معاشی و اقتصادی ترقی کے نئے افق
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ ملک اپنے معاشی اہداف کو حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے اور اس کے قرضوں کی سطح اور ادائیگیوں کے توازن پر قابو پایا گیا ہے۔ توقع ہے کہ جنوری میں مہنگائی مزید کم ہوگی، جب کہ قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے سود کی شرح بھی کم ہوگی۔ برآمدات کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے،کیونکہ اس سے کرنٹ اکاؤنٹ اور ادائیگیوں کے توازن میں بہتری آئے گی۔
بلاشبہ ایک تاریخی مالیاتی سنگِ میل کے طور پر پاکستان نے 944 ملین ڈالر کے بجٹ خسارے کو سرپلس میں بدل دیا ہے۔ معیشت کو متحرک کرنے کی خاطر مرکزی بینک نے شرح سود میں قابلِ قدر کمی کرتے ہوئے اسے 22 فیصد سے کم کرکے 13 فیصد کردیا۔
اس حکمتِ عملی نے نہ صرف قرضوں کے حصول کو آسان بنایا بلکہ کاروباری ماحول کو فروغ دیا، کلیدی شعبوں میں سرمایہ کاری کو تقویت بخشی اور اقتصادی ترقی کے نئے افق وا کیے۔ اگرچہ یہ معاشی اشارے مجموعی ترقی کی ایک امید افزا تصویر پیش کرتے ہیں، حقیقی کامیابی اس مثبت تبدیلی میں پوشیدہ ہے جو عام شہریوں کی زندگیوں کو بہتر بناتی ہے۔
آئی ایم ایف کی پیش گوئی کہ پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح 2025 تک 3.
پاکستان اسٹاک ایکسچینج (PSX) 2024 میں معاشی بحالی کی ایک روشن علامت کے طور پر سامنے آئی۔ KSE-100 انڈیکس 100,000 پوائنٹس کی تاریخی حد کو عبور کرتے ہوئے، PSX کی شاندار کارکردگی سرمایہ کاروں کے بڑھتے ہوئے اعتماد، قومی معیشت کے استحکام، اور سرمایہ کار دوست ماحول کو فروغ دینے کے حکومتی عزم کا ثبوت ہے۔ مہنگائی، جو طویل عرصے سے پاکستان میں معاشی عدم استحکام اور عوامی ناراضی کی وجہ رہی، 2024 میں ایک نمایاں کمی کا شکار ہوئی۔ جولائی سے نومبر کے درمیان، مہنگائی کی شرح 29 فیصد سے کم ہو کر 7 فیصد تک آ گئی۔
اس کمی نے گھریلو ضروریات کو کافی ریلیف فراہم کیا، اور اشیائے خورونوش، ایندھن اور دیگر ضروریات کی قیمتوں میں کمی سے عوام کو براہِ راست فوائد حاصل ہوئے۔ سال کے اختتام تک، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 12 بلین ڈالر تک پہنچ گئے، جو معاشی بحالی کے سفر میں ایک اہم سنگِ میل تھا۔ یہ اضافہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلاتِ زر، برآمدات میں مضبوط ترقی، اور مالیاتی پالیسیوں پر عمل درآمد کا نتیجہ ہے۔ سال 2024کے دوران پاکستان کی برآمدات میں قابلِ ذکر82 فیصد کا اضافہ ہوا، جو 72 ارب ڈالر کی قابلِ رشک حد تک پہنچ گئیں۔
یہ شاندار ترقی پاکستان کے کلیدی برآمدی شعبوں، بشمول ٹیکسٹائل، زراعت اور آئی ٹی خدمات کی مضبوطی اور لچک کی غماز ہے، جنھوں نے بدلتے ہوئے عالمی تجارتی رجحانات اور سخت مسابقتی دباؤ کے تحت حیران کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اسی دوران، پاکستانی تارکینِ وطن نے 14ارب ڈالر کے ریکارڈ زر بھیجے، جو کہ 33 فیصد کے غیرمعمولی اضافے کی علامت ہیں۔ ڈالرکی اڑان کئی مہینوں سے تھمی ہوئی ہے جس میں ماضی کی طرح اربوں روپے مارکیٹ میں پھینک کر استحکام نہیں لانا پڑ رہا، کہا جا سکتا ہے کہ ڈالرکے مقابلے میں روپے کی قدرکا موجودہ استحکام مصنوعی نہیں بلکہ میرٹ پر ہے۔
اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس نومبر میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 14 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز تھا مگر رواں برس اسی عرصے میں 72 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز سرپلس رہا۔ 2015 کے بعد پہلی مرتبہ یعنی تقریباً دس سال بعد کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس بلند ترین سطح پر ہے، کرنٹ اکاؤنٹ لگاتار کئی ماہ سے سرپلس ہے، اس کی بڑی وجہ ملکی برآمدات اور ترسیلات ِزر میں اضافہ ہے، مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں بیرونی وصولیوں میں بھی 33 فیصد اضافہ دیکھا گیا جو نومبر تک 15 ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں، ترسیلاتِ زر میں 35 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں جانا ملکی معیشت کے لیے خوش آیند ہے، خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جہاں دو سال قبل بحرانی کیفیت تھی اور غیریقینی صورتحال کے باعث ڈالر کی اڑان نے ملکی معیشت کی چولیں ہلا دی تھیں۔ معاشی ماہرین مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں کمی کو معاشی استحکام سے تعبیر کررہے ہیں، شرح سود میں کمی سے جہاں تاجروں کے لیے قرضے حاصل کرنا آسان ہوتا ہے وہیں معیشت کا پہیہ زیادہ بہتر طریقے سے چلنے کے امکانات بھی پیدا ہوتے ہیں، مگر بعض ماہرین کا خیال ہے کہ شرح سود میں کمی سمیت معاشی اشاریوں میں بہتری کے فوری اثرات عوام پر مرتب ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 78 ماہ کی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔
اگرچہ نمبرز یہ بتا رہے ہیں کہ مہنگائی چھ سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے مگر عوام تک ان کے ثمرات کی منتقلی میں وقت لگے گا، ان تمام اشاریوں خصوصاً مہنگائی میں کمی کے اثرات آنے میں تاخیر کی ایک وجہ انتظامی مشینری کی ناکامی ہے، مقامی سطح پر پرائس کنٹرول کمیٹیاں موثر نہ ہونے کے باعث یہ مثبت اشاریے صرف خبروں تک محدود نظر آتے ہیں۔وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے اعلان کردہ ’’ اُڑان پاکستان‘‘ میں ملکی شرح نمو میں اگلے پانچ سال میں چھ فی صد اضافے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے اور آیندہ 10 برس یعنی 2035 تک مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا سائز ایک کھرب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں مجموعی پیداوار کی شرح تین فی صد سے کم رہی ہے جب کہ پاکستان کا جی ڈی پی لگ بھگ 374 ارب ڈالر رہا ہے۔
معاشی بحالی کے کئی چیلنجز سے دوچار پاکستان کی وفاقی حکومت نے ’ اُڑان پاکستان‘ کا اعلان ایسے وقت میں کیا ہے جب مہنگائی میں کمی اور معاشی اشاریوں میں بہتری ہوئی ہے۔ خوش قسمتی سے عالمی منڈی میں تیل، گیس، کوئلہ، گندم اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں کمی یا کم از کم استحکام کے باعث پاکستان کے درآمدی بل پر اس کا بوجھ کم پڑا ہے اور اس سے ملک کے اندر بھی مہنگائی کا زور کم کرنے میں خاطر خواہ مدد ملی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کے اندر مہنگائی میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں مہنگائی اس قدر تیزی سے بڑھی ہے کہ پاکستانیوں کی قوت خرید بے تحاشہ کم ہوگئی ہے۔ منڈی میں طلب کم ہونے کے ساتھ رسد بہتر ہونے سے مہنگائی میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ شرح سود کم ہونے سے تاجروں کے لیے قرضے سود پر حاصل کرنا آسان ہوتا ہے۔ یوں معیشت کا رکا ہوا پہیہ چلنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ لوگوں کو غربت سے نکلنے اور معاشی نمو کے اثرات جنم لیتے ہیں۔ دوسری جانب نئی صنعتوں،کاروبار کے قیام یا توسیع کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں کیوں کہ بجلی، گیس کی قیمت زیادہ ہے اور شہروں سے باہر بہتر انفرا اسٹرکچر موجود نہیں ہے جب کہ ٹرانسپورٹیشن کی قیمت بھی زیادہ ہے۔
