اسلام آباد(نیوز ڈیسک)گھی جو روٹی سے لے کر دالوں اور سبزیوں تک ہر چیز کا ذائقہ بڑھاتا ہے، صحت کو بہت سے فوائد دیتا ہے۔ اس کے باوجود ماہرین صحت کچھ لوگوں کو اس کا زیادہ استعمال کرنے سے منع کرتے ہیں۔

دالوں اور سبزیوں میں دیسی گھی کا استعمال نہ صرف ذائقہ کو بڑھاتا ہے بلکہ صحت کے بہت سے فوائد مہیا کرتا ہے۔ دراصل گھی میں موجود اومیگا تھری فیٹی ایسڈز اور وٹامن اے جیسے بہت سے غذائی اجزا صحت کے لیے بہت فائدہ مند تصور کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھی میں موجود بیوٹیرک ایسیڈ جسم میں ٹی سیلز پیدا کرنے میں مدد کرتے ہیں جوبیماریوں سے لڑتے ہیں۔

صحت کے اتنے فوائد ہونے کے باوجود کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ لوگوں کے لیے گھی کا استعمال مناسب نہیں ہے؟ ورنہ ان کی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ کن لوگوں کو گھی کی زیادہ مقدار کھانے سے گریز کرنا چاہیے۔

جنہیں ہاضمے کا مسئلہ رہتا ہو

اگر آپ بدہضمی اور گیس جیسےمسائل سے پہلے ہی پریشان ہوں تو آپ کو چاہیے کہ گھی کے زیادہ استعمال کی غلطی ہرگز نہ کریں۔ کیونکہ اس کا زیادہ استعمال ہاضمے کے مسائل کو بڑھا سکتا ہے،

دل کا مسئلہ
زیا دہ مقدار میں گھی کا استعمال ان لوگوں کے لیے بھی خطرناک ہوتا ہے جو دل کی تکلیف یا عارضے میں مبتلا ہوں۔ گھی میں موجود فیٹی اسیڈز ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں۔ ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ 10 ملی گرام سے زیادہ گھی کا استعمال نہ کریں۔

اگر وزن کی زیادتی کا شکار ہوں
اگر آپ اپنا وزن کم کرنے کے چکر میں ہوں تو آپ کو غلطی سے بھی گھی کی زیادہ مقدار نہیں لینی چاہیے۔ کیوں کہ گھی کی زیادہ مقدار وزن کو بڑھا سکتی ہے اور فرد موٹاپے کا شکار ہوسکتاہے۔

گھی کھانسی میں اضافہ کرتا ہے
نزلہ، زکام، کھانسی، فلو اور بخار کی کیفیت میں گھی سے پرہیز کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں عام طور پر مریض کھانسی کا شکار ہوجا تا ہے جو گھی کھانے سے مزید بڑھ سکتی ہے۔

دودھ سے الرجی ہوتو
اگرآپ کو دودھ سے الرجی ہوجاتی ہوتو آپ کوگھی استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ گھی اور دودھ دونوں گھی کی مصنوعات مانی جاتی ہیں۔ اس لیے اگر آپ کو دودھ سے الرجی ہے تو گھی یا اس سے تیار کی گئی اشیا سے بھی پرہیز کرنا چاہیے، کیونکہ ایسے افراد میں گھی کھانے سے جلد پر خارش، پیٹ میں گیس، درد، سوجن اور اسہال جیسی علامات دیکھی جاسکتی ہیں۔
مزیدپڑھیں:یکم رمضان اور عید الفطر سے متعلق فلکیاتی ماہرین کی پیشگوئی سامنے آ گئی

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: گھی کی

پڑھیں:

معاشی ترقی اور اس کی راہ میں رکاوٹ

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے جمعہ کا روز خاصا مصروفیت میں گزارا۔ جمعہ کو ان کی زیرصدارت امن و امان کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا اور پھر اسی روز انھوں نے اسلام آباد میں ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے ہیڈکوارٹرز کا بھی دورہ کیا۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق امن وامان کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم دہشت گردوں کو ایسی عبرتناک شکست دیں گے کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں کر سکیں گے، ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھنکیں گے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام اداروں اور صوبوں کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔ وفاقی حکومت اس ضمن میں تمام صوبوں کی استعداد بڑھانے کے لیے بھرپور تعاون کرے گی۔

دہشت گردی پاکستان کی ترقی کی راہ میں اتنی بڑی رکاوٹ ہے، اس حوالے سے فیصلہ ساز ہی ہیں بلکہ عام پاکستانی تک حقائق سے آگاہ ہے۔ پاکستان کو اگر دہشت گردی کی لعنت کا سامنا نہ ہوتا تو آج پاکستان ایشیا میں ایک اہم معاشی قوت ہوتا۔

بہرحال بدترین دہشت گردی کے باوجود پاکستان نے معاشی اور سائنسی میدان میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ہماری سیکیورٹی فورسز کے بہادر جوان اور افسر دن رات اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔

