WE News:
2025-04-22@14:15:58 GMT

جاوید احمد غامدی کا متنازع ویڈیو کلپ اور اس پر اعتراضا ت

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

جاوید احمد غامدی وہ اسکالر ہیں جن کا میں احترام کرتا ہوں، اگرچہ ان کی کئی آرا سے شدید اختلاف ہے۔ میں عالم دین نہیں، مذہبی حوالوں سے ایک عام آدمی کی حیثیت ہے، اس لیے فقہی، مذہبی حوالوں سے کسی عالم دین کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینے سے قاصر ہوں، کسی کو گمراہ کہنا بھی میرے پیمانے سے بڑا کام ہے۔

انفرادی طور پر مجھے یہ زیادہ سہل اور محفوظ لگتا ہے کہ اپنی دینی روایت کے ساتھ جَڑَت رکھیں اور زیادہ باریکیوں میں جائے بغیر سیرت مبارکہ کے مطالعے سے اسوہ حسنہﷺ کی پیروی کریں اور اچھے مسلمان بننے کی کوشش کریں جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں۔

جاوید احمد غامدی کا اپنا ایک خاص اسکول آف تھاٹ ہے، اس پر ہمارے روایتی مذہبی حلقے اور بیشتر دینی اسکالرز شدید تنقید کرتے رہتے ہیں۔ جاوید احمد غامدی کی فکر پر ٹھوس علمی تنقید بھی بہت ہوئی ہے، کئی کتب، بہت سے مقالات اور مضامین لکھے گئے ہیں۔

ایک زمانے میں محمد دین جوہر نے اس پر اپنے جریدے ’جی‘ کا ایک خاص شمارہ نکالا تھا جس میں نادر عقیل انصاری کا وقیع مقالہ بھی شامل تھا۔ نادر عقیل انصاری کے حلقہ سے بعض احباب کاشف شیروانی، طارق ہاشمی وغیرہ نے ایک علمی جرید ہ ’حرف نیم گفتہ‘ بھی نکالا ہے جس میں غامدی اسکول آف تھاٹ پر تنقید چھپتی رہتی ہے۔

کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر مشتاق خان کی ایک کتاب موصول ہوئی۔غامدی فکر پرشائد یہ سب سے اچھی اور ٹھوس علمی تنقید ہے۔ یہ تنقید اپنے اندر وزن رکھتی ہے، اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میں جاوید احمد غامدی کا فکری حامی یا پیروکار نہیں ہوں۔ ان سے اختلاف رکھتا ہوں، تاہم یہ بات پسند ہے کہ انہوں نے بڑی شائستگی سے اپنی مختلف آرا پر مبنی ویڈیوز کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

جاوید احمد غامدی نے ایک طویل ویڈیو سیریز ان اعتراضات کے جواب دینے پر بنا رکھی ہے۔ ہر وہ اعتراض جو مختلف علما اور ناقدین غامدی فکر پر کرتے ہیں، ان کا جواب جاوید احمد غامدی نے اپنی ویڈیوز میں دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ کامیاب ہوئے یا نہیں، یہ الگ بحث ہے، مگر اچھی بات یہ کہ وہ اپنا مؤقف پوری تفصیل، وضاحت اور علمی شائستگی کے ساتھ دوسروں کے سامنے رکھ رہے ہیں۔کاش ہمارے دیگر علما بھی ایسا کریں۔ چند ایک اپنا ولاگ کرتے ہیں مگران کی توجہ سوشل میڈیا ویوز لینے پر زیادہ رہتی ہے۔

مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی کی ایک ویڈیو پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر بحث مباحثے کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ یار لوگوں نے دھڑا دھڑ پوسٹیں کیں اور جاوید احمد غامدی پر خوب تبریٰ کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے احباب ان پر تندوتیز حملوں میں سرفہرست رہے۔ انہیں یہ لگا کہ جاوید احمد غامدی نے حکومتی یا اسٹیبلشمنٹ کے مؤقف کی تائید کی ہے۔

 دلچسپ بات یہ ہے کہ جاوید احمد غامدی کے بعض ایسے مداحین اور فکری ہمعصر بھی برہم ہوگئے جو سیاسی اعتبار سے پاکستان تحریک انصاف کے حامی ہیں۔ سیاسی تعصبات شائد مذہبی فکری معاملات سے زیادہ گہرے اور مؤثر ہوتے ہیں۔