عام لوگوں کو غربت سے نکالنے کے لیے آیندہ 10 سے 15 برسوں تک سالانہ چھ سے سات فی صد معاشی نمو درکار ہے۔ جب کہ اس مالی سال مرکزی بینک نے پاکستان کی معاشی نمو ڈھائی سے تین فی صد کے درمیان رہنے کی توقع ظاہر کی ہے۔ جی ڈی پی کی یہ معمولی شرح نمو ظاہر کرتی ہے کہ نئی ملازمتوں کی فراہمی اور پیداوار میں اضافے کے امکانات زیادہ روشن نہیں ہیں اور ایسے لوگوں کی مشکلات مسلسل جاری رہیں گی، جو غربت کا شکار ہیں یا غربت کی لکیر پر کھڑے ہیں۔ ملک میں صنعتوں کو فروغ اس وقت ممکن ہوگا جب انھیں گیس، بجلی، پانی اور انفرااسٹرکچرکم قیمت پر دستیاب ہو اور نوجوان ہنر مند ہوں تاکہ وہ انڈسٹری میں کام کرسکیں۔
قرضوں کے حجم کو پورا کرنے کے لیے ایکسپورٹ لیڈ گروتھ پالیسی اختیار کرنے سے مقامی سرمایہ کاروں کو پیسہ لگانے کا موقع ملے گا جس سے بیرونِ ملک پاکستانیوں اور پھر دیگر ممالک کے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں بھی آسانیاں آئیں گی۔ تب ہی ملک میں حقیقی طور پر سرمایہ کاری ممکن ہوسکے گی۔ان خوش کن معاشی اشاریوں سے ہٹ کر ملک میں مہنگی بجلی کا بحران ملکی معیشت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، اس سے نمٹنے کے لیے حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت شروع کر رکھی ہے، اب تک متعدد آئی پی پیز اپنے معاہدوں پر نظر ثانی کرچکے ہیں۔
حکومتی کاوشوں سے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں کمی آئی ہے اور حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ آیندہ تین سے چار ماہ میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں مزید کمی متوقع ہے، حکومت اگر واقعی مہنگی بجلی کے بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کے ملکی معیشت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے، صنعتی شعبے کو فروغ ملے گا جس سے روزگار کے مواقعے پیدا ہوں گے۔ پاکستان 2025 کے سفر کا آغاز کرچکا ہے، 2024 کی شاندار کامیابیاں ایک مستحکم اور دیرپا ترقی کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ یہ بحران سے استحکام تک کا سفر محض اقتصادی بحالی کی داستان نہیں، بلکہ یہ ایک عزم سے بھرپور قوم کی کہانی ہے جو مشکلات کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے مستقبل کو درخشاں بنانے کے لیے تاریخ کا رخ موڑنے میں کامیاب ہوئی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مہنگائی میں کمی کرنٹ اکاؤنٹ ملکی معیشت پاکستان کی جی ڈی پی کی قیمت کو فروغ ملک میں ہے اور کے لیے کی ایک کی شرح
پڑھیں:
بلوچستان کی ترقی اور کالعدم تنظیم کے آلہ کار
گوادر پورٹ پاکستان کے لیے تجارتی ترقی کا دروازہ ہے۔ خلیج فارس کے دہانے پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ بندرگاہ پاکستان کو نہ صرف خطے بلکہ بین الاقوامی سطح پر تجارتی سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
