سپہ سالار، وزیراعظم اور چیئرمین ایف بی آر کے ملکی معیشت کے حوالے سے ترجیحات قابل ستائش ہیں جن میں سمگلنگ کی روم تھام سرفہرست ہے۔ ایک تو سمگلنگ تھی جو غیرقانونی ان ڈکلیئرڈ روٹ سے ہوا کرتی تھی یعنی افغان بارڈر، ایران علاوہ کسی ڈکلیئرڈ اور دیگر سرحدی علاقوں پر ہوا کرتی تھی، اس کو سختی سے روکا گیا تو سمگلروں نے اپنے نمائندوں کے ذریعے ہڑتال کر دی۔ یہ ظاہر کر کے کہ مزدور ہیں اور ان کا روزگار برباد ہوا۔ وہ مزدور ہوں گے مگر دھندہ ان کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ غیر اعلانیہ راستوں (ان ڈکلیئرڈ روٹس) سے سمگلنگ رک گئی مگر ڈکلیئرڈ روٹ یعنی ایئر پورٹوں، ڈرائی پورٹس اور بندرگاہ پر جہاں جہاں حکومتی اداروں کے افسران و اہلکاران تعینات رہتے ہیں جن میں کسٹم، ایئرپورٹ سکیورٹی فورس، ایف آئی اے، متعلقہ پولیس سٹیشن وغیرہ ہیں، جاری رہی۔ بدعنوانی نے وطن عزیز میں مہاجرین کی آبادی کاری سے جڑ پکڑی تھی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بدعنوانی نہیں تھی۔ ہر محکمہ میں تھی مگر اس سے تو جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔ نامعلوم شاعر نے کہا تھا:
کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے
ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے
مگر یہ سلسلہ رکا نہیں۔ پولیس، عدلیہ، پارلیمنٹ، حساس ادارے غرض کوئی ایک ادارہ بھی الزامات کی زد سے نہ بچا حتیٰ کہ حج کے وزیر اور افسران بھی جیل یاترا کرتے رہے۔
بدعنوانی کی وجہ سے مہنگائی اور مہنگائی کی وجہ سے بدعنوانی جڑتے چلتے چلے گئے جس نے ملکی معیشت زمین بوس کر دی، حالات اس نہج پر آ گئے کہ وزیراعظم کو کہنا پڑا جس بھی ملک جاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں مانگنے آ گئے ہیں پھر سپہ سالار کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے حکومت کے ساتھ مل کر ترجیحات ترتیب دیں۔ سرفہرست معیشت کو رکھا اور ظاہر ہے پھر ایف بی آر کی طرف اصلاحات کرنا تھیں، سمگلنگ کو روکنا تھا۔ ڈکلیئرڈ روٹس تو الگ داستانیں ہیں، کھلی سرحدیں اور دیگر ملحقہ علاقہ جات الگ کہانی ہیں۔ بدعنوانی ایک مربوط نظام ہے شائد کوئی محکمہ اتنا مربوط نہ ہو جتنا بدعنوانی ہے چونکہ وطن عزیز کی معیشت ہی بیٹھ گئی اس لئے ایف بی آر جس میں سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کے علاوہ کسٹم ہے۔ ابھی کسٹم پر بات کرتے ہیں۔ سپہ سالار جناب سید عاصم منیر شاہ، وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف، چیئرمین ایف بی آر نے ایف بی آر کی ری سٹرکچرنگ کی ٹھانی ہے۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے! ابھی تک سمگلنگ روکنے کا کریڈٹ تو سپہ سالار کو جاتا ہے، یہ وزیراعظم بھی کہہ چکے۔ حکومتیں محکموں کی نگرانی کے لیے محکمے بناتی رہیں مگر وہ ان محکموں پر مسلط ہوتے رہے۔ جیسے ایف آئی اے کے پیچھے بھی نیت تو ٹھیک تھی مگر اس کے دائرہ کار میں آنے والے ادارے اس کی چراگاہ بن گئے۔ یہی حالت نیب کی ہوئی کیونکہ ان اداروں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس کا رواج عملی طور پر نہیں تھا۔ کسٹم میں تنظیم نو میں سر فہرست ایئر پورٹس پر کسٹم کے نظام کی تعمیر نو ہے ابھی صرف اس حوالے سے بات ہو گی۔ موجودہ کلکٹر لاہور ایئرپورٹس کے دائرہ اختیار میں راولپنڈی کے علاوہ باقی تمام ایئرپورٹس ہیں جن میں ملتان، لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ وغیرہ شامل ہیں۔ یاد رہے کہ موجودہ کلکٹر ایئرپورٹس لاہور نے بطور ڈائریکٹر انٹیلیجنس زبردست کارکردگی دکھائی اور کروڑوں روپے کی سمگل شدہ اشیا، گاڑیاں پکڑیں اور اپنے دائرہ کار میں آنے والی ڈرائی پورٹس پر بھی کروڑوں روپے کی ڈیوٹی چوری پکڑی۔
