سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر اعتماد میں نہیں لیا، پی ٹی آئی نے اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا اور مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا کوئی نظریہ نہیں ہے، ان کا نظریہ صرف اتھارٹی ہے کہ گرفت ہماری رہے،وہ جائز ہو، ناجائز ہو، اس پر ہمیں اعتراض ہے اور رہے گا۔ کراچی میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر اعتماد میں نہیں لیا، پی ٹی آئی نے اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا اور مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مدت کرنے کا الیکشن کی شفافیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، مدت تو آمرانہ حکومتیں بھی پوری کرلیتی ہیں، بلکہ 10، 10 سال حکومت کرتی ہیں، اس کا الیکشن کی شفافیت سے تعلق نہیں ہے۔

سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ ابھی بلوچستان کے حلقہ 45 میں الیکشن ہوا، اس میں فاتح قرار دیا گیا امیدوار کسی ایک حلقے میں بھی نہیں جیتا ہے، فارم 45 میں کہیں ایک، کہیں دو، کہیں 5 اور کہیں 20 ووٹ حاصل کیے، یہ ان کا ووٹ ہے، ہم چیف الیکشن کمشنر پر کیسے اعتماد کریں، ابھی تک ان کا وتیرہ تبدیل نہیں ہو رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ابھی تک اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے کہ میں نے فیصلے کرنے ہیں، میں نے تنائج مرتب کرنے ہیں، عوام کی کیا حیثیت ہے کہ وہ کہیں میں نے اس کو ووٹ دیا، اس کو وو دیا، اس کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ جمہوریت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ جب اسٹیبلشمنٹ جمہوریت اور آئین کا مذاق اڑائے تو کیا لوگ ان کا مذاق نہیں اڑائیں گے، لوگ ان پر تنقید نہیں کریں گے، وہ تنقید پر ناراض ہوتے ہیں اور حرکتیں یہ کرتے ہیں، اقتدار ہمارے پاس ہوگا، گرفت ہماری ہوگی۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ان کا کوئی نظریہ نہیں ہے، ان کا نظریہ صرف اتھارٹی ہے کہ گرفت ہماری رہے، وہ جائز ہو، ناجائز ہو، ان کو کوئی پروا نہیں ہے، اس پر ہمیں اعتراض ہے اور رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے مؤقف پر قائم ہیں، 2018 میں بھی قائم تھے، 2024 میں بھی قائم رہے، ان کے ساتھ ہم کوئی مذاکرات یا مفاہمت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں شکایت سیاستدانوں سے ہے جو جمہوریت، آئین پر سمجھوتے کرتے ہیں اور تمام نظام ان کے حوالے کردیتے ہیں کہ صرف یہ کہ ہمیں اپنی معتبری مل جائے، یہ کوئی جائز پوسٹ نہیں ہے، گرفت ان کی ہے، معتبری ہمارے حوالے کردیتے ہیں کہ آپ پارلیمنٹ میں بیٹھے رہیں تاکہ آپ کو قوم میں معتبری مل جائے، اس میں تبدیلی کی کوئی اہمیت نہیں ہے ہماری نظر میں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آخر اسٹیبلشمنٹ یا حکمرانوں کو کیا شوق پڑا ہے کہ مدارس سے پنگا لینا ہے، کیوں ہر قیمت پر مذہبی طبقے کو اپنے مخالف کھڑا کرنا ہے، مدارس اپنے نظام تعلیم میں کسی قسم کی مداخلت تسلیم نہیں کریں گے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ خالد مقبول میرے لیے قابل احترام ہیں، وہ ایکٹ سمجھنے میرے گھر آئے تھے، خالد مقبول وزیر تعلیم ضرور ہیں لیکن میرے گھر پر زیر تعلیم ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ملک کے اندر تمام معاملات قومی اتفاق سے حل ہونا چاہئیں، پارلیمنٹ کی سطح پر مدارس کی رجسٹریشن کے لیے قانون سازی ہو چکی ہے، صدارتی آرڈیننس کے ذریعے مدارس رجسٹریشن میں ریلیف دیا گیا ہے، ہمیں اعتراض نہیں ہے، حکومت نے کچھ مدارس کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اعتماد میں نہیں لیا کا کہنا تھا کہ پی ٹی ا ئی نے مولانا فضل نے کہا کہ ا ہیں اور نہیں ہے رہے ہیں

پڑھیں:

ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251214-03-7

 

