جوزف عون اور لبنان میں طاقت کی نئی مساوات
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
اسلام ٹائمز: نئے لبنانی صدر کی حزب اللہ لبنان سے متعلق پالیسی کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ امریکہ سمیت دیگر بیرونی قوتوں سے ان کا کیا سمجھوتہ طے پاتا ہے۔ جوزف عون بخوبی جانتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان کو محدود کرنے سے انہیں اندرونی سطح پر متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شام کے حالات بھی لبنان کی سیاسی صورتحال پر موثر ہیں۔ اگر ماضی میں صدر بشار اسد حکومت مشکل حالات میں حزب اللہ لبنان کی مدد کرتی تھی تو اب نئی صورتحال جنم لے چکی ہے اور حزب اللہ لبنان کو شام کی حمایت کے بغیر اپنا دفاع کرنا پڑے گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے لبنان میں جو چیز اہم ہے وہ حزب اللہ لبنان کی پوزیشن، کردار اور سیاسی اثرورسوخ کو مضبوط بنانے نیز اسے مسلح باقی رکھنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ تحریر: مصطفی نجفی
لبنان میں صدارتی الیکشن کے نتیجے میں جوزف عون اس ملک کے نئے صدر کے طور پر چنے گئے ہیں۔ اس کے بارے میں مختلف نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر حزب اللہ لبنان اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں بہت سے ابہامات اور سوالات موجود ہیں۔ لبنان کا نیا صدر لبنان کی اندرونی سیاسی طاقتوں یا بیرونی سیاسی طاقتوں کے درمیان کس قسم کے معاہدے کے تحت چنے گئے ہیں؟ جوزف عون کے انتخاب کے بعد کیا حزب اللہ لبنان پر دباو بڑھ جائے گا یا یہ تنظیم ماضی کی طرح بدستور فعال کردار ادا کرتی رہے گی؟ جوزف عوان کے ایران اور دیگر علاقائی ممالک سے تعلقات کس قسم کے ہوں گے؟ جو چیز واضح طور پر دکھائی دیتی ہے یہ ہے کہ جوزف عون کا انتخاب لبنان کے اندرونی سیاسی حلقوں کے درمیان معاہدے کا نتیجہ نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جوزف عون کا لبنان کے نئے صدر کے طور پر سامنے آنا بیرونی دباو اور امریکہ، فرانس، سعودی عرب، قطر اور حتی اسرائیل جیسے کھلاڑیوں کے درمیان سازباز کا نتیجہ ہے۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ کی جانب سے لبنان کے نئے صدر کو ایکس پلیٹ فارم پر اپنے پیغام میں مبارکباد پیش کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان جنگ شروع ہو جانے کے بعد امریکہ اور فرانس نے حزب اللہ لبنان کی پوزیشن کمزور کرنے کے لیے وسیع کوششوں کا آغاز کر دیا تھا۔ امریکہ نے جنگ بندی سے پہلے ہی جوزف عوف کو لبنان کا صدر بنانے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لیے لبنان کے اسپیکر نبیہ بری اور حزب اللہ لبنان کی حامی سیاسی جماعتوں پر بھی بہت دباو ڈالا لیکن آخرکار طے یہی ہوا کہ جوزف عون جنگ بندی کے بعد صدر بنے۔
کچھ امید افزا اشاروں کے باوجود یوں محسوس ہوتا ہے کہ جوزف عون کا انتخاب حزب اللہ لبنان کی سیاسی مشکلات میں اضافے کا باعث بنے گا اور لبنان کا نیا صدر، پہلے سے امریکہ اور فرانس سے طے شدہ امور کی روشنی میں درج ذیل اہم اقدامات انجام دینے کی کوشش کرے گا:
1)۔ قرارداد 1701 اور اسرائیل سے جنگ بندی معاہدے کو پوری طرح لاگو کرے گا اور حزب اللہ لبنان کو مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں سے دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ درحقیقت، وہ بیرونی قوتیں جنہوں نے لبنان کے آرمی چیف جوزف عون کو صدر بننے میں معاونت فراہم کی ہے ان سے یہ توقع رکھتی ہیں کہ وہ جنگ بندی معاہدے کو سو فیصد لاگو کریں اور حزب اللہ لبنان کو مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں کی جانب واپس آنے سے روکیں۔
یاد رہے جوزف عون نے لبنان کا آرمی چیف ہونے کے ناطے لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ معاہدہ طے پانے میں اہم اور مرکزی کردار ادا کیا تھا اور اب وہ صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد بھی اس معاہدے کی مکمل پاسداری کرنے کے درپے ہیں۔
2)۔ اسی طرح نئے لبنانی صدر جوزف عوف، لبنان آرمی کو بھی مزید مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے جس کا نتیجہ امریکہ، فرانس اور سعودی عرب پر لبنان آرمی کے انحصار میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ اسی طرح وہ جہاں تک ممکن ہوا حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ جوزف عون نے صدر بننے کے بعد لبنان پارلیمنٹ سے تقریر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ لبنان میں صرف آرمی کے پاس ہتھیار ہونے چاہئیں۔