اس بندرگاہ کے ذریعے چین، وسطی ایشیا اور خلیجی ممالک تک بآسانی رسائی میسر آئے گی، جس سے پاکستان کو سالانہ لاکھوں ڈالرکا تجارتی فائدہ پہنچے گا۔ گوادر بندرگاہ نہ صرف پاکستان کو اقتصادی استحکام دے رہی ہے بلکہ یہ بلوچستان کی معاشی خوشحالی میں بنیادی کردار ادا کررہی ہے۔
ویژن بلوچستان 2030 پروگرام کے تحت کمیونی کیشن انفرا اسٹرکچر، ڈیموں کی تعمیر، پانی کی قلت کو دورکرنے اور فشریزکے مختلف منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے۔ خوشحال بلوچستان کی تعمیر و ترقی میں حکومتی اور عسکری کاوشوں کا کلیدی کردار ہے۔
اس طرح کے بے شمار منصوبے بلوچستان کی تقدیر بدلنے کے لیے سرگرم ہیں، جس میں ریکوڈک کا منصوبہ بھی سرفہرست ہے، اس منصوبے کے زیر اہتمام طبی سہولیات سے آراستہ انڈس اسپتال نوکنڈی کا افتتاح گزشتہ برس 25جون 2024 کو کیا جاچکا ہے۔
یہ اسپتال ضلع چاغی اور نوکنڈی جیسے پسماندہ علاقوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے، اس کے علاوہ ریکوڈک مائننگ کے تحت نوکنڈی میں قائم ہنر ٹیکنیکل انسٹیوٹ، جس میں 350 کے قریب خواتین و مرد حضرات ہنر سیکھ رہے ہیں جب کہ اس منصوبے کے تحت پانچ پرائمری اسکول، ہمائی کلی، مشکی چاہ، موکچہ، دربن چاہ اور تنگ کھچاؤ کے علاقوں میں قائم کیے جاچکے ہیں جن میں اس وقت 357 طلبا وطالبات زیر تعلیم ہیں۔
اس کے علاوہ چین اور پاکستان کا مشترکہ منصوبہ سینڈک کاپر،گولڈ مائن پراجیکٹ کے تحت سینڈک اسپتال، اسکولوں کا قیام بلوچستان کے روشن مستقبل کا اہم باب ہیں۔ سی پیک، سینڈک اور ریکوڈک منصوبوں کی وجہ سے ہزاروں افراد کو روزگار ملا ہے۔ نوجوانوں کو ترجیحی بنیادوں پر تعلیمی مواقعے فراہم کیے جا رہے ہیں، متعدد یونیوسٹیوں اور میڈیکل کالجزکا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے۔
بلوچستان کی ترقی سے کالعدم تنظیمیں خائف ہیں، یہ تنظیمیں نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے لیے خطرے کا سبب بنی ہوئی ہیں، جن سے نجات کے لیے سیکیورٹی فورسز مسلسل متحرک ہیں۔گزشتہ ماہ جعفر ایکسپریس پرکالعدم تنظیم کے حملے کے واقعے نے پوری قوم کو خوف میں مبتلا کر کے رکھا، دہشت گردوں نے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنایا اور 20 سے زائد مسافروں کی جان لی۔
بعد ازاں پاک فوج کے آپریشن نے عسکریت پسندوں کا سارا زور پسپا کیا اور 33 دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا، بعد ازاں مسافروں کو بازیاب کرایا، خیال رہے، اس ٹرین میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد زیادہ تھی، بلوچستان میں پنجابی بولنے والوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کی ذمے داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی بہت فخر سے لیتی ہے۔
بلوچ قوم کی داد رسی کی باتیں بلوچستان کی بہت سی قوم پرست تنظیمیں کرتی ہیں، جس میں ایک نام بلوچ یکجہتی کونسل کا ہے، اس تنظیم کو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ لیڈ کرتی ہیں، جو کہ غفار لانگو کی بیٹی ہیں، غفار لانگو واپڈا کا ملازم تھا،جس نے بی ایل اے جوائن کر لی تھی، جس کی وجہ سے وہ ایک آپریشن میں مارا گیا تھا۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی مکمل تعلیم حکومتی وظیفے پر ہوئی، وہ سرکاری ملازم ہیں، ان کی بہن بھی سرکاری وظیفے پر صوبہ پنجاب میں زیر تعلیم ہیں، پھر