اب موجود نظام میں چیف کلکٹر جناب حسن ثاقب شیخ ہیں خود اسلام آباد میں جبکہ باقی جگہ صوبہ کے لحاظ سے کلکٹر تعینات کیے ہیں جیسے لاہور میں محترمہ میڈم طیبہ کیانی کلکٹر ایئرپورٹس ہیں۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ اگر سمگلر لاہور میں ناکام ہیں تو فیصل آباد چلے گئے وہاں نہیں تو سیالکوٹ یا ملتان مگر اب ایک کلکٹر کے تحت ایک کلکٹر کا چارج ہے لہٰذا موجود صورتحال میں سمگلروں اور ان کے سہولت کاروں کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں۔ حال ہی میں لاہور ایئرپورٹس سے کروڑوں روپے کے موبائل فون، گھڑیاں، سونا وغیرہ اور پھر یہی نہیں کلکٹر صاحبہ کی اطلاع پر بیگیج سیکشن لاہور میں دوبارہ ایگزامینیشن کی تو کوئی 18 سے زائد کنسائنمنٹ جن میں ڈکلیئر کیا گیا تھا (Personal Effect) یعنی ذاتی ضروریات کا سامان جس میں پارچات وغیرہ ہوتے مگر جیولری، موبائل اور الیکٹرانکس نہ جانے کیا کیا سامان نکلا جس کی دوبارہ پڑتال پرنسپل اپریزر اعجاز صدیقی نے کی اور 65 لاکھ ڈیوٹی ٹیکسز لگائے۔ یہ سلسلہ نہ جانے کب سے چل رہا تھا۔ ملتان ایئرپورٹ پر بھی لاکھوں روپے مالیت کی گھڑیاں، سونا اور موبائل پکڑے گئے۔
جہاں ڈی سی ایئر پورٹ احمد ظہیر اور سپرنٹنڈنٹ ناصر زمان رتیکا ہیں۔ کسٹم میں ایئرپورٹس پر اب کرپشن نہیں ہے۔ قارئین ایک شخص کا دوسرے سے جھگڑا ہو گیا اس نے کہا کہ میں مکا مار کر تمہارے 34 دانت نکال دوں گا۔ اس کا ساتھی بولا دانت 34 نہیں 32 ہوتے ہیں۔ پہلے نے کہا کہ میں نے تمہارے دو پہلے ہی ڈال لیے تھے، مجھے پتہ تھا تم بولو گے۔ جیسا میں نے لکھا کہ بدعنوانی کا ایک مربوط نظام ہے۔ مافیاز مل کر ایک نظام بناتے ہیں جب یہ ٹوٹتا ہے تو الزامات کی صورت چیخیں نکلتی ہیں۔ اس میں زرد صحافت کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں بعض کو تو میں جانتا ہوں اگر نام لکھ دوں دفن ہونے کو جگہ نہ ملے اور چلے تھے بینظیر بھٹو شہید کی کرپشن کی غضب کہانی سنانے۔ مگر وہ تو صحافی تھے چاہے نیلے پیلے زرد ہوتے رہتے تھے مگر اب یو ٹیوب بھی ہے اور ایسے اخبارات بھی جو شاید مالک خود بھی نہیں پڑھتا۔ کہا گیا ہے کہ گناہ گار لوگ اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے۔ ایک دن میں نے دیکھا ایک انتہائی مدقوق و منحوس بہروپیے بلکہ مانگت صورت اس کے ساتھ دوسرا مخولیہ اور چلے کسٹم ایئرپورٹس پر کرپشن بتانے جو سرا سر بکواس کہانی تھی۔ انسان کا 90فیصد کردار اس کے چہرے پر ہوتا ہے۔ مجھے بہت ہی بُرا لگا کہ کرپشن ہے تو ان لوگوں کا نام بتاﺅ جو سمگلنگ کرتے ہیں اور کہاں کیا کر رہے ہیں۔ محض نیک نیتی سے فرائض انجام دینے والے افسران کا تذکرہ کر کے، بے بنیاد الزامات لگا کر دراصل سمگلر مافیا کے شریک کار کردار ادا کر رہے ہیں جھوٹوں پر رب کی لعنت ہے۔ آتے ہیں موضوع کی طرف۔ سپہ سالار، وزیراعظم اور چیئرمین ایف بی آر کو چاہیے کہ ایئرپورٹس پر دیانتدار لوگوں کی تعداد بھی بڑھائیں، کلکٹریٹ میں انسپکٹر سے ایڈیشنل کلکٹر کے افسران کا اضافہ کریں۔ ایک کلکٹر چند دیگر افسران جیسے اعجاز صدیقی پرنسپل اپریزر ناصر زمان وغیرہ کافی نہیں ہیں۔ اعجاز صدیقی پرنسپل اپریزر نے لاہور میں بہت کارکردگی دکھائی۔ ہماری قابل فخر فوج جو تقریباً 8/7 لاکھ ہے آج دنیا بھر میں وطن عزیز کے اندرونی، بیرونی دشمنوں سے نبرد آزما ہے۔ کسٹم میں چند درجن دیانت دار افسران کلکٹر لاہور ایئرپورٹس کو دینا (یعنی رپورٹ دینا کہ کون دیانت دار ہے) ان کے لیے مسئلہ نہیں ہے۔