پچھلے 2، 3 برسوں میں کئی بار ایسا ہوا کہ جو بات سنی، وہ اصلاحاً مختلف نکلی۔اس لیے اب کوشش ہوتی ہے کہ فرسٹ ہینڈ انفارمیشن لینے کے بعد ہی رائے بنائی اور دی جائے۔

جاوید احمد غامدی کی ویڈیو خود سنی، پھر اس پر جو اعتراضات کیے گئے، وہ بھی سنے۔ جاوید احمد غامدی نے تنقید کے بعد ایک وضاحتی ویڈیو بنائی، وہ بھی سنی، بعض ’انصافیئن‘ دوستوں نے ڈاکٹر معید پیرزادہ کے ایک تنقیدی ولاگ کا ذکر بھی کیا۔ اسے بھی نمٹا لیا، اس کے بعد ہی یہ تحریر لکھنے کا ارادہ کیا۔

جاوید احمد غامدی پر تنقید کے بہت سے مواقع اور کئی اسباب موجود ہیں۔ان سے کماحقہ استفادہ کیا بھی جا رہا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جو بات جتنی ہے، اتنی ہی کی جائے۔ جاوید احمد غامدی کے مذکورہ ویڈیو کلپ کے ساتھ غیر ضروری حساسیت سے برتاؤ کیا گیا، پی ٹی آئی کے لوگوں کو نجانے اس میں ایسا کیا نظرآیا جس پر انہوں نے تنقید کی؟ جاوید احمد غامدی نے وہی باتیں کی ہیں جو وہ برسوں سے کہتے چلے آئے ہیں۔

یہ ان کی مخصوص فکر کا تسلسل ہی ہے۔ 3، 4 سادہ سے نکات ہیں اور ہاں یہ ویڈیو بھی اچانک نہیں ٹپک پڑی بلکہ شام میں آنے والی تبدیلی کے بعد کئی ویڈیوز کی ایک سیریز چل رہی تھی جس میں پاکستان کے حوالے سے یہ موضوع زیربحث آیا، جاوید احمد غامدی کی ویڈیو کے مرکزی نکات درج ذیل تھے۔

1۔کسی ملک یا قوم کی حفاظت کی ذمہ داری اصل قوت نے ادا کرنی ہوتی ہے اور دورحاضر میں قوت کسی (پرائیویٹ)لشکر میں نہیں بلکہ ریاست اور اس کی فوج میں مرتکز ہوتی ہے۔ ہمارا ملک فوج کی قوت سے قائم ہے اور یہ ایک ناگزیر ضرورت ہے۔

فوج کے بغیرملک کا تصور نہیں، پھر وہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہی بن جائیں گے جیسا کہ آج کل شام وغیرہ میں ہے کہ ملک ایک سے زیادہ لشکروں میں منقسم ہے، کچھ پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا، کچھ پر کردوں کا کنٹرول ہے۔ایک طرح سے حصے بخرے ہو چکے ہیں۔ اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ پاکستان میں اگر ایسا نہیں تو اللہ کی عنایت سے فوج کے باعث ہے اور ملک کو اس طرح کے انتشار، اختلاف وغیرہ سے محفوظ رکھنا چاہیے۔

  2۔ ہمارے ملک کے جو حالات ہیں، اس میں اچانک برطانوی طرز کی جمہوریت رائج نہیں ہوگی۔ تدریجی طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ جمہوریت یا جمہوری روایات کے لیے پہلے بھی خاصا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر انارکی اور انتشار ہی پیدا ہوگا اور ایسی صورتحال میں جب انارکی اور انتشار اور ملوکیت میں سے کسی کا انتخاب کرنا پڑے تو پھر ملوکیت ہی چننا ہوگی۔ ہمارے ہاں بھی اگر انتشار، انقلابی نعروں یا فوج میں سے کسی کا انتخاب کرنا ہو تو پھر فوج کو ہی لینا چاہیے۔