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

جنوبی ایشیا ہمیشہ تہذیبوں کے ملاپ، ثقافتی تنوع اور مذہبی ہم آہنگی کی پہچان رہا ہے، مگر گزشتہ چند دہائیوں میں بھارت میں ہندوتوا نظریے کے بڑھتے ہوئے اثرات نے خطے کی اس تاریخی شناخت کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ دلوں میں خوف اور آنکھوں میں بے یقینی کے سائے تب گہرے ہوتے ہیں جب کوئی سیاسی نظریہ ریاستی طاقت، عدالتی ڈھانچے، انتخابی سیاست اور سفارتی پالیسی کو اس طرح اپنے تابع کر لے کہ اقلیتیں خود کو غیرمحفوظ سمجھنے لگیں اور ہمسایہ ممالک کو بھی اپنی سلامتی کے بارے میں نئے خدشات گھیر لیں۔ یہی صورتحال آج کے بھارت میں دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں ہندوتوا کا نظریہ صرف سیاسی مقاصد تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک توسیع پسندانہ سوچ کی صورت اختیار کر چکا ہے جو خطے کے امن، بقا اور معاشرتی استحکام کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ ہندوتوا کا دعویٰ ہے کہ برصغیر صرف ہندو قوم کا خطہ ہے، اور باقی تمام مذاہب یا تو اس کے تابع ہیں یا پھر انہیں ثانوی حیثیت میں رہنا ہوگا۔ یہی سوچ بھارت کے داخلی ڈھانچے میں گہری سرایت کر چکی ہے جہاں شہریت قوانین سے لے کر تعلیم، میڈیا اور ثقافت تک ہر جگہ مذہبی قوم پرستی کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں۔ بھارت میں شہریت ترمیمی قانون نے پہلی بار مذہب کو شہریت کے تعین کا پیمانہ بنا کر نہ صرف آئینی مساوات کو مجروح کیا ہے بلکہ ملک گیر این آر سی کے خدشے کے ساتھ یہ اندیشہ بھی گہرا ہو گیا ہے کہ لاکھوں مسلمان محض کاغذی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے شہریت کے پیچیدہ جال میں الجھ سکتے ہیں۔ اسی نظریے کی علامت ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مساجد کے انہدام، تاریخی ناموں کی تبدیلی، مسلم محلوں پر حملوں اور اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی نے بھارتی سماج کو شدید تقسیم کا شکار کر دیا ہے۔ جب ایک ملک کے اندر عدم برداشت بڑھے تو اس کے اثرات لازماً سرحدوں سے باہر بھی محسوس ہوتے ہیں، اور یہی بات خطے کے امن کے لیے تشویشناک ہے۔

خطے کے ممالک خصوصاً پاکستان، بنگلا دیش، نیپال اور سری لنکا اس خطے کی جغرافیائی و تہذیبی حقیقتوں کا حصہ ہیں، لیکن ہندوتوا کے نظریہ ساز انہیں ایک ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے غیر اعلانیہ تصور کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اس سوچ کو بھارتی سیاست میں جس طرح پذیرائی مل رہی ہے، وہ مستقبل میں علاقائی تنازعات کے خدشات کو بڑھاتی ہے۔ سرحدی جھڑپیں، سفارتی تناؤ، اور خطے میں اسلحے کی دوڑ کا بڑھنا اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کے خلاف مسلسل جارحانہ بیانات، بالاکوٹ واقعہ کے بعد بھارتی میڈیا کا جنگی جنون، اور لداخ میں چین کے ساتھ محاذ آرائی کا ماحول اس بات کی واضح مثالیں ہیں کہ مذہبی قوم پرستی جب سیاسی فیصلوں پر غالب آ جائے تو امن کی راہیں بند ہونے لگتی ہیں۔ ہندوتوا کے توسیع پسندانہ عزائم کا ایک اہم پہلو بھارت کی عسکری حکمت عملی میں بھی جھلکتا ہے۔ دفاعی بجٹ میں سالانہ مسلسل اضافہ، جدید میزائل سسٹمز کی خریداری، اور خطے میں اسٹرٹیجک برتری کے دعوے ایک ایسے ملک کی تصویر دکھاتے ہیں جو دفاع کے نام پر جارحانہ طاقت کو ترجیح دے رہا ہے۔ سال 2025–26 کے لیے بھارت کی حکومت نے دفاع کے لیے کل بجٹ چھے لاکھ اکیاسی ہزار کروڑ روپے مقرر کیا ہے، جو موجودہ تبادلے کی شرح کے مطابق تقریباً 78.3 بلین امریکی ڈالر بنتا ہے۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف سرکاری طور پر باوثوق ہیں بلکہ معتبر تجزیاتی رپورٹوں سے بھی تصدیق شدہ ہیں۔

