پاکستان اور افغانستان کی دوری، بھارت کے لیے خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے کا سنہری موقع
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 جنوری 2025ء) گزشتہ ہفتے دبئی میں کابل حکومت کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی اور بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مسری کی ملاقات کو شدت پسند گروپ طالبان کے لیے سفارتی سطح پر ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
طالبان کی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق، مذکورہ ملاقات میں افغانستان میں سلامتی کے خدشات، بھارت کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں میں شامل ہونے اور انسانی امداد فراہم کرنے کی ضرورت، اور افغانستان کی جانب سے ایران میں چاہ بہار بندرگاہ کے استعمال سے تجارت کو جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا۔
بیان میں مزید کہا گیا، ''افغانستان کی متوازن اور معیشت پر مرکوز خارجہ پالیسی کے مطابق، امارت اسلامیہ کا مقصد ایک اہم علاقائی اور اقتصادی شراکت دار کے طور پر بھارت کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔
(جاری ہے)
‘‘
بھارت افغانستان کے ترقیاتی منصوبوں میں شامل ہونے پر غور کرے گا
اگست 2021ء ء میں کابل پر قبضے کے بعد سے یہ ملاقات بھارت اور طالبان کے درمیان اعلیٰ ترین سطح کی پہلی ملاقات تھی۔
بھارت نے افغاستان کی طرف سے درخواست کے جواب میں صحت کے شعبے اور افغان پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے مزید مادی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ نیز دونوں فریقوں نے کھیل کے شعبے خاص طور سے کرکٹ کو باہمی دلچسپی کی بنیاد پر فروغ دینے کے لیے تعاون و مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
کیا بھارت چین کے مقابلے میں یہ سب کچھ کر رہا ہے؟
بھارت کی افغانستان امور کی ایک ماہر شانتی میریٹ ڈی سوزا حالیہ سفارتی اور سیاسی پیش رفت کے بارے میں اس امر سے اتفاق کرتی ہیں کہ یہ ملاقات ایک اہم قدم ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ بھارت سفارتی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہا ہے جس سے وہ طالبان کے ساتھ جامع طور پر بات چیت کر سکے گا۔
پاکستان کا مقابلہ اب بھارت سے نہیں، افغانستان سے ہے
منترایا انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کی بانی ڈی سوزا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بھارت کی پالیسی کا مقصد اپنا کھویا ہوا اثر و رسوخ دوبارہ حاصل کرنا اور کابل میں اپنے روابط بحال کرنا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا،''اس کے علاوہ، بھارت کا مقصد ایک ایسے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بحال کرنا ہے جہاں چین نے اگست 2021 ء ء سے اپنی موجودگی میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔
‘‘افغانستان میں تعینات رہنے والے ایک سابق بھارتی سفیر گوتم مکوپادھیے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارت اپنے سفارتی مؤقف کا از سر نو جائزہ لے رہا ہے اور طالبان کی موجودہ قیادت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ ان کے بقول، ''بھارت طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کے لیے کسی دباؤ میں نہیں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ خود افغان طالبان اندرونی تناؤ کا شکار ہیں جو خواتین پر جبر اور سختی کرنے، انہیں ان کے کسی بھی حق سے محروم رکھنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
‘‘بھارتی اعلیٰ سطحی وفد کی طالبان وزیر خارجہ سے ملاقات
گوتم مکوپادھیے کے بقول، ''بھارت اور افغان حکومت کے مابین تعلقات میں فروغ کی اور بھی اہم وجوہات ہیں جن میں تجارت، تاریخی تعلقات، چاہ بہار اور بین الاقوامی ٹرانسپورٹ کوریڈور اور چین شامل ہیں۔‘‘
پاک افغان کشیدہ تعلقات بھارت کے مفاد میں
پاکستان میں بھارت کے سابق خصوصی مندوب اجے بساریہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارت کی طالبان کے ساتھ سفارتی مصروفیات ایک بڑے معاہدے کا حصہ ہیں۔
بھارت مطالبہ کرتا ہے کہ افغان سرزمین کسی بھارت مخالف سرگرمی کے لیے استعمال کرنے نہ دی جائے اور بدلے میں بھارت افغانستان کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اپنی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ اجے بساریہ کے بقول، ''اس کے برعکس پاکستان سٹریٹجک گہرائی اور اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے افغانستان کو ایک اہم جغرافیائی خطے کے طور پر دیکھتا ہے، خاص طور پر 2021 ء ء میں امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد۔‘‘نئی دہلی کا افغان سفارتخانہ بند، بھارت پر عدم تعاون کا الزام
یاد رہے کہ پاکستان کے ساتھ طالبان کے تعلقات خاص طور پر سرحد پار دہشت گردی سے متعلق مسائل اور تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے عسکریت پسندوں کو نشانہ بناتے ہوئے افغان سر زمین پر حالیہ پاکستانی فضائی حملوں کی وجہ سے خراب ہوئے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نامی شدت پسند گروپ پاکستانی سکیورٹی فورسز پر بار بار حملے کرتا رہا ہے۔
بھارت نے پاکستان کی طرف سے ہونے والے فضائی حملوں کی مذمت کی ہے۔پاکستان میں بھارت کے سابق خصوصی مندوب اجے بساریہ پاکستان کی علاقائی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''یہ سب ان ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہیں جو پاکستان نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اختیار کی ہیں۔‘‘
بساریہ پاکستان کی پالیسیوں کو ''سمجھدار سفارتی اہداف کے مقابلے میں تنگ فوجی مقاصد کو ترجیح دینے والی پالیسیاں قرار دیتے ہیں۔‘‘
مُرلی کرشنن (ک م/ا ب ا)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کرنے کے لیے طالبان کے اور افغان بھارت کے بھارت کی کے ساتھ ایک اہم رہا ہے
پڑھیں:
پاکستان کا افغان طالبان سے تحریری ضمانتوں کا مطالبہ—بھارت کی ریاستی دہشت گردی بے نقاب، دفترِ خارجہ کا دوٹوک اعلان!
