وزیرِ اعظم شہباز شریف—فائل فوٹو

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ مسلم ممالک بشمول پاکستان کو لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا ہے۔

اسلام آباد میں لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ملالہ یوسفزئی بھی کانفرنس میں شریک ہیں، انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کانفرنس کا انعقاد پاکستان کے لیے اعزاز ہے، شاہ سلمان اور محمد بن سلمان کے کانفرنس میں تعاون پر شکر گزار ہیں۔

پاکستان آکر بہت خوش ہوں: ملالہ یوسفزئی

نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی پاکستان پہنچ گئیں۔

شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ملالہ یوسفزئی بہادری اور ہمت کی علامت ہیں، فاطمہ جناح اپنے بھائی قائداعظم کے شانہ بشانہ کھڑی تھیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ بے نظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں، ارفا کریم نے تاریخ بنائی اور آج مریم نواز پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ 22.

8 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں جن میں زیادہ تر لڑکیاں ہیں، ہمیں اس کے لیے اپنی آواز بلند کرنی ہو گی۔

شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ ہم اسلام آباد اعلامیہ کو اقوام متحدہ اور سیکیورٹی کونسل میں پیش کریں گے۔

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: شہباز شریف کہا کہ

پڑھیں:

پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم، بنیادی رکاوٹیں کیا ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 25 ملین بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ اس صورتحال نے نہ صرف صنفی مساوات بلکہ ملک کی مجموعی ترقی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

اسلامی مؤقف اور عالمی آواز

رواں سال اسلام آباد میں منعقدہ ''مسلم ورلڈ لیگ کانفرنس برائے لڑکیوں کی تعلیم‘‘ نے اس موضوع کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔

نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے کہا، ''ہر لڑکی کا تعلیم حاصل کرنے کا حق ناقابلِ تنسیخ ہے۔‘‘

مسلم ورلڈ لیگ کے سکریٹری جنرل شیخ محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے واضح کیا کہ اسلام لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت کی کوئی گنجائش نہیں دیتا۔

(جاری ہے)

کانفرنس کے اختتام پر جاری کردہ اسلام آباد اعلامیے میں صنفی حساس پالیسیوں، محروم طبقات کے لیے اسکالرشپس اور انتہا پسندانہ نظریات کی مذمت پر زور دیا گیا۔

حکومتی اقدامات اور تعلیمی وظائف

پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے حکومتی سطح پر کئی پروگرام جاری ہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے تحت ''تعلیمی وظائف پروگرام‘‘ غریب خاندانوں کی لڑکیوں کو تعلیمی مواقع فراہم کر رہا ہے۔ اس پروگرام کے تحت پرائمری سے گریجویشن تک لڑکیوں کو سہ ماہی وظائف دیے جاتے ہیں، جو 70 فیصد اسکول حاضری سے مشروط ہیں۔

سماعت سے محروم پاکستانی بچوں کے لیے اسکول زندگی ہے!

ایشیائی ترقیاتی بنک کے کنسلٹنٹ محمد نعمان علی کے مطابق، حکومت اس پروگرام کی توسیع پر غور کر رہی ہے تاکہ دور دراز علاقوں کی لڑکیوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جا سکے۔ انہوں نے کہا، ''یہ وظائف نہ صرف مالی مدد فراہم کرتے ہیں بلکہ والدین میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے شعور بھی اجاگر کرتے ہیں۔

‘‘

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ مالی امداد کے باوجود بنیادی ڈھانچے کی کمی، اسکولوں تک رسائی اور سماجی رویوں جیسے مسائل اب بھی حل طلب ہیں۔

نجی شعبے کا کردار

نجی شعبے نے بھی لڑکیوں کی تعلیم کے لیے قابلِ قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ملالہ فنڈ، پاکستان الائنس فار گرلز ایجوکیشن (پی اے جی ای)، دی سٹیزن فاؤنڈیشن (ٹی سی ایف) اور آغا خان ایجوکیشن سروسز جیسے اداروں نے ہزاروں لڑکیوں کو تعلیمی مواقع فراہم کیے ہیں۔

پی اے جی ای کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فجر رابعہ پاشا نے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) سے گفتگو میں بتایا کہ لڑکیوں کی تعلیم کے سب سے بڑے مسائل میں اسکولوں کا فاصلہ، محفوظ ٹرانسپورٹ کی کمی اور خاندانی تعاون کی کمی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا، ''دیہی علاقوں میں اسکولوں کی تعداد اور معیار دونوں ناکافی ہیں۔ پالیسیوں کو زمینی حقائق کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔

‘‘

فجر نے مزید بتایا کہ ان کا ادارہ 'سٹار اسکولز‘ کے ذریعے پسماندہ علاقوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت اور روزگار سے متعلق تربیت بھی فراہم کر رہا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کمیونٹی اور مذہبی رہنماؤں کی شمولیت ناگزیر ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات

پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے اور اس کے اثرات لڑکیوں کی تعلیم پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے باعث اسکول تباہ ہو جاتے ہیں اور معاشی دباؤ کی وجہ سے والدین لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کو ترجیح دیتے ہیں۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'بیداری‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عنبرین عجائب نے بتایا، ''سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے کیونکہ خاندان 'بیٹی کے بوجھ‘ سے بچنے کے لیے اس کی جلد شادی کر دیتے ہیں۔

‘‘

انہوں نے تجویز دی کہ تباہ شدہ اسکولوں کی فوری بحالی، ہنگامی تعلیمی وظائف اور سماجی آگاہی مہمات کے ذریعے اس مسئلے سے نمٹا جا سکتا ہے۔

مسائل اور ان کا حل

ماہرین کے مطابق، لڑکیوں کی تعلیم کے لیے صرف مالی امداد یا پالیسیاں کافی نہیں۔ دیہی علاقوں میں اسکولوں کی تعداد اور معیار بڑھانے، محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کرنے اور سماجی رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

فجر رابعہ نے زور دیا، ''ماؤں اور مقامی کمیونٹی کی شمولیت کے بغیر کوئی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔‘‘

ماہرین کے مطابق پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے حکومتی اور نجی شعبے کی کوششیں قابلِ تحسین ہیں لیکن انہیں زمینی حقائق کے مطابق مزید جامع اور پائیدار بنانے کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں جیسے نئے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات اور سماجی شعور کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ملالہ یوسفزئی نے کہا، ''تعلیم صرف ایک حق نہیں بلکہ ہر لڑکی کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔‘‘

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • وزیرِ اعظم شہباز شریف سے آزاد جموں و کشمیر کی قیادت کے اعلی سطح وفد کی ملاقات
  • علامہ اقبال شاعر ہی نہیں اہل بصیرت رہنما بھی تھے: وزیرِ اعظم شہباز شریف
  • صدر زرداری اور وزیرِاعظم شہباز شریف نے زور دیا کہ قوم علامہ اقبال کے افکار کی پیروی کرے
  • پاکستان بطور ایٹمی طاقت مسلم ممالک کی قیادت کرے، اسرائیلی مظالم روکے جائیں، شہدائے غزہ کانفرنس
  • پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم، بنیادی رکاوٹیں کیا ہیں؟
  • ایسٹر تجدید اور اُمید کی علامت ہے: وزیرَ اعظم شہباز شریف
  • 60 ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے، شہباز شریف
  • 60 ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دی، شہباز شریف
  • وزیراعظم کی 60 ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت
  • پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے سازگارماحول ہے: وزیرِ اعظم شہباز شریف