افغانستان کے لیے کارگو نگرانی کا سیٹلائٹ ٹریکنگ نظام ختم۔اسمگلنگ میں اضافے کاخدشہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
کراچی (اسٹاف رپورٹر) وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے افغانستان کے لیے درآمدی سامان لے جانے والے کنٹینرز کی سیٹلائٹ ٹریکنگ معطل کرکے انسانی نگرانی کا نظام متعارف کرا دیا ہے۔ اس اقدام نے اسمگلنگ کے امکانات میں اضافے کے خدشات کو جنم دیا ہے، کیونکہ نئے کنٹریکٹرز کے پاس کنٹینر ٹریکنگ کے لیے ضروری آلات موجود نہیں ہیں۔ایف بی آر نے 2013 سے کنٹینرز کی سیٹلائٹ اور جی ایس ایم کے ذریعے نگرانی کرنے والی کمپنی کا لائسنس ختم کرتے ہوئے یہ ذمہ داری چار نئی کمپنیوں کے سپرد کر دی۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق، ان کمپنیوں کا انتخاب چار سال پرانے تکنیکی معیارات کی بنیاد پر بغیر کسی مسابقتی عمل کے کیا گیا۔ ایف بی آر کے ڈائریکٹر جنرل ٹرانزٹ ٹریڈ، محسن رفیق نے ایک بیان میں تصدیق کی کہ یہ کمپنیاں کئی سال پہلے (2021) میں تکنیکی طور پر اہل قرار دی گئی تھیں۔ تاہم، ان کے پاس کنٹینر ٹریکنگ کا تجربہ نہیں ہے اور نہ ہی کنٹینر سرویلینس ڈیوائسز (CSDs) موجود ہیں۔ جبکہ ،CSD کے بغیر کنٹینرز کی ٹریکنگ اور اس میں سامان کی بحفاظت منتقلی ممکن ہی نہیں۔ ایف بی آر نے انسانی نگرانی کا ماڈل اپنانے کے ساتھ ہی نئے عملیاتی طریقہ کار (SOPs) جاری کیے ہیں، جن کے تحت کراچی کسٹمز کو اضافی انسانی وسائل فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بغیر متبادل نظام کے کنٹینرز ٹریکنگ کا خاتمہ اسمگلنگ کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔ گزشتہ ماہ جاری کردہ ایک نئے ضابطے کے تحت، ایف بی آر نے کنٹریکٹرز کے لیے مالی اور تکنیکی شرائط میں نرمی کی۔ اس کے نتیجے میں نئے کنٹریکٹرز کے پاس صرف وہ آلات ہیں جو گاڑیوں کی ٹریکنگ کے لیے استعمال ہوتے ہیں، جبکہ کنٹینرز کی نگرانی کے لیے مخصوص CSDs موجود نہیں ہیں۔ لائسنسنگ کمیٹی کے اجلاس میں یہ انکشاف ہوا کہ نئے کنٹریکٹرز کے پاس صرف پرائم موور ڈیوائسز (PMDs) ہیں جو گاڑیوں کی حرکت کو مانیٹر کرتی ہیں، لیکن کنٹینرز کی نگرانی کے لیے درکار CSDs مہنگے اور نایاب ہیں، جو کہ صرف اس سے قبل اس کام / ٹریکنگ کرنے والی کمپنی ٹی پی ایل ٹریکر ہی کے پاس موجود ہی۔ ایف بی آر نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کنٹینرز پر CSDs کی دوبارہ دستیابی کے بعد ہی استعمال کا عندیہ دیا۔ جس میں تقریبا 3 مہینے درکار ہوں گے۔ ٹرانسپورٹرز نے ایف بی آر کے اس فیصلے پر احتجاج کیا ہے، کیونکہ اب انہیں گاڑیوں پر PMDs لگانے کے لیے 20,000 روپے اور فی ٹرپ 5,278 روپے ادا کرنا ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق، یہ اضافی اخراجات نہ صرف کاروباری برادری پر بوجھ ڈالیں گے بلکہ اسمگلنگ کے خطرے کو بھی بڑھاتے ہیں۔ ایف بی آر نے پرانی کمپنی ٹی پی ایل ٹریکر کا لائسنس ختم کرنے کی وجہ “ناکافی کارکردگی” بتائی ہے، تاہم ٹی پی ایل نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا آئی ٹی نظام صرف جون 2024 میں چند دنوں کے لیے متاثر ہوا تھا اور اس کے بعد مکمل طور پر بحال ہو چکا ہے۔ کمپنی نے سیٹلائٹ اور جی ایس ایم دونوں صلاحیتوں کے حامل ہائبرڈ آلات کے استعمال کی تصدیق کی۔ کسٹمز کا موجودہ فیصلہ نہ صرف اسمگلنگ کے خطرات کو بڑھاتا ہے بلکہ پاکستان کے ٹرانزٹ ٹریڈ کے عمل پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کرتا ہے۔موجودہ فیصلہ پر جہاں ٹرانسپورٹرز پریشان ہیں وہیں کسٹمز کے افسران نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے افسران کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کنٹریکٹرز کے ایف بی ا ر نے کنٹینرز کی اسمگلنگ کے کے لیے کے پاس
پڑھیں:
گورننس سسٹم کی خامیاں
