بڑھتی ہوئی افراط زرکے باعث کاروبار پالیسی استحکام، معاشی اصلاحات کے خواہاں ہیں. ویلتھ پاک
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11 جنوری ۔2025 )سٹیٹ بینک آف پاکستان کا مہنگائی سے نمٹنے اور پالیسی ریٹ میں کمی کا عزم قابل تعریف ہے تاہم گہری اقتصادی اصلاحات اور پالیسی کے استحکام کے بغیر کاروباری برادری کو مسابقت کو برقرار رکھنے اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے میں اہم چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا سنٹر فار بزنس اینڈ اکنامک ریسرچ کے ڈویلپمنٹ اکانومسٹ ڈاکٹر وقاص احمد نے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ میں کمی کے حالیہ فیصلے نے قرض لینے کے اخراجات میں کمی کے حوالے سے کاروباری اداروں کو کچھ ریلیف فراہم کیا ہے لیکن یہ واحد اقدام ہے جوبنیادی معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے ناکافی ہے.
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ معیشت میں تنوع اور برآمدی مسابقت میں بہتری سمیت ساختی اصلاحات کے بغیر مانیٹری پالیسی کی تبدیلیوں کا اثر محدود رہے گا انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے معاشی چیلنجز پالیسی سازی میں استحکام کی کمی کے ساتھ گہرے جڑے ہوئے ہیں حکومتی پالیسیوں میں متواتر تبدیلیاں، خاص طور پر ٹیکس کے نظاموں اور تجارتی ضوابط میں، کاروباروں کے لیے غیر یقینی کا ماحول بنا ہوا ہے جس سے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے. انہوں نے دلیل دی کہ ایک مستحکم پالیسی ماحول طویل مدتی اقتصادی ترقی کے لیے اہم ہے کیونکہ کاروباروں کو منصوبہ بندی کرنے اور باخبر فیصلے کرنے کے لیے پیشین گوئی کی ضرورت ہوتی ہے انہوں نے کاروباروں کی مدد کے لیے ہدفی اقدامات کی وکالت کی، جیسے کہ ان کے ٹیکس کے بوجھ کو کم کرنا اور سستی مالیات تک رسائی فراہم کرنا ہے کاروباری اداروں کو درپیش چیلنجوں میں حصہ ڈالنے والا ایک اور اہم عنصر ٹیکس کا نظام ہے جس کے بارے میں بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ غیر موثر اور بوجھل ہے. پاکستان بزنس کونسل کے ایک عہدیدار نے ٹیکس میں جامع اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جو نظام کو آسان اور کاروبار کی ترقی کے لیے مزید سازگار بنائیں انہوں نے کہا کہ ٹیکس کی تعمیل کی پیچیدگی بلندشرحوں کے ساتھ، بہت سے کاروباروں کو غیر رسمی شعبے کی طرف دھکیل رہی ہے جس سے مجموعی ٹیکس کی بنیاد کم ہو رہی ہے اور عوامی مالیات پر مزید دبا وہے انہوں نے کہا کہ ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب خطے میں سب سے کم رہا جس سے حکومت کی اہم انفراسٹرکچر اور عوامی خدمات میں سرمایہ کاری کرنے کی صلاحیت پر اثرات مرتب ہوئے. کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد جاوید بلوانی نے شرح سود میں صرف 200 بیسس پوائنٹس کی کمی کرکے 13 فیصد کرنے کے اسٹیٹ بینک کے فیصلے پر تنقید کی انہوں نے زور دے کر کہا کہ تاجر برادری 400 سے 500 بیسس پوائنٹس کی کمی کا مطالبہ کر رہی ہے انہوں نے کہا کہ موجودہ شرح بہت زیادہ ہے اور اسے ہندوستان (6.5%)، ویتنام (4.5%) اور بنگلہ دیش (10%) جیسے ممالک کے مطابق 5% اور 7% کے درمیان مزید کم کیا جانا چاہیے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عاطف اکرام شیخ نے شرح سود میں 2 فیصد کمی کا خیر مقدم کیا لیکن دلیل دی کہ موجودہ معاشی حالات کے پیش نظر یہ ناکافی ہے. انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افراط زر اب 78 ماہ کی کم ترین سطح 4.9 فیصد پر ہے، پالیسی کی شرح کو تیزی سے سنگل ہندسے تک کم کیا جانا چاہیے انہوں نے بڑھتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر اور کرنٹ اکاﺅنٹ سرپلس سمیت مثبت معاشی اشاریوں کو تسلیم کیا انہوں نے کہا کہ شرح میں مزید کمی سے اقتصادی ترقی اور کاروباری سرگرمیوں کو تحریک ملے گی.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے
پڑھیں:
سندھ حکومت نے کمشنرز کو دکانیں اور کاروبار ڈی سیل کرنے سے روک دیا
کراچی:سندھ حکومت نے تمام ڈی سیز اور اے سیز کو صوبے میں پرائس کنٹرول کے تحت سیل ہونے والی دکانوں و کاروبار کو ڈی سیل کرنے سے روک دیا۔
سندھ حکومت نے تمام کمشنرز کو مراسلہ ارسال کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اختیار آپ کا نہیں بلکہ محکمہ بیورو آف سپلائی پرائسز کے ڈائریکٹر جنرل کا ہے، سندھ میں کاروبار و دکان سیل کرنے کا اختیار صرف ڈی سی، اے سی اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر پرائس کنٹرول سمیت دیگر افسران کا ہے، جبکہ ڈی سیل کرنے کا اختیار سیکشن 5A کے تحت ڈی جی بیورو آف سپلائی سندھ کا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل بیورو آف سپلائی پرائسز زاہد حسین شر کا کہنا تھا کہ پرائس کنٹرول ایکٹ، 5A4 کے تحت تمام ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو کاروبار یا دکان ڈی سیل کرنے سے روکا جائے، ڈی سیل سے متعلق آنے والی درخواستیں ڈائریکٹر جنرل بیورو آف سپلائی پرائسز کو ارسال کی جائیں۔