پاکستان کے اردگرد کے حالات ایسے ہیں، اس قسم کے حالات کا سامنا اگر دنیا کے کسی اور ملک کو ہوتا تو شاید اس کی حالت صومالیہ یا کانگو جیسی ہوتی۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جدوجہد کی ہے۔ حقائق کو سامنے رکھا جائے تو برملا کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے دنیا کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں۔

پاکستان کی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ غیرقانونی تجارت اور ڈرگز کی اسمگلنگ ہے۔ اسمگلنگ نے پاکستان کی مالیات کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اسمگلنگ کی وجہ سے پاکستان کو اربوں ڈالر ریونیو کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ نقصان ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں ہو رہا ہے اور پاکستان کے اندر بلیک منی ہولڈرز سسٹم کو کرپٹ کر کے پاکستان کے خزانے کو نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں۔

وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے امن وامان کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کے دوران یہ بھی کہا کہ اسمگلنگ کے خلاف تمام اداروں کو اپنی کوششیں مزید تیز کرنے، اہم شہروں میں سیف سٹی منصوبوں کو جلدازجلد مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ وفاقی اور وفاقی اداروں کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ صوبائی اور ضلعی اداروں کی کارکردگی میں بھی اضافہ ہونا ناگزیر ہے۔ جب تک صوبائی حکومت اپنے حصے کی ذمے داریاں احسن طریقے سے ادا نہیں کرتیں، اس وقت تک شہروں، قصبوں اور دیہات میں امن کا قیام ممکن نہیں ہو سکتا۔

سیف سٹی کیمرے جرائم پر قابو پانے کے لیے اہم ہتھیار ہے۔ اسی طرح بیوروکریسی اور سرکاری عملے کی جوابدہی کے لیے بھی تمام سرکاری دفاتر میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہونے چاہئیں اور ان کیمروں کا کنٹرول مرکزی کنٹرول سسٹم میں ہونا چاہیے۔ اسی طرح ڈسٹرکٹ کورٹ سے لے کر اعلیٰ عدالتوں تک کی ساری کارروائی سی سی ٹی وی کیمروں میں محفوظ ہونی چاہیے۔ اس سے سرکاری مشینری کی کارکردگی میں خاطرخوا اضافہ ہو گا اور عوامی مسائل میں کمی ہو گی جب کہ جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی میں مدد ملے گی۔

وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اسلام آباد میں ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے ہیڈکوارٹرز کے دورہ کے دوران ٹیکس نظام میں بہتری، شفافیت، اور افسران کی کارکردگی کی جانچ کے لیے مکمل خودکار نظام کے اجرا کی منظوری دی، جس کے تحت افسران کو ترقی اور مالی مراعات کارکردگی کی بنیاد پر دی جائیں گی۔

نئے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم نے ایف بی آر افسران کو یقین دہانی کرائی کہ نئے نظام کے تحت شاندار کارکردگی دکھانے والے افسران کو30 لاکھ روپے ماہانہ تک تنخواہیں دی جائیں گی، ساتھ ہی ناقص کارکردگی اور کرپشن میں ملوث افسران کو نہ صرف ایف بی آر بلکہ کسی بھی سرکاری محکمے میں ملازمت نہیں کرنے دی جائے گی۔

وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اہم بات ٹیکس لاز میں تبدیلیاں بھی لانے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس قوانین واضح اور ابہام سے پاک ہونے چاہئیں۔ اسی طرح افسران کے اختیارات کے ساتھ ساتھ ان کے احتساب کے حوالے سے بھی قوانین واضح کرنے کی ضرورت ہے۔

افسران اور دیگر عملے کو یکطرفہ اختیارات دینے سے ممکن ہے ریونیو کے اہداف تو حاصل کیے جا سکیں لیکن ان اختیارات کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی حق تلفی بھی ہو سکتی ہے اور ان سے ناانصافی ہونے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری افسروں کو حاصل قواعد وضوابط کے اختیارات کو بھی واضح طور پر ان کے آفس کے باہر آویزاں کرنا چاہیے تاکہ سب کو پتہ چل سکے کہ افسر کے پاس کس قسم کے اختیارات موجود ہیں اور اگر وہ اختیارات کا ناجائز استعمال کرتا ہے تو اس کے خلاف کن کن قوانین کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔

اس کے علاوہ افسروں کے کمروں کے اندر اور باہر بھی سی سی ٹی وی کیمرے ہونے چاہئیں تاکہ پتہ چل سکے کہ وہاں کون کون آیا اور کتنا کام ہوا۔ اس طریقے سے سرکاری کام میں شفافیت پیدا ہو گی۔

وزیراعظم نے یہ بھی واضح کیا کہ قرضوں اور آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانا ہے تو محصولات کو بڑھانا ہوگا، قرضوں کی زندگی پاکستان کو بہت نقصان پہنچا چکی ہے، عدالتوں میں زیرالتوا کھربوں روپے کے ٹیکس کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں، ایک طرف ہمارے کھربوں روپے کے کیسز زیر التوا ہیں اور دوسری طرف ہم دن رات قرض لے رہے ہوتے ہیں یا ان کو رول اوور کرارہے ہوتے ہیں۔

دوسری طرف انٹرنل ریونیو سروس، کسٹم، سیلزٹیکس، جعلی رسید وں کی دردناک کہانیاں بھی ہم سن چکے ہیں، ہم نے ان کمزوریوں کو دور کرناہے،محصولات میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 27فیصد اضافہ لائق تحسین ہے، ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کے سفر کا آغاز ہوگیا ہے،افسران محنت کریں اور قوم کی تقدیر بدلیں۔

عدالتوں سے23ارب روپے کا اسٹے آرڈر خارج ہوا توشام کو وہ پیسہ خزانے میں آگیا،البتہ ابھی گڈزکی مس ڈکلیئریشن سے متعلق کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں ہوا۔چند سال قبل ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم بنایا گیا جس کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے، اس میں کمپنی کی خطاہے یا اس نظام کا موثر استعمال نہیں کیا گیا؟ وزیرِ اعظم نے مالی سال2025 کے پہلے نو ماہ میں پاکستان کی آئی ٹی برآمدات 2.828 ارب ڈالر تک پہنچنے اور گزشتہ سال کے مقابلے 23فیصد اضافے کا خیر مقدم کیا۔

انھوں نے کہا حکومت کی جانب سے آئی ٹی شعبے کو بروقت سہولیات کی فراہمی سے یہ اضافہ ممکن ہوا ہے۔انھوں نے کہا سرمایہ کار ہمارے سر کا تاج ہیں ، انھیں ہر ممکن سہولیات دیں گے۔وزیراعظم نے ایف بی آر کو ہدایت کی کہ وہ ٹیکس ادا کرنے والوں سے اچھا رویہ رکھیں، سرمایہ کار ہمارے سرکا تاج ہیں، انھیں عزت اور ہر ممکنہ سہولت دینی ہے۔

پاکستان کی معیشت میں خاصی بہتری آئی ہے لیکن اگر ٹیکس دہندگان کی تعداد میں مزید اضافہ کیا جائے تو ٹیکس کولیکشن میں اربوں روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ جن شعبوں کو مختلف قسم کے ٹیکسز میں استثنیٰ دیا گیا ہے، اس کو ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

ٹرسٹ، وقف اور فلاحی اداروں کے نام پر جو مراعات یا ٹیکسز میں چھوٹ دی جاتی ہے، اس کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ ٹرسٹ، وقف اور فلاحی اداروں کے حوالے سے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ لوگوں سے یا عام عوام سے چندہ وصول کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

جو سرمایہ دار یا خوشحال شخص کوئی فلاحی کام کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی ذاتی آمدنی سے کرے۔ سرکار سے مراعات لینا یا عام آدمی سے چندہ لینا بند ہونا چاہیے۔ کسی ٹرسٹ، وقف یا فلاحی ادارے کو زکوٰۃ اکٹھی کرنے، فطرانہ یا صدقات کے نام پر چندہ وصول کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

اگر کسی کو کوئی مدد دینی بھی ہے تو وہ بذریعہ حکومت ہونی چاہیے تاکہ پورا ریکارڈ رکھا جا سکے۔ سرکاری اراضی کی الاٹمنٹ کے حوالے سے بھی قوانین کو دو ٹوک اور واضح بنانے کی ضرورت ہے۔ پہلے سے بااثر لوگوں کو مزید نوازنا ملک کی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ قبائلی وڈیروں، گدی نشینوں اور بڑے بڑے جاگیرداروں سے ان کی طرززندگی کی مناسبت سے ٹیکس وصولی کا راستہ نکالنے کے لیے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ’بچے کو بچالیں‘، سڑک پر کھڑے گولڈن کڈ کو دیکھ کر گلوکار بلال مقصود کی سوشل میڈیا پر جذباتی پوسٹ
  • پنجاب شدید گرمی کی لپیٹ میں، محکمہ موسمیات نے بُری خبر سنادی
  • پانچ ماہ کی طویل بندش: شاہراہِ کاغان کو ناران تک ٹریفک کیلئے کھول دیا گیا.
  • پانی کے مسئلے پر ہمیں سیاست نہیں کرنی چاہیے: احسن اقبال
  • پاکستان میں سیاسی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے، طلال چودھری
  • آغا راحت کے بیان کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے، ساجد علی بیگ
  • پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
  • گری ہوئی چیز کو اٹھا کر کھانے کا 5’ سیکنڈ رول’، حقیقت کیا ہے؟
  • معاشی ترقی اور اس کی راہ میں رکاوٹ
  • صوابی، ژالہ باری، تیز بارش، آسمانی بجلی گرنے سے کشتی بان جاں بحق، 2 افراد زخمی