اس دوسرے نکتے کی وجہ سے شائد پاکستان تحریک انصاف یا اینٹی اسٹیبلشمنٹ حلقے جاوید احمد غامدی پر زیادہ ناراض اور ناخوش ہوئے ہیں۔ جاوید احمد غامدی کے اپنے دلائل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں چونکہ دستوری بادشاہت بھی نہیں ہے کہ لوگ اس سے جڑے رہیں تو اگر حکومتی نظم ونسق درہم برہم ہوجائے گا، انتشار اور تقسیم حد سے زیادہ بڑھ گئی تو پھر تباہی آئے گی، جس سے ہرحال میں بچنا چاہیے۔

جاوید احمد غامدی کا ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اگر ملک میں جمہوریت لانی ہے تو پھر سیاسی لوگوں کو اپنے اندر جمہوریت لانا ہوگی۔ ان جماعتوں پر چند خاندانوں کا غلبہ نہ ہو، وہ نیچے سے اوپر اٹھے، اس میں جمہوری کلچر ہو، کارکن کو بھی آگے آنے کا موقعہ ملے۔ دوسری جانب دستور یعنی آئین ہمارے ہاں موجود ہے، اس پر اتفاق رائے بھی ہے۔

  جاوید احمد غامدی کے مطابق ہمیں پاکستان میں کسی انقلاب کی ضرورت نہیں۔ یہ تدریجی عمل کے ذریعے ہوگا۔ 2 کام کرنا ہوں گے۔ ایک حقیقی جمہوری سیاسی کلچر رکھنے والی سیاسی جماعتیں بنانا جبکہ دوسرا کام عوام میں شعور کا لیول بلند کرنا۔

 جاوید احمد غامدی کا کہنا ہے کہ جب قوم کا شعور بہتر اور بلند ہوگا تو پولیس، انتظامیہ، فوج غرض ہر شعبے میں زیادہ میچور لوگ آگے آئیں گے اور تبدیلی بتدریج آتی جائے گی۔ یہ شعور سیاسی جدوجہد پیدا کرتی ہے، دانشور، علما دین بھی اسے پیدا کرتے ہیں۔ تاہم اگر سیاسی جدوجہد کو فوج کے مقابل کھڑا کر دیں تو پھر انتشار پیدا ہوگا جس کی ہرگز حمایت نہیں کی جا سکتی۔

جاوید احمد غامدی سے اس پر سوال پوچھا گیا کہ ہمارے ہاں مقتدر قوتیں پیچھے ہٹنے اور سیاسی جماعتوں، سیاستدانوں کو سپیس دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، تو ایسے میں تدریج کا عمل کب اور کیسے شروع ہو؟ اس پر جاوید احمد غامدی نے طویل جواب دیا جس میں کمزوری محسوس ہوئی۔

مثلاً انہوں نے کہا کہ ایک زمانے میں ہمارے ہاں تصور ہی نہیں تھا کہ کوئی آزاد اخبار قائم ہوسکتا ہے یا ایک سے زیادہ چینل بن سکتے ہیں۔ جاوید احمد غامدی تک یہ اطلاع شائد نہیں پہنچی کہ پاکستان میں آزاد اخبار نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی اور نیوز چینل بے شک درجنوں میں ہیں، مگر کسی کے پاس خبر نشر کرنے کی آزادی یا اختیار نہیں۔ سپیس مزید سے مزید کم ہورہی ہے۔

جاوید احمد غامدی کا پورا زور بہرحال اسی پر رہا کہ فوج کے خلاف عوام کو کھڑا کرنا غلط ہے،کسی بھی صورت میں ملک کے اندر انتشار یا انارکی پیدا نہیں ہونی چاہیے اور سیاسی جماعتیں اپنا کام تو کریں، اپنی پارٹی میں وہ کیوں نہیں جمہوریت لاتے، جبکہ اس پر کبھی کوئی پابندی نہیں لگتی۔

اس ویڈیو میں جاوید احمد غامدی نے ایک غلطی کی کہ جس قدر زور انہوں نے اختلاف وانتشار سے بچنے کے لیے سیاسی جماعتوں اور عوام کو سمجھانے میں لگایا، اس کا دسواں حصہ بھی اگر مقتدر قوتوں کو بھی نصیحت کرنے میں لگاتے تو شائد ویڈیو کچھ بیلنس ہوجاتی۔

اس پہلے ویڈیو کلپ پر جب سخت تنقید ہوئی تو انہیں دوسرا ولاگ بھی کرنا پڑا جس میں جاوید احمد غامدی نے زیادہ کھل کر تفصیل سے مقتدر قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے غیر سیاسی، غیر جمہوری رویے پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ وہ ماضی میں بھی بہت بار کہہ چکے ہیں کہ سیاست صرف سیاستدانوں کے لیے چھوڑ دی جائے اور ہر کوئی اپنا کام کرے۔

