’دنیا کا کوئی بھی ’پانی کا نظام‘ لاس اینجلس کی آگ پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتا‘
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں آگ کے شعلے جمعہ کے روز بھی تباہ کن راستے بناتے رہے، امریکی حکام کو لگتا ہے کہ ’دنیا کا کوئی بھی ’پانی کا نظام‘ لاس اینجلس کی آگ بجھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا‘۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق فائر بریگیڈ کے حکام نے نقصانات کا اندازہ لگانے اور آگ کیسے شروع ہوئی، اس کا تعین کرنے کی کوشش کی، ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوا کہ کیا اس سطح کی تباہی کو کسی طرح کم کیا جا سکتا تھا، یا یہ آب و ہوا سے متعلق آفات کے دور میں نیا معمول ہے؟
حکومتی رپورٹس اور ایک درجن سے زائد ماہرین کے انٹرویوز کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ حتمی جواب دونوں کا ’مرکب‘ ہے۔
لاس اینجلس شہر اور کاؤنٹی کے حکام نے آگ کو ایک ’عظیم طوفان‘ قرار دیا ہے، جس میں 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والی طوفانی ہواؤں نے انہیں ایسے اہم طیارے تعینات کرنے سے روک دیا، جو خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں پانی اور آگ کو روکنے کے لیے استعمال کیے جاسکتے تھے۔
ماہرین کا اتفاق رائے یہ تھا کہ ایک ہی جغرافیائی خطے میں ان ہواؤں، بے موسم خشک حالات اور ایک کے بعد ایک پھیلنے والی متعدد آگ نے بڑے پیمانے پر تباہی کو ناگزیر بنا دیا۔
بہر حال، بطور انسان ہم فطرت کے غضب کے اثرات کو ممکنہ طور پر کم کرنے کے لیے کچھ اقدامات کر سکتے تھے، پودوں کے ناقص انتظام، پرانے بنیادی ڈھانچے، مکانات، اور منصوبہ بندی کی کمی نے ممکنہ طور پر آگ کی وجہ بنی، جس نے اب تک 55 مربع میل سے زیادہ کو جلا دیا ہے، ہزاروں ڈھانچے تباہ ہو گئے ہیں اور کم از کم 10 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
لاس اینجلس کی میئر کیرن باس نے مکمل تحقیقات کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یقین رکھو‘۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ محکموں، افراد یا سب کو جوابدہ بنانے کے لیے کیا کام کیا جاسکتا ہے اور کیا کام نہیں کرنا۔
واضح رہے کہ لاس اینجلس کے جنگل میں لگنے والی آگ شہر تک پھیلنے سے اب تک 10 سے زائد اموات ریکارڈ کی جاچکی ہیں، تاہم حتمی اموات کا تعین علاقے میں کلیئرنس اور رسائی کے بعد کیا جاسکے گا، ہزاروں گھر مکمل تباہ ہوچکے، ڈیڑھ لاکھ کے قریب آبادی کو نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔
عالمی ماہرین اور اداروں کے مطابق اس آگ سے نقصانات کا تخمینہ 150 ارب ڈالر سے بڑھنے کا خدشہ ہے، تاہم ابھی اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ نقصانات کہاں تک پہنچیں گے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: لاس اینجلس
پڑھیں:
اسرائیلی فضائی حملے میں شہادت پانے والے بہادر اور جری حماس کمانڈر رعد سعد کون ہیں؟
اسرائیلی فوج کے غزہ سٹی میں ایک فضائی حملے میں شہید ہونے والے حماس کمانڈر رعد سعد کا نام ایک بار پھر عالمی خبروں کی سرخیوں میں آ گیا۔
رعد سعد کو حماس کی عسکری تنظیم القسام بریگیڈز کی اعلیٰ قیادت میں شمار کیا جاتا ہے اور تنظیم کا دوسرا بڑا کمانڈر اور آرمی آپریشنر کا دماغ بھی کہا جاتا ہے۔
رعد سعد کی حماس کی عسکری حکمتِ عملی، منصوبہ بندی اور اسلحہ سازی کے عمل میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز کی فیکٹ شیٹ کے مطابق وہ القسام بریگیڈز کی ملٹری کونسل کے رکن ہیں اور تنظیم کے آپریشنز اور پروڈکشن ڈیپارٹمنٹس کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے جاری بیان میں رعد سعد پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل میں ہونے والے حملوں کے “اہم منصوبہ سازوں میں سے ایک” تھے۔
اسرائیلی فوج نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد میں رعد سعد نے کلیدی کردار ادا کیا۔
رعد سعد کو غزہ میں موجود حماس کی اعلیٰ عسکری قیادت کے چند باقی ماندہ ارکان میں شمار کیا جاتا ہے اسی وجہ سے وہ اسرائیلی فوج کے لیے ایک بڑا ہدف سمجھے جاتے رہے ہیں۔
اسرائیل کے متعدد حملوں میں بچ نکلتے تھےاسرائیل کا کہنا ہے کہ رعد سعد جنگ کے دوران متعدد بار اسرائیلی حملوں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوتے رہے تھے۔ اس لیے حالیہ ٹارگٹ حملہ مکمل انٹیلیجنس کے ساتھ کیا گیا۔
اس قبل جون 2024 میں بھی رعد سعد پر قاتلانہ حملے کی کوشش کی گئی تھی تاہم وہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
اسی طرح مارچ 2024 میں رعد سعد کی موجودگی کی اطلاع ملنے پر اسرائیلی فوج نے غزہ سٹی کے الشفا اسپتال پر بڑا فوجی آپریشن کیا تھا۔
تاہم اسرائیلی فوج کی کارروائی کے دوران رعد سعد نہ صرف مقابلہ کرتے رہتے بلکہ بآسانی چکمہ دیکر فرار ہوگئے اور صیہونی فوج ہاتھ ملتی رہ گئی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی فوج آج کے حملے میں رعد سعد کی شہادت کو اپنی جنگ بندی کے بعد سب سے بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے۔
خیال رہے کہ حماس نے غزہ میں ایک کار پر اسرائیل کے فضائی حملے میں 3 افراد کے شہید ہونے کی تصدیق کی ہے لیکن رعد سعد کے حوالے سے تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