Jasarat News:
2025-04-23@09:31:30 GMT

مزمت کیوں نہیں کرتے

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

مزمت کیوں نہیں کرتے

حکومت اور عمران خان کی مذاکراتی ٹیمیں اپنا ہنر آزما رہی ہیں۔ ایک کی زمامِ کار مقتدرہ کے ہاتھ میں ہے تو دوسری کی عمران خان کے پیچھے، جو نیت پیش امام کی وہی نیت ہماری، کی محتاج ہے۔ حکومتی ٹیم کو عمران خان کی ٹیم کی زبانی کلامی باتوں پر اعتبار، نہیں وہ تحریراً مذاکرات کے مطالبات طلب کررہی ہے تو عمران خان کے ساتھی تقریر میں مدعا بیان کررہے ہیں دونوں یوں ناک اونچی رکھنے کے لیے وقت گزارنے والے ہتھکنڈوں میں مصروف ہیں۔ عمران خان کی ٹیم کو 20 جنوری کا انتظار ہے جب ٹرمپ امریکا کا حکمران بن کر جلوہ افروز ہوں گے اسی امریکا کی خوشنودی کی خاطر عمران خان کی تحریک انصاف نے غزہ کانفرنس میں یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ ہم حکومت کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے ہماری کمر میں چُک پڑ جائے گی اور اب اسی حکومت کی ٹیم سے مذاکرات کے لیے حاضر ہیں۔ بس سمجھ لیں ’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘ کا گورکھ دھندہ ہے۔ ریاست مدینہ کے دعویدار عمران خان، قرآن کے اس فرمان کو یاد فرمالیں ’’مومن مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست اور مددگار نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہ ہوگا‘‘۔ (آل عمران) دراصل عمران خان اپنے ماضی سے دامن نہیں چھڑا رہے ہیں کہ جب انہوں نے کرکٹ کے دلدادہ نوجوانوں میں ورلڈ کپ جیت کر مقبولیت حاصل کی۔ پھر حکیم محمد سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد کی زبانی عالم کفر نے ان کو ہتھیانے اور پاکستان کا حکمران بنانے کا پروگرام بنالیا۔

سیاست کا کھیل دولت کا ہے سو گولڈ اسمتھ کی بیٹی سے شادی کرادی گئی اور شوق اقتدار جاگا تو امریکا کے یار پرویر مشرف کی گود میں لا بٹھایا۔ مگر مروجہ انتخابی طریقہ کار میں وہ فٹ نہ بیٹھ سکے۔ پرویز مشرف مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی اقتداری الٹ پلٹ سے تنگ تھے مگر عمران خان بھی اناڑی سیاست دان تھے سو ان کو سمجھایا گیا کہ ان دو پارٹیوں کی مخالفت کرو، اور فٹ بال کا گیم کرکٹ کے کھلاڑیوں سے ہرگز نہیں جیتا جاسکتا۔ فٹ بال بنے بغیر اقتدار خیال است ومحال است سو یہ فٹ بال بن گئے تا کہ مقتدرہ کی کک سے گول میں داخل ہو کر حکمران بن جائیں۔ اور اقتدار کی ہوس ان کو بشریٰ نامی بی بی کی چوکھٹ پر لے گئی اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ اس بشریٰ بی بی کے کہنے پر عمران خان ایک مزار کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوگئے اور ربّ کی بارگاہ سے دور ہو کر شرک کا ارتکاب کر بیٹھے۔ اقتداری فٹ بال کے مقتدرہ نے ایک کک کے ذریعے عمران خان کو اقتدار کے گول میں لا پھینکا۔ مقتدرہ تیسری سیاسی قوت کے اجرا کے شوق میں تیسری دنیا بسا بیٹھی اور وہ کچھ حاصل نہ کرسکے جو مدعا تھا تو پھر اُن ہی گاجروں کا حلوہ مولانا فضل الرحمن کی امامت میں تیار کیا اور پھر جس نے اقتدار عمران کو دلایا، انہوں نے جیل کی راہ دکھادی اور جعلی انتخابی عمل کے حکمران بنادیے، کیا ہوگا اب عمران خان کاجنہوں نے اقتدار کی خاطر غیر اللہ کو سجدہ کرکے اسلامی غیرت کا قلاوہ اتار پھینکا۔