جاوید احمد غامدی نے یہ بھی کہا کہ جو سیاسی پراجیکٹ شروع کیے جاتے ہیں، سیاسی نرسریاں لگائی جاتی ہیں، یہ بھی غلط اور تباہ کن ہیں، بعدمیں پچھتانا پڑتا ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ کسی چلتی ہوئی سیاسی حکومت کو یوں مداخلت کر کے ہٹانا ایک طرح سے گناہ کبیرہ کے مترادف ہے۔ اگر ایسی بات وہ پہلی ویڈیو میں کہہ دیتے تو پھر یہ تنازع جنم ہی نہ لیتا۔

میرا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے لوگوں کے لیے اب جاوید احمد غامدی کی رائے کو سمجھنا زیادہ آسان ہوجائے گا۔ ویسے تو پاکستان تحریک انصاف بھی آفیشلی کسی بغاوت کے حق میں نہیں۔ وہ انتشاریا انارکی بھی نہیں چاہتے۔ ان کا البتہ یہ اعتراض ضرور ہے کہ غیر سیاسی قوتوں کو سائیڈ پر ہوجانا چاہیے۔ سیاسی معاملات مینیج نہ کیے جائیں اور ملک میں صاف و شفاف انتخابات کرائے جائیں، عوام کے مینڈیٹ کا احترام ہو، وغیرہ وغیرہ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

آئین اختلافات اعتراضات اقتدار پاک فوج پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی تحریک انصاف تنقید جاوید جاوید احمد غامدی شائستگی علما فکر فوج قوت مذمت ناقدین وضاحت وی نیوز ویڈیو.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اعتراضات پاک فوج پاکستان تحریک انصاف پی ٹی ا ئی تحریک انصاف جاوید جاوید احمد غامدی فوج قوت وی نیوز ویڈیو جاوید احمد غامدی کی جاوید احمد غامدی کے جاوید احمد غامدی نے جاوید احمد غامدی کا ہمارے ہاں انہوں نے سے زیادہ کے ساتھ کہا کہ کے لیے فوج کے کے بعد

پڑھیں:

گورننس سسٹم کی خامیاں

پاکستان میں طرز حکمرانی اور داخلی و خارجی معاملات پر مسلسل سوالات اٹھائے جاتے ہیں، اس نظام پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔اسی کے ساتھ ملک کو سیکیورٹی و معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ اصل میں حکمران طبقہ حکمرانی کی فرسودگی کو یا تو سمجھنے کا ادراک نہیں رکھتے یا ان کی ترجیحات میں ان مسائل کا حل شامل نہیں ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہم عملاً حکمرانی کے نظام کے تناظر میں متعدد تجربات کے باوجود ناکامی کا شکار ہیں۔ اسی طرح ہم دنیا میں ہونے والے بہتر حکمرانی کے تجربات کی بنیاد پر بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے تناظر میں طرز حکمرانی کے مسائل کی اسٹیبلشمنٹ نے بھی نشاندہی کی تھی اور ان کے بقول اگر ہم نے گورننس کے بحران کو ترجیح بنیادوں پر حل نہ کیا تو دہشت گردی سے نمٹنا بھی آسان نہیں ہوگا ۔

حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف کے قانونی مشن نے اپنے 12 روزہ دورے کا اختتام کیا ہے۔ یہ تفصیلی رپورٹ اس برس اگست میں آنے کی توقع ہے۔یہ رپورٹ کرپشن کی امکانات کو ختم کر کے اور میرٹ کی بنیاد پر فیصلوں کے ذریعے زیادہ شفافیت کو یقینی بنا نے اور پبلک سیکٹر کے نتائج کو بہتر بنانے کے لیے اپنی سفارشات پیش کرے گی۔

آئی ایم ایف نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں سیاست زدہ بیورو کریسی،کمزور احتساب پر مبنی نظام،قلیل مدتی اہداف پاکستان کی اہم خامیاں ہیں۔ان کے بقول پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں اہم افراد یا عہدے دار سیاسی وفاداریاں رکھتے ہیں اور اداروں کے سربراہوں کی تقرری بھی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے۔اسی طرح پاکستان پاکستان میں بدعنوانی کے خلاف بھی کوئی مستقل پالیسی نہیں ہے ۔