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہےکہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان روایتی معنوں میں جنگ بندی نہیں، ابھی بھی صورتحال ایسی نہیں کہ ہم کہیں جنگ بندی کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، ہمیں افغان قیادت سے تحریری ضمانتیں چاہئیں۔ ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں کہا کہ افغانستان میں منظور ہونے والی قرارداد کا مسودہ نہیں دیکھا، افغانستان کا ان کے اپنے شہری کی جانب سےکسی قسم کی دہشت گردی کو ماننا مثبت ہے، ہم اس قرارداد کے مسودے کا انتظار کر رہے ہیں، اس کے باوجود ہمیں افغان قیادت سے تحریری ضمانتیں چاہئیں۔ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان بھیجا جانے والا امدادی قافلہ ہماری سائیڈ سے کلیئر ہے، یہ طالبان پر ہے کہ وہ اس امدادی قافلے کو وصول کرتے ہیں یا نہیں، افغان عوام کی مشکلات دیکھتے ہوئےاقوام متحدہ کی درخواست پرامدادی قافلہ روانہ کیا۔ افغانستان میں ہمارا سفارتی مشن کام کر رہا ہے، ہمارے مشن نے افغانستان کو حالیہ دہشت گردوں اور ان کےہینڈلرز کے حوالے سے آگاہ کیا ہوگا۔ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ کے اشتعال انگیز بیان کو مسترد کرتے ہیں، افواج پاکستان ملکی سرحدوں کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہیں، پروپیگنڈے کے ذریعے حقائق کو مسخ نہیں کیا جاسکتا، پاکستان پُرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتاہے، پاکستان اپنے قومی مفاد اور خودمختاری کا ہر صورت دفاع کرےگا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف ریاستی پشت پناہی میں دہشت گردی جاری ہے، بھارت کی جانب سے افغان سرزمین پرفتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان سے تعاون کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اس لیے بھارت کے ذریعہ ان دہشت گردوں کی خطرناک ہتھیاروں تک ممکنہ رسائی بعید ازقیاس نہیں۔ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو افسوس ہےکہ بھارت نے سارک پراسیس کو روکا ہوا ہے، بھارت نے یہ پہلی مرتبہ سارک کے عمل میں رکاوٹ نہیں ڈالی، بھارت نےماضی میں کسی اور ملک کے حوالے سے سارک میں اسی طرح رکاوٹ ڈالے رکھی تھی، مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی قبضہ کی صورتحال کا سامنا ہے، اس صورتحال کا کسی صورت پاکستان کی صورتحال سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، سیکڑوں کشمیری بھارت کی جیلوں میں غیر قانونی طور پر قید ہیں، اقوام متحدہ رپورٹ کےمطابق2800کشمیری جبری وغیرقانونی طور پربھارتی جیلوں میں قید ہیں۔غزہ کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ رفاہ کراسنگ کھولنے پر اسرائیلی بیان پر پاکستان سمیت 8 اسلامی عرب ممالک نے بیان جاری کیا، غزہ میں انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس میں افرادی قوت بھیجنا کسی بھی ملک کا آزادانہ فیصلہ ہوگا، ابھی تک پاکستان نے اس حوالے سے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور برطانیہ میں قیدیوں کے تبادلےکا باقائدہ معاہدہ نہیں ہے، باقاعدہ معاہدہ نہ ہونے کے باعث کیس ٹو کیس بیسز پر معاملات کو دیکھا جاتا ہے۔