وطن عزیز میں ایف بی آر کی تنظیم نو اور ایئرپورٹس کے نظام میں تبدیلی موجودہ کلکٹر ایئرپورٹس لاہور کی حد تک تو قابل ستائش ہے اس میں فیک نیوز کے ذریعے ہراساں کرنے اور بدنام کرنے والوں کی سرکوبی کرنی چاہیے بلکہ ان کے یو ٹیوب چینلز اور خبریں سوشل میڈیا ونگ ایف آئی اے کے سپرد کرنا چاہئیں۔
ویسے تو حکومت نے ان کے دو دانت بھی ڈال کر لاہور کلکٹرٹس کے تحت چلنے والے ایئرپورٹس کی حد تک توڑ دیئے اب چیخیں مار رہے ہیں۔ یہ بد روحیں الزامات اور افواہوں پر گزر کر رہی ہیں۔ (جاری ہے)

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: لاہور میں

پڑھیں:

باکو-لاہور پی آئی اے کی براہ راست پروازوں سے سیاحت کو فروغ دیا جاسکے گا، وزیراعظم

لاہور: وزیراعظم شہباز شریف نے لاہور سے آذربائیجان کے دارالحکومت باکو کے لیے پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن (پی آئی اے) کی براہ راست پروازوں کے آغاز کو سفارتی فتح قرار دیا اور کہا کہ اس سے سیاحت کو فروغ دیا جا سکے گا۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے پی آئی اے کی لاہور تا باکو براہ راست پروازوں کے آغاز پر اظہار مسرت کیا۔
انہوں نےکہا کہ باکو اور لاہور کے درمیان پی آئی اے کی براہ راست پروازوں کے آغاز سے شعبہ سیاحت کو فروغ دیا جا سکے گا، لاہور تا باکو براہ راست پروازوں کی طرز پر دیگر دوست ممالک کے ساتھ پی آئی اے کی براہ راست پروازیں جلد شروع کی جائیں گی۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ سفارتی سطح پر پاکستان کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے اور آذربائجان اس خطے میں پاکستان کے بہترین دوستوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاحت سمیت دیگر شعبوں میں آذربائجان کے ساتھ اشتراک کے لیے کوشاں ہیں۔
قبل ازیں لاہور سے باکو کے لیے پی آئی اے کی براہ راست پرواز کا آغاز کرتے ہوئے پہلی پرواز پی کے 159 لاہور سے 152 مسافروں کو لے کر 11 بج کر 50 منٹ پر روانہ ہوگئی۔
پی آئی اے کی باکو کے لیے پہلی پرواز کی روانگی کے موقع پر لاہور ایئرپورٹ میں تقریب منعقد کی گئی، جس کے مہمان خصوصی وزیردفاع خواجہ آصف تھے۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • سندھ میں کچے کے علاقے سے اغوا کسٹم اہلکار بازیاب
  • وفاقی حکومت نے پاکستان کے نوجوانوں کی سماجی و معاشی خودمختاری کے لیے درجنوں پروگرامز شروع کیے ہیں،چیئرمین یوتھ پروگرام رانا مشہود
  • بچوں کے روشن مستقبل کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائیگا :  پولیو کے مکمل خاتمہ تک چین سے نہیں بیٹھیں گے : وزیراعظم : لاہور سے باکو پیآئی اے کی براہ ست پر وازوں کا آگاز سفارتی فتح قرار
  • سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر ملکی وقار کیلئے کام کر رہے ہیں: گورنر پنجاب
  • باکو-لاہور پی آئی اے کی براہ راست پروازوں سے سیاحت کو فروغ دیا جاسکے گا، وزیراعظم
  • باکو-لاہور پی آئی اے کی براہ راست پروازوں سے سیاحت کو فروغ دیا جاسکے گا، وزیراعظم
  • سپہ سالار کی حالیہ تقریر نے دشمن کو مایوس کر دیا، گورنر پنجاب سلیم حیدر
  • سپہ سالار کی حالیہ تقریر نے دشمن کو مایوس کر دیا، گورنر پنجاب
  • ایئرپورٹس کے آرائیول و ڈیپارچر کاونٹرز پر سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کا حکم
  • انسانی سمگلنگ اور گداگری روکنے کیلئے تمام ایئرپورٹس پر کیمرے لگانے کا فیصلہ