 آئی ایم ایف نے ابتدائی طور پر جن مسائل کی نشاندہی کی ہے وہ اہمیت رکھتے ہیں۔کیونکہ ہمارا بیوروکریسی پر مبنی نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے اور اس نظام کی موجودگی میں گورننس کے نظام کی شفافیت کی توقع رکھنا محض خوش فہمی ہے۔اس بات کی درست طورپر نشاندہی کی گئی ہے کہ جب حکمران طبقہ انتظامی اداروں کو سیاسی بنیادوں پر چلائے گا یا اہم عہدوں پر میرٹ سے زیادہ سیاسی بنیادوں کو بنیاد بنا کر تقرریاں اور تبادلے کیے جائیں گے تو پھر نظام کی شفافیت کا سوال بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔

آئی ایم ایف نے کمزور احتساب کے نظام کی بھی نشاندہی کی ہے۔ ہمارے بہت سے سیاسی پنڈت یا دانشور یا کاروباری طبقات کے بڑے افراد کرپشن کو ایک بڑا مسئلہ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ان کے بقول سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن اس نظام کا حصہ ہے اور ہمیں اس کو قبول کرنا ہی ہوگا۔

یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں جب بھی کرپشن کی یا احتساب پر مبنی نظام کی بات کی جاتی ہے تو یہ سارا عمل سیاسی طور پر متنازعہ بن جاتاہے یا اس کو متنازعہ بنادیا جاتا ہے۔پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لیے جو بھی ادارے بنائے گئے ہیں وہ خود بھی کرپشن کا شکار ہیںیا ان پر اس حد تک سیاسی دباؤ ہے کہ وہ شفافیت کی بجائے سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔

پاکستان میں گورننس کے مسائل محض آئی ایم ایف کی پیش کردہ نکات تک محدود نہیں ہیں بلکہ اور بھی مسائل ہمیں حکمرانی کے نظام میں درپیش ہیں۔مثال کے طور پر عدم مرکزیت کے مقابلے میں مرکزیت پر مبنی نظام جہاں اختیارات کا مرکز کسی ایک سطح تک محدود ہوتا ہے یا ہم سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔

اسی طرح سے پاکستان میں حکمرانی کے نظام میں موجود جو سائز آف گورننس ہے وہ ریاستی اور حکومتی نظام پر نہ صرف سیاسی اور انتظامی بوجھ ہے بلکہ اس کی بھاری مالیاتی قیمت بھی ہمیں ادا کرنی پڑ رہی ہے۔

بے تحاشہ ادارے،محکمے اور ان کے سربراہان کی فوج در فوج سے نہ تو عوام کے مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ یہ موجودہ نظام میں کوئی شفافیت کا عمل پیدا کر سکے ہیں۔دنیا کے جدید حکمرانی کے نظام میں نچلی سطح پر موجود مقامی حکومتوں کے نظام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔لیکن ہم مسلسل مقامی حکومتوں کو نظر انداز کررہے ہیں۔

حالانکہ پاکستان کے آئین میں اس وقت بھی تین سطحوں پر حکومت کا تصور موجود ہے یعنی وفاقی،صوبائی اور مقامی حکومتیں لیکن اس کے باوجود ہمارا ریاستی نظام مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی کا شکار نظر آتا ہے۔مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی بنیادی طور پر ریاست،حکومت اور عوام کے درمیان ایک بڑی خلیج کو پیدا کرتی ہے اور یہ خلیج ان فریقوں میں بد اعتمادی کے ماحول کو پیدا کرنے کا سبب بھی بنتی ہے۔

بااختیار مقامی حکومتی نظام معاشرے میں موجود کمزور اور محروم طبقات کے مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔لیکن ہمارا حکمرانی کا نظام طبقاتی تقسیم کا شکارہے اور اس تقسیم میں طاقتور طبقات کے مفادات کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔جب کہ اس کے مقابلے میں کمزور طبقات مختلف سطح پر استحصال کاشکار ہوتے ہیں۔