مجھے تاریخ کا قصہ یاد آرہا ہے جو اس سے ملتا جلتا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک عبادت گزار شخص غار میں ریاضیت کرتا تھا اس کی نیک نامی روز بروز مقبولیت پارہی تھی اور شیطان تائو کھا رہا تھا۔ شیطان نے اُسے بھٹکانے اور کوڑا دان کا راستہ دکھانے کے لیے ایک خوبرو عورت کو اُس کے پاس بھیجا جس کی گود میں ایک معصوم بچہ، ہاتھ میں شراب کی بوتل اور اپنا خوب صورتی کا ہتھیار تھا۔ وہ اس کے پاس آئی اور کہا کہ تین کاموں میں سے ایک کام کر مجھ سے زنا، بچہ کا قتل یا پھر شراب کا شغل۔ ورنہ میں شو مچا کر تجھے رسوا کروں گی۔ جنسی حراسگی کا الزام لگا کر تیری ساری عزت و توقیر خاک میں ملادوں گی، وہ شخص گھبرا گیا اور شراب کو گلو خلاصی کا آسان راستہ جانا۔ شراب نے مدہوش کیا تو پھر بچہ کا قتل اور عورت سے زنا کا فعل بھی سرزد ہوگیا۔ فاحشہ عورت اپنے مقصد میں کامیاب ٹھیری۔ بات عدالت تک گئی، جرم پر پھانسی کا حکم ہوا، شیطان پھانسی کے مرحلہ میں آموجود ہوا۔ اُس نے بتایا کہ میں نے ہی تجھے اس عورت کے ذریعے پھنسایا اب راہ نجات بھی میں ہی ہوں۔ مجھے سجدہ کر جان بخشی ہوجائے۔ اُس نے آئو دیکھا نہ تائو سجدہ شیطان کو کر ڈالا۔ شیطان نے زور دار قہقہہ لگایا کہ دنیا ہی سے نہیں تو آخرت کی مغفرت سے بھی گیا۔ میں تو دشمن اولاد آدم ہوں۔

عمران خان کا غیراللہ کو سجدہ تباہی کا نکتہ آغاز تھا۔ اور وہ شیطان امریکا کے چنگل میں پھنس گیا اور ربّ کی خوشنودی اور توبہ تائب ہی اس کی بقا دنیا و اُخروی کا راستہ ہے۔ پلٹ آئو صراط مستقیم کی طرف امریکا کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کا خوب جملہ ہے امریکا دنیا کا سب سے بڑا طاغوت ہے جو اس کے ساتھ چلے گا وہ اسلام اور پاکستان کے خلاف چلے، عمران خان اس طاغوت کی مذمت کیوں نہیں کرتے یہ سوال اب گردش ایام ہے۔
’’تو جھکا جب غیر کے آگے، نہ من تیرا نہ تن‘‘

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عمران خان کی

پڑھیں:

ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کے بعد ان کے اقدامات اور بیانات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 100 دن 30 اپریل کو مکمل ہو رہے ہیں اور اب تک صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔

78 سالہ صدر ٹرمپ نے ایک ایونٹ میں کہا کہ میرا دوسرا دورِ حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں 'یہ کام کرو تو وہ کام ہو جاتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی کا دفاع کیا اور سب سے پہلے امریکا کے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

امریکی صدر نے اپنی سمت کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کر رہے ہیں۔

البتہ ان کے ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔

سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتے اور ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے خود کو ایک "ریئلٹی شو" کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

ٹرمپ کے ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ نئے صدر کے دوسرے دور میں وائٹ ہاؤس میں مخصوص اور من پسند نیوز اداروں کو رسائی دی جارہی ہے۔

علاوہ ازیں عدلیہ کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ جارحانہ رہا ہے جہاں انہوں نے ماضی کے مقدمات میں شریک کئی لاء فرمز کو سخت معاہدوں میں جکڑ دیا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کی تکمیل پر ان کی مقبولیت تمام جنگ عظیم دوم کے بعد صدور میں سب سے کم ہے۔ سوائے خود ان کے پہلے دور کے۔

ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکاؤسکی نے کہا کہ ہم سب خوف زدہ ہیں جبکہ پروفیسر باربرا ٹرش کا کہنا تھا کہ صدر آئینی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کر رہے ہیں۔

ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تقلید میں گرین لینڈ، پاناما اور کینیڈا پر علاقائی دعوے کرتے ہوئے امریکی اثرورسوخ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔

ٹرمپ نے تعلیمی اداروں، جامعات اور ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو ایک اہم آرٹس سینٹر کا سربراہ مقرر کیا اور ڈائیورسٹی پروگرامز کو ختم کر دیا ہے۔

اسی طرح تارکین کو پکڑ پکڑ کر دور دراز علاقے میں قائم خطرناک جیلوں میں زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔

یاد رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اُٹھایا تھا اور اسی دن چند اہم لیکن متنازع اقدامات کی منظوری دی تھی۔ 

متعلقہ مضامین

  • نئی نہروں کے معاملے پر  وزیر اعظم بے بس ہیں تو اقتدار چھوڑ دیں، ندیم افضل چن
  • رشبھ کو چنائی سُپر کنگز نے اسکواڈ حصہ کیوں نہیں بنایا؟ وجہ سامنے آگئی
  • پہلگام حملے کے بھارتی فالس فلیگ ڈرامے پر کئی سوالات اٹھ گئے
  • مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا
  • ’وہ عیسائی نہیں ہوسکتا‘ پوپ فرانسس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایسا کیوں کہا؟
  • یہ سونا بیچنے کا نہیں بلکہ خریدنے کا وقت ہے، مگر کیوں؟
  • حکومتی ارکان مائنز اینڈ منرلز بل پر رو رہے ہیں کابینہ نے کیوں منظور کیا؟ اپوزیشن لیڈر کے پی
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
  • فائیوجی اسپیکٹرم کی نیلامی کیوں نہیں ہورہی، پی ٹی اے نے اندر کی بات بتادی
  • یو این او کو جانوروں کے حقوق کا خیال ہے، غزہ کے مظلوموں کا کیوں نہیں،سراج الحق