پاکستان میں طرز حکمرانی اور داخلی و خارجی معاملات پر مسلسل سوالات اٹھائے جاتے ہیں، اس نظام پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔اسی کے ساتھ ملک کو سیکیورٹی و معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ اصل میں حکمران طبقہ حکمرانی کی فرسودگی کو یا تو سمجھنے کا ادراک نہیں رکھتے یا ان کی ترجیحات میں ان مسائل کا حل شامل نہیں ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہم عملاً حکمرانی کے نظام کے تناظر میں متعدد تجربات کے باوجود ناکامی کا شکار ہیں۔ اسی طرح ہم دنیا میں ہونے والے بہتر حکمرانی کے تجربات کی بنیاد پر بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے تناظر میں طرز حکمرانی کے مسائل کی اسٹیبلشمنٹ نے بھی نشاندہی کی تھی اور ان کے بقول اگر ہم نے گورننس کے بحران کو ترجیح بنیادوں پر حل نہ کیا تو دہشت گردی سے نمٹنا بھی آسان نہیں ہوگا ۔
حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف کے قانونی مشن نے اپنے 12 روزہ دورے کا اختتام کیا ہے۔ یہ تفصیلی رپورٹ اس برس اگست میں آنے کی توقع ہے۔یہ رپورٹ کرپشن کی امکانات کو ختم کر کے اور میرٹ کی بنیاد پر فیصلوں کے ذریعے زیادہ شفافیت کو یقینی بنا نے اور پبلک سیکٹر کے نتائج کو بہتر بنانے کے لیے اپنی سفارشات پیش کرے گی۔
آئی ایم ایف نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں سیاست زدہ بیورو کریسی،کمزور احتساب پر مبنی نظام،قلیل مدتی اہداف پاکستان کی اہم خامیاں ہیں۔ان کے بقول پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں اہم افراد یا عہدے دار سیاسی وفاداریاں رکھتے ہیں اور اداروں کے سربراہوں کی تقرری بھی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے۔اسی طرح پاکستان پاکستان میں بدعنوانی کے خلاف بھی کوئی مستقل پالیسی نہیں ہے ۔
آئی ایم ایف نے ابتدائی طور پر جن مسائل کی نشاندہی کی ہے وہ اہمیت رکھتے ہیں۔کیونکہ ہمارا بیوروکریسی پر مبنی نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے اور اس نظام کی موجودگی میں گورننس کے نظام کی شفافیت کی توقع رکھنا محض خوش فہمی ہے۔اس بات کی درست طورپر نشاندہی کی گئی ہے کہ جب حکمران طبقہ انتظامی اداروں کو سیاسی بنیادوں پر چلائے گا یا اہم عہدوں پر میرٹ سے زیادہ سیاسی بنیادوں کو بنیاد بنا کر تقرریاں اور تبادلے کیے جائیں گے تو پھر نظام کی شفافیت کا سوال بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔
آئی ایم ایف نے کمزور احتساب کے نظام کی بھی نشاندہی کی ہے۔ ہمارے بہت سے سیاسی پنڈت یا دانشور یا کاروباری طبقات کے بڑے افراد کرپشن کو ایک بڑا مسئلہ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ان کے بقول سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن اس نظام کا حصہ ہے اور ہمیں اس کو قبول کرنا ہی ہوگا۔
یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں جب بھی کرپشن کی یا احتساب پر مبنی نظام کی بات کی جاتی ہے تو یہ سارا عمل سیاسی طور پر متنازعہ بن جاتاہے یا اس کو متنازعہ بنادیا جاتا ہے۔پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لیے جو بھی ادارے بنائے گئے ہیں وہ خود بھی کرپشن کا شکار ہیںیا ان پر اس حد تک سیاسی دباؤ ہے کہ وہ شفافیت کی بجائے سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔
پاکستان میں گورننس کے مسائل محض آئی ایم ایف کی پیش کردہ نکات تک محدود نہیں ہیں بلکہ اور بھی مسائل ہمیں حکمرانی کے نظام میں درپیش ہیں۔مثال کے طور پر عدم مرکزیت کے مقابلے میں مرکزیت پر مبنی نظام جہاں اختیارات کا مرکز کسی ایک سطح تک محدود ہوتا ہے یا ہم سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔
اسی طرح سے پاکستان میں حکمرانی کے نظام میں موجود جو سائز آف گورننس ہے وہ ریاستی اور حکومتی نظام پر نہ صرف سیاسی اور انتظامی بوجھ ہے بلکہ اس کی بھاری مالیاتی قیمت بھی ہمیں ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
بے تحاشہ ادارے،محکمے اور ان کے سربراہان کی فوج در فوج سے نہ تو عوام کے مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ یہ موجودہ نظام میں کوئی شفافیت کا عمل پیدا کر سکے ہیں۔دنیا کے جدید حکمرانی کے نظام میں نچلی سطح پر موجود مقامی حکومتوں کے نظام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔لیکن ہم مسلسل مقامی حکومتوں کو نظر انداز کررہے ہیں۔