بھی یہ لوگ ریاست کے مخالف ہیں، جس سے ان کی منافقت واضح ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ آج کل جیل میں ہیں کیونکہ انھوں نے جعفر ایکسپریس حملے میں مارے گئے دہشت گردوں کی لاشوں کو مردہ خانے سے زبردستی اپنی تحویل میں لیا، جس پر مذمت کی گئی اور کوئٹہ کے حالات خراب ہوئے، جس کے سبب ماہ رنگ کی گرفتاری عمل میں آئی، یہاں سوال ہے کہ آخر ماہ رنگ کو کیوں ان دہشت گردوں کی لاشوں کی اس قدر ضرورت تھی کہ وہ اسے لینے کے لیے اتنی بے تاب تھیں۔
بلوچستان کے بدترین حالات میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل کا بھی بڑا اہم کردار ہے،گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کی سیاست میں سرگرم سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اختر مینگل فروری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں خضدار سے رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے تاہم انھوں نے ستمبر 2024 میں قومی اسمبلی کی اپنی اس نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ اپنی سیاسی جماعت بی این پی مینگل کے واحد منتخب رُکن قومی اسمبلی تھے۔
اختر مینگل ایم پی اے، ایم این اے اور وزیر اعلیٰ بلوچستان رہ چکے ہیں، وہ کوئلے کی کانوں کے مالک ہیں، ہمیشہ اقتدار سے وابستہ رہے ہیں، ان کی بے شمار جائیدادیں ہیں، وہ اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے بلوچ قوم کے نام پر دھرنے دے رہے ہیں، آج سے قبل جب وہ خوب اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے جائیدادیں بنا رہے تھے تو انھیں ایک بار بھی بلوچستان کی تقدیر اور بلوچ قوم کی قسمت کے بارے میں ایک بار بھی خیال نہیں آیا، کچھ لوگ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے آلہ کار معلوم ہوتے ہیں۔
پاکستانی کالعدم جماعت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، بی ایل اے کے نسلی تشدد کے خلاف صوبہ سندھ میں مختلف مقامات پر احتجاج ہوا۔ عوام کا دعویٰ ہے کہ بی ایل اے ہندوستان کی ہدایت پرکام کررہی ہے،کالعدم تنظیم نسلی بنیادوں پر بے گناہ پاکستانیوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور قتل کر رہی ہے۔ عوام نے دہشت گردوں کو پھانسی سمیت سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
پاکستان کے دیگر صوبوں کے لوگ بلوچ طلبا اور شہریوں کا پرتپاک استقبال کرتے ہیں، جب کہ پنجابیوں اور پشتونوں کو قتل کر کے نفرت پھیلانے پر بی ایل اے کی مذمت کرتے ہیں۔ کالعدم تنظیم کے خلاف احتجاج میں عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے بلوچ بھائیوں کی حمایت کا بھی اظہارکیا اور پاکستان کی مسلح افواج کے حق میں نعرے لگائے۔
پاکستان کے باشعور عوام کا کہنا ہے کہ بی ایل اے کا احتجاجی مارچ ایک ڈھونگ ہے، جو ان کے اصل مقصد کو چھپا رہا ہے، دراصل یہ عناصر بلوچستان کی ترقی کو سبوتاژکرنا چاہتے ہیں تاکہ بلوچ قوم بنیادی سہولیات سے محروم رہے۔
ریاست مخالف عناصر نے پاکستان کے استحکام کو کافی بار متزلزل کرنے کی کوشش کی اور اللہ کے کرم سے ہر بار ناکام رہے، سیکیورٹی فورسز نے فیصلہ کن کارروائی سے ان کے ناپاک منصوبوں کوکچلا، بات واضح ہے کہ ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والوں کو قانون کی پوری طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے کسی کو استثنا نہیں ملے گا۔