سنبھل کی شاہی جامع مسجد تنازعہ پر بی جے پی حکومت کو سپریم کورٹ کی نوٹس
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
سینیئر وکیل حذیفہ احمدی نے کہا کہ کنواں آدھا مسجد کے اندر اور آدھا باہر ہے، کنواں صرف مسجد کے استعمال کیلئے ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے تنازعہ میں آج اترپردیش حکومت کو نوٹس جاری کیا۔ اس نوٹس میں سپریم کورٹ نے حکومت سے اسٹیٹس رپورٹ طلب کی ہے۔ سپریم کورٹ نے سنبھل شاہی جامع مسجد منیجنگ کمیٹی کی درخواست پر نوٹس جاری کیا ہے۔ درخواست میں مسجد کمیٹی انتظامیہ نے مطالبہ کیا تھا کہ ضلع مجسٹریٹ کو صورتحال کو برقرار رکھنے کی ہدایت دی جائے۔ جو نجی کنواں کھودا جا رہا ہے وہ مسجد کی سیڑھیوں کے قریب ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار پر مشتمل بنچ نے انتظامیہ کو بلدیہ کے نوٹس پر کارروائی نہ کرنے کی بھی ہدایت دی ہے، جس میں عوامی کنویں کو ہری مندر میں بتایا گیا ہے اور پوجا کی اجازت دی گئی تھی۔ اب سپریم کورٹ نے پوجا پر پابندی لگا دی ہے۔
سنبھل شاہی جامع مسجد مینجمنٹ کمیٹی نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی جس میں ٹرائل کورٹ کے حکم کو چیلنج کیا گیا تھا۔ ٹرائل کورٹ نے 19 نومبر 2024ء کو مسجد کے سروے کا حکم دیا تھا۔ مسجد کمیٹی کی جانب سے سینیئر وکیل حذیفہ احمدی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ مدعی کی طرف سے سینیئر وکیل وشنو شنکر جین پیش ہوئے۔ وشنو شنکر جین نے عدالت کو بتایا کہ کنواں مسجد کے باہر ہے۔ سینیئر وکیل حذیفہ احمدی نے کہا کہ کنواں آدھا مسجد کے اندر اور آدھا باہر ہے، کنواں صرف مسجد کے استعمال کے لئے ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر کنواں مسجد کے باہر سے استعمال ہو رہا ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: شاہی جامع مسجد سپریم کورٹ نے مسجد کے
پڑھیں:
مودی حکومت کو ہٹ دھرمی چھوڑ کر مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرنا چاہیئے، سرفراز احمد صدیقی
دہلی پردیش کانگریس کمیٹی کے سکریٹری نے کہا کہ یہ قانون کئی بنیادی حقوق کے خلاف ہے اور اقلیتوں کو متعدد دفعات میں دئے گئے حقوق و اختیارات سے متصادم ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وقف ترمیمی قانون پر جاری سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف انڈیا کے کئی شقوں پر عارضی روک کا خیرمقدم کرتے ہوئے دہلی پردیش کانگریس کمیٹی کے سکریٹری اور سپریم کورٹ کے معروف وکیل سرفراز احمد صدیقی نے کہا کہ مودی حکومت کو ہٹ دھری چھوڑ کر مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے وقف ترمیمی قانون کو واپس لے لینا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس نے نہ صرف حکومت کو آئینہ دکھایا ہے بلکہ اس کے منصوبے کو ناکام کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کا ایک ادنی سا طالب علم بھی ایسا غیر آئینی بل پیش کرنے اور نہ ہی اسے پاس کرانے کی حماقت کرے گا۔
ایڈووکیٹ سرفراز احمد صدیقی نے کہا کہ یہ قانون کئی بنیادی حقوق کے خلاف ہے اور اقلیتوں کو متعدد دفعات میں دئے گئے حقوق و اختیارات سے متصادم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود بھی حکومت کا پارلیمنٹ سے پاس کرانا مسلمانوں کے جذبات سے کھیلواڑ کرنے