حالانکہ پاکستان کے آئین میں اس وقت بھی تین سطحوں پر حکومت کا تصور موجود ہے یعنی وفاقی،صوبائی اور مقامی حکومتیں لیکن اس کے باوجود ہمارا ریاستی نظام مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی کا شکار نظر آتا ہے۔مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی بنیادی طور پر ریاست،حکومت اور عوام کے درمیان ایک بڑی خلیج کو پیدا کرتی ہے اور یہ خلیج ان فریقوں میں بد اعتمادی کے ماحول کو پیدا کرنے کا سبب بھی بنتی ہے۔
بااختیار مقامی حکومتی نظام معاشرے میں موجود کمزور اور محروم طبقات کے مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔لیکن ہمارا حکمرانی کا نظام طبقاتی تقسیم کا شکارہے اور اس تقسیم میں طاقتور طبقات کے مفادات کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔جب کہ اس کے مقابلے میں کمزور طبقات مختلف سطح پر استحصال کاشکار ہوتے ہیں۔
18 ویں ترمیم کی منظوری کہ باوجود بھی ہم صوبائی یا مقامی سطح پر حکمرانی کے نظام سے جڑے مسائل حل نہیں کر سکے ہیں۔ماضی میں وفاق کا نظام مرکزیت پر مبنی تھا تو آج صوبائی حکومتوں کا نظام صوبائی مرکزیت کا شکار نظر آتا ہے۔
اس طرز عمل کی وجہ سے صوبوں میں موجود ضلعوں کا نظام نہ صرف کمزور ہے بلکہ اپنی افادیت کھوتا جا رہا ہے۔ایک طرف سیاسی نظام میں موجود سیاسی طاقتور افراد ہیں جو قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی صورت میں سیاسی نظام پر قابض نظر آتے ہیں تو دوسری طرف بیوروکریسی ہے جو نظام کی شفافیت میں خود بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
اسی طرح سے ہمیں سیاسی اور بیوروکریسی پر مبنی نظام کا ایک ایسا کٹھ جوڑ بالادست نظر آتا ہے جو عوامی مفادات سے زیادہ اپنے ذاتی سطح کے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ہمارے ہاں وفاقی،صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ادارے اپنے اپنے سیاسی، آئینی اور قانونی دائرہ کار میں کام کرنے کے عادی نہیں ہیں۔
ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کرنا ہمارے نظام کی اہم خصوصیت بن چکی ہے۔قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی دلچسپی قانون سازی یا پالیسی سازی کی شفافیت کی بجائے ترقیاتی فنڈ تک محدود ہوتی ہے اور اس وجہ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان خود بھی ایک مضبوط اور مربوط مقامی حکومتوں کے نظام کے عملی طور پر خلاف ہیں ۔
ایک طرف ہم اپنے نظام کو عوام کے منتخب نمائندوں کی بنیاد پر چلانا چاہتے ہیں تو دوسری طرف ہماری ترجیحات عوام کے منتخب نمائندوں کے مقابلے میں بیوروکریسی پر حد سے بڑھتا ہواانحصار ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ خود ارکان اسمبلی موجودہ نظام سے ناخوش نظر آتے ہیں۔
ہم عملاًحکومتوں کے مقابلے میں یا منتخب نمائندوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بجائے کمپنیوں اوراتھارٹیوں کی بنیاد پر صوبوں کے نظام کوچلانااپنی ترجیح سمجھتے ہیں۔یہ دوہرے معیارات اورمختلف تضادات پر مبنی پالیسیوں نے حکمرانی کے نظام کواور زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔
یہ نظام جہاں اپنی افادیت کھوتا جا رہا ہے وہیں اس کی ساکھ پر بھی بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔حکمران طبقات کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں یا ان کی پسند پر مبنی حکمرانی کا یہ نظام لوگوں کو سیاسی اور معاشی طور پر تنہا کر رہا ہے۔ان کو لگتا ہے کہ اس نظام میں بہتری کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے ۔لیکن اس کے برعکس اگر ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے طرز عمل کو دیکھیں توان کے بقول ملک ترقی کی جانب گامزن ہے۔حکمرانوں اور عوام کی سوچ و فکر میں یہ تضاد ہمارے حکمرانی کے نظام کی خرابی کواور زیادہ نمایاں کرتاہے۔