دفاعی ماہرین کے مطابق یہ بجٹ حقیقت پسندانہ انداز میں بھارت کی عسکری ضروریات اور خطے میں اپنی اسٹرٹیجک پوزیشن کو مستحکم رکھنے کی نیت کے مطابق ہے، اور یہ کہنا کہ بھارتی دفاعی بجٹ تقریباً 78–79 بلین ڈالر کے قریب ہے۔ جب ایک ملک اس حد تک عسکری طاقت پر انحصار بڑھے اور اس کے فیصلے مذہبی قوم پرستی کے زیر ِ اثر ہوں تو یہ پورے خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اندرونی معاملات پر بیانات، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں اور کنٹرول لائن پر مسلسل اشتعال انگیزی خطے میں غیر یقینی کو بڑھاتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ہندوتوا سیاست کا مرکزی محور بن چکا ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی صورتحال عالمی سطح پر تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ مقبوضہ کشمیریوں کو مسلسل عسکری محاصرے، میڈیا بلیک آؤٹ، گرفتاریاں اور نقل و حرکت کی پابندیوں کا سامنا ہے۔ ہندوتوا نظریہ مقبوضہ کشمیر کو صرف جغرافیائی مسئلہ نہیں بلکہ ایک مذہبی اور سیاسی علامت کے طور پر دیکھتا ہے، اور اسی لیے اس کے حل میں طاقت کے استعمال کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ مگر طاقت سے حل ہونے کے بجائے مسائل مزید پیچیدہ شکل اختیار کرتے ہیں، اور یہ صورتحال پاکستان سمیت پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ خطے کے امن کے لیے ایک اور بڑا خطرہ بھارتی معاشرے میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی ہے جسے سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے۔ گائے کے نام پر قتل، مساجد پر حملے، مسلم کاروباروں کا بائیکاٹ، اور میڈیا میں مسلسل نفرت انگیز پروپیگنڈہ اقلیتوں کے معمولاتِ زندگی کو مفلوج کر رہا ہے۔ جب ایک ملک اپنا سماجی توازن کھو بیٹھے تو اس کی خارجہ پالیسی بھی شدت پسندی کی طرف جھکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی سفارتی زبان میں بھی سختی، الزام تراشی اور جارحیت بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدگی کو بڑھاتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھارت کے کردار پر بھی سوالات اٹھا رہا ہے۔ خطے کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ ہندوتوا کا سیاسی ماڈل ہندوستان کے آئین، جمہوریت اور سیکولر ریاست کے دعوے سے براہِ راست متصادم ہے۔ اگر اس نظریے کو لگام نہ دی گئی تو جنوبی ایشیا کی یہ بڑی ریاست اپنے اندر بھی انتشار کا شکار ہو سکتی ہے اور بیرونی سطح پر بھی غیر ضروری تصادم کو جنم دے سکتی ہے۔ عالمی طاقتوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ اقتصادی مفادات کے باوجود مذہبی قوم پرستی کو سیاسی سرپرستی دینا خطے کے امن کے ساتھ سنگین کھلواڑ ہے۔

امن کی راہ اسی وقت ہموار ہو سکتی ہے جب بھارت کے اندر آفاقی برابری، مذہبی آزادی اور آئینی اصولوں کی بحالی کو ترجیح دی جائے۔ خطے کے ممالک سفارتی سطح پر مکالمے کو مضبوط کریں، انتہاپسندانہ بیانیوں کو چیلنج کیا جائے، اقوامِ متحدہ کو مقبوضہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے منصفانہ حل میں فعال کردار ادا کرنا ہوگا، اور جنوبی ایشیا کی قیادت کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ امن، ترقی اور انسانی حقوق کے بغیر کوئی بھی نظریہ، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، مستقل استحکام نہیں لا سکتا۔ یہی وہ اقدامات ہیں جو ہندوتوا کے توسیع پسندانہ عزائم کو محدود کرنے اور خطے کے مستقبل کو محفوظ سمت میں لے جانے کے لیے ناگزیر ہیں۔

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

متعلقہ مضامین

  • ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ
  • قلعہ سیف اللہ جے یو آئی کا قلعہ ہے، نئی جماعت ہمیں کمزور نہیں کر سکتے، مولانا واسع
  • گراما کی عظمت: ایک کچھوے کو الوداع، اور ایک گرم ہوتی دنیا کے لیے بیداری کا پیغام
  • مولانا فضل الرحمن 21دسمبر سے 4روزہ دورے پر سندھ پہنچیں گے
  • ہمیں افغان قیادت سے تحریری ضمانتیں چاہئیں‘ ترجمان دفتر خارجہ
  • نئے خطرات اور نئے چیلنجز
  • نادیہ خان کے خلیل الرحمان قمر کے بارے میں سخت ریمارکس
  • روایتی جنگ بندی نافذ نہیں،ہمیں افغان قیادت سے تحریری ضمانتیں چاہئیں، ترجمان دفتر خارجہ
  • خیبر پختونخواہ میں گورنر راج کا فیصلہ دانشمندانہ نہیں ہوگا(فضل الرحمان)
  • نواز شریف نے ہمیشہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی: رانا ثناء