 18 ویں ترمیم کی منظوری کہ باوجود بھی ہم صوبائی یا مقامی سطح پر حکمرانی کے نظام سے جڑے مسائل حل نہیں کر سکے ہیں۔ماضی میں وفاق کا نظام مرکزیت پر مبنی تھا تو آج صوبائی حکومتوں کا نظام صوبائی مرکزیت کا شکار نظر آتا ہے۔

اس طرز عمل کی وجہ سے صوبوں میں موجود ضلعوں کا نظام نہ صرف کمزور ہے بلکہ اپنی افادیت کھوتا جا رہا ہے۔ایک طرف سیاسی نظام میں موجود سیاسی طاقتور افراد ہیں جو قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی صورت میں سیاسی نظام پر قابض نظر آتے ہیں تو دوسری طرف بیوروکریسی ہے جو نظام کی شفافیت میں خود بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

اسی طرح سے ہمیں سیاسی اور بیوروکریسی پر مبنی نظام کا ایک ایسا کٹھ جوڑ بالادست نظر آتا ہے جو عوامی مفادات سے زیادہ اپنے ذاتی سطح کے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ہمارے ہاں وفاقی،صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ادارے اپنے اپنے سیاسی، آئینی اور قانونی دائرہ کار میں کام کرنے کے عادی نہیں ہیں۔

ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کرنا ہمارے نظام کی اہم خصوصیت بن چکی ہے۔قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی دلچسپی قانون سازی یا پالیسی سازی کی شفافیت کی بجائے ترقیاتی فنڈ تک محدود ہوتی ہے اور اس وجہ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان خود بھی ایک مضبوط اور مربوط مقامی حکومتوں کے نظام کے عملی طور پر خلاف ہیں ۔

ایک طرف ہم اپنے نظام کو عوام کے منتخب نمائندوں کی بنیاد پر چلانا چاہتے ہیں تو دوسری طرف ہماری ترجیحات عوام کے منتخب نمائندوں کے مقابلے میں بیوروکریسی پر حد سے بڑھتا ہواانحصار ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ خود ارکان اسمبلی موجودہ نظام سے ناخوش نظر آتے ہیں۔ 

ہم عملاًحکومتوں کے مقابلے میں یا منتخب نمائندوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بجائے کمپنیوں اوراتھارٹیوں کی بنیاد پر صوبوں کے نظام کوچلانااپنی ترجیح سمجھتے ہیں۔یہ دوہرے معیارات اورمختلف تضادات پر مبنی پالیسیوں نے حکمرانی کے نظام کواور زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔

یہ نظام جہاں اپنی افادیت کھوتا جا رہا ہے وہیں اس کی ساکھ پر بھی بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔حکمران طبقات کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں یا ان کی پسند پر مبنی حکمرانی کا یہ نظام لوگوں کو سیاسی اور معاشی طور پر تنہا کر رہا ہے۔ان کو لگتا ہے کہ اس نظام میں بہتری کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے ۔لیکن اس کے برعکس اگر ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے طرز عمل کو دیکھیں توان کے بقول ملک ترقی کی جانب گامزن ہے۔حکمرانوں اور عوام کی سوچ و فکر میں یہ تضاد ہمارے حکمرانی کے نظام کی خرابی کواور زیادہ نمایاں کرتاہے۔

متعلقہ مضامین

  • متنازع نہروں کے خلاف دھرنا، ہر گھنٹے میں صورت حال خراب ہورہی ہے، کراچی چیمبر
  • 26 نومبر ڈی چوک احتجاج کیس: پی ٹی آئی وکلاء کی جانب سے آج بھی گواہوں پر جرح نہ ہوسکی
  • ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں،ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ کے صنم جاوید کی بریت فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل پرریمارکس
  • جے یو آئی، جماعت اسلامی اتحاد خوش آئند ہے، حکومت کو خطرہ نہیں، ملک محمد احمد خان
  • پاکستان میں سیاسی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے، طلال چودھری
  •  نواز شریف اور شہباز شریف نے متنازع کینال منصوبے پر پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت کردی
  • بھارت میں متنازع وقف ترمیمی بل کیخلاف علما و مشائخ کا احتجاج
  • گورننس سسٹم کی خامیاں
  • نہروں کا معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرلیں گے، اس پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
  • انصاف کی لٹیا ڈبو دی گئی ہے اور اب قبر کھودی جارہی ہے، شیخ رشید احمد