3)۔ دوسری طرف یوں دکھائی دیتا ہے کہ جوزف عون کے انتخاب کے بعد لبنان کے سیاسی میدان میں نئی مساواتیں حکمفرما ہو جائیں گی اور اندرونی قوتیں، بیرونی قوتوں کی حمایت سے حزب اللہ لبنان کے سیاسی اثرورسوخ کو کم کرنے کی کوشش کریں گی۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو لبنان حال ہی میں ایک تباہ کن جنگ سے باہر نکلا ہے اور اب صدر کے انتخاب کے بعد سیاسی بند گلی سے بھی باہر آ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوزف عون لبنان کے اندرونی چیلنجز نیز بیرونی خطرات جیسے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور بیرونی مداخلت کے باعث مشکل حالات سے روبرو ہوں گے۔ اگرچہ جوزف عون حزب اللہ لبنان اور دیگر شیعہ قوتوں کے لیے مطلوبہ انتخاب نہیں تھا لیکن انہوں نے کچھ ایسے تحفظات کی بنیاد پر جو ماضی میں نہیں تھے، پارلیمنٹ میں انہیں ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔
نئے لبنانی صدر کی حزب اللہ لبنان سے متعلق پالیسی کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ امریکہ سمیت دیگر بیرونی قوتوں سے ان کا کیا سمجھوتہ طے پاتا ہے۔ جوزف عون بخوبی جانتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان کو محدود کرنے سے انہیں اندرونی سطح پر متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شام کے حالات بھی لبنان کی سیاسی صورتحال پر موثر ہیں۔ اگر ماضی میں صدر بشار اسد حکومت مشکل حالات میں حزب اللہ لبنان کی مدد کرتی تھی تو اب نئی صورتحال جنم لے چکی ہے اور حزب اللہ لبنان کو شام کی حمایت کے بغیر اپنا دفاع کرنا پڑے گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے لبنان میں جو چیز اہم ہے وہ حزب اللہ لبنان کی پوزیشن، کردار اور سیاسی اثرورسوخ کو مضبوط بنانے نیز اسے مسلح باقی رکھنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حزب اللہ لبنان کی ہے کہ جوزف عون لبنان اور کے درمیان لبنان کے لبنان کا کی کوشش اور اس ہیں کہ کے لیے اس بات صدر کے کے بعد
پڑھیں:
آغا راحت نے پورے گلگت بلتستان کے عوام کی ترجمانی کی ہے، عطاء اللہ
سینئر رہنماء پاکستان پیپلزپارٹی گلگت بلتستان و امیدوار گلگت بلتستان اسمبلی حلقہ 2 چلاس نے ایک بیان میں کہا کہ سیکریٹری ثناء اللہ نے گلگت بلتستان کے ہر محکمے میں جہاں انکی پوسٹنگ ہوئی ہیں تباہی کے دانے پر پہنچا دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سینئر رہنماء پاکستان پیپلزپارٹی گلگت بلتستان و امیدوار گلگت بلتستان اسمبلی حلقہ 2 چلاس عطاء اللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آغا راحت الحسینی کے گزشتہ جمعہ کے بیان پر صوبائی وزیر زراعت انجینئر محمد انور کے ردعمل پر حیرانگی ہوئی ہے، صوبائی وزیر موصوف نے ہمیشہ ایک کرپٹ اقرباء پرور تعصبی سیکریٹری کی پشت پناہی کی ہے، سیکریٹری ثناء اللہ نے گلگت بلتستان کے ہر محکمے میں جہاں انکی پوسٹنگ ہوئی ہیں تباہی کے دانے پر پہنچا دیا ہے۔ حاجی ثناء اللہ جب سیکریٹری تعلیم تھے تو محکمہ تعلیم میں غیر قانونی اور جعلی سرٹیفکیٹس پر بھرتیوں کی بھرمار کر کے نظام تعلیم کو مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا، خاص طور پر ضلع دیامر میں تعلیمی نظام انکی وجہ سے برباد ہوا جس کی واضح مثال ایلیمنٹری بورڈ کا رزلٹ ہے اور جب محکمہ صحت میں سیکریٹری تعینات ہوئے تو اربوں کی مشینری کی خرید و فروخت میں کرپشن کا بازار گرم کر دیا، ابھی سیکرٹری برقیات ہیں تو خالی کاغذی اسسٹیمینٹس کی ایڈمن اپروول دے کر کروڑوں روپے کی کرپشن میں مصروف عمل ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سیکریٹری ثناء اللہ نے اپنے ساتھ مختلف ڈیلینگ کیلئے اپنے چھوٹے بھائی جو سرکاری ملازم بھی ہے ان کے ساتھ اپنے رشتہ داروں پر مشتمل ایک مخصوص ٹیم بنا رکھی ہے جو مختلف ٹھیکیداروں سے ٹھیکوں کی مد میں اور آفیسروں سے پوسٹنگ ٹرانسفری کی ڈیل کر کے گارنٹی پہ غیر قانونی کام کروانے کے ساتھ پیسے بھی بٹور رہے ہیں، ان کی دو نمبری سے گلگت بلتستان واقف ہے، صوبائی وزیر اور سیکریٹری ثناء اللہ کے خاندان نے ہمیشہ فرقہ واریت اور لسانیت کی سوچ کو فروغ دے کر پورے گلگت بلتستان کو اپنے نرغے میں رکھنے کی کوشش کی ہے، ان کی باتوں سے دیامر کے عوام کو کوئی سروکار نہیں، اب دیامر کے عوام یہ جان چکے ہیں اب یہ مافیا پورے گلگت بلتستان کو نگلنے پر تلا ہوا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ آغا راحت نے جو کچھ کہا ہے ہم اس کی مکمل تائید کرتے ہوئے متعلقہ اداروں سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ سید راحت نے جو باتیں کی ہیں ان پر بلاتفریق مکمل تحقیقات کر کے ملوث سیکریٹری اور وزیر اعلیٰ کو قرار واقعی سزا دی جائے، آغا راحت نے پورے گلگت بلتستان کے مظلوم عوام کی ترجمانی کی ہے جو ان سے ان کے ممبر و محراب کا تقاضا بھی ہے۔