت اور قوت کرہ ارض ہے کیونکہ زمین سے ہی ہم اپنی خوراک ،پانی اور زندہ رہنے کے لئے بنیادی اشیاء حاصل کرتے ہیں۔
دنیا میںزمین کا عالمی دن منانے کا رحجان ایک بڑے دلچسپ واقعہ سے ہواتھاجس کے متعلق بہت کم لوگ جانتے ہیں۔امریکہ کی نامور مصنفہ ”ریچل کارسن”27مئی1907میں پنسلوانیا میں پیدا ہوئی تھی اُس نے اپنی زندگی میں بہت سے موضوعات پر شمار کتابیں لکھیں لیکن زیادہ تر کتابیں سمندری حیاتیات اورماحولیات کے موضوع پر تھیں۔ریچل کارسن کی ایک کتاب سائلنٹ اسپرنگ ”خاموش بہار”کے نام سے سن1962 میں شائع ہوئی تو اس کتاب کے منفرد ،حیرت انگیز تحریری مواد اور انکشافات نے دنیا میں یکدم ہلچل مچادی۔سائلنٹ سپرنگ کتاب میں زمین پر زندگی کو ختم کرنے والی اُن آلودگیوں کے بارے میںانکشاف کیا گیا تھا جوخودانسان کی پیدا کردہ تھیںحالانکہ اُن دنوں انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا بھی نہیں ہوتا تھا کہ ریچل کی تحقیق تیزی سے دنیا میں پھیل جاتی لیکن اس کے باوجودحیرت انگیز طور پرد ریچل کی کتاب ”خاموش بہار”اس قدر تیزی سے مشہور ہوئی کہ دنیا کے 24 ممالک میں اس کی 5لاکھ سے زائد کاپیاں دھڑا دھڑا فروخت ہوگئیں۔اس زمانے میں اتنی بڑی تعداد میںکسی کتاب کا فروخت ہونا ایک بہت بڑا ریکارڈ تھا۔ کتاب کی مقبولیت پر ریچل کوآٹھ مشہور ایوارڈز بھی دیئے گئے۔اسی لئے ریچل کی کتاب”سائلنٹ اسپرنگ” آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں سے ایک کتاب سمجھی جاتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد زراعت میںکیڑے مار ادویات کا اندھادھند استعمال کیا جانے لگا تھا جس سے جنگ عظیم کے بعد زندہ بچ جانے والوں انسانوں کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق تھا، ریچل نے اپنی کتاب میں ان خطرات کا ذکر کرتے ہوئے زرعی سائنسدانوں کے طریقوں کو چیلنج کرتے ہوئے قدرتی نظام میں انسان کے بدلتے تصورات کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیاتھا۔اس نے اپنی کتاب کے ذریعے ایک ایسی ماحولیاتی تحریک کو جنم دے دیا تھا جس کی وجہ سے انسانی زندگی میں سائنس کے مقام کی بنیادی تبدیلی کی گئی۔
ریچل کی کتاب کے شائع ہونے پربڑی بڑی کیمیکل کمپنیوں ،اُن کے تجارتی اتحادیوں اور کچھ سرکاری عہدیدارو ںنے ریچل کی تحقیق کو بدنام کرنے اوراس کے کردارکو داغدار کرنے کے لئے تقریبا دو لاکھ پچاس ہزار ڈالرتک خرچ کرڈالے اور یہ افواہ پھیلا دی کہ ریچل ایک گھبرائی ہوئی جذباتی بوڑھی عورت ہے جو بلیوں کی دیکھ بھال کرتی ہے اور جنیات کی سائنس سے پریشان ہے۔ریچل کی کردار کشی کے باوجود اس کی ماحولیاتی تحریک کو دبایا نہ جاسکا۔ کتاب شائع ہونے کے ایک سال بعد سن1963میںریچل نے امریکی کانگریس سے انسانی صحت اور ماحولیات کے تحفظ کے لئے نئی پالیسیاں بنانے کامطالبہ کرتے ہوئے دنیا پرواضح کردیا کہ ماحولیاتی نظام شدید خطرے میں ہے۔اس سے قبل کے امریکی کانگریس ریچل کے مطالبہ پر کوئی ردعمل ظاہر کرتی ریچل سن1964 میں چھاتی کی کینسر کے باعث انتقال کرگئی لیکن اس کی ماحولیاتی تحریک زندہ رہی اور آخرکار ریچل کی تحریک کو عملی جامہ پہناتے ہوئے امریکی سینیٹر گیلارڈ نیلسن نے 22اپریل سن1970کو امریکہ میں تقریباََ 20لاکھ لوگوں،دو ہزارکالجزاوریونیورسٹی،10ہزار گرائمر اورہائی سکول اورایک ہزارکمیونیٹیز کو ماحولیاتی مسائل اور انسان کی وجہ سے ماحول کو درپیش خطرات کی نشاندہی اور تدارک کیلئے اکٹھاکیا اورپہلی مرتبہ ارتھ ڈے منایا۔سن 1995میں سینیٹر گیلارڈ نیلسن کو یومِ ارض تحریک کے بانی کے طور پرامریکہ کے سب سے بڑے سول ایوارڈ سے نوازا گیا۔سن2009 میں اقوامِ متحدہ نے 22اپریل کو” Mother Earth Day ”کے نام سے منسوب کردیا جس کے بعداب ہر سال 22اپریل کو یہ دن دنیا کے 193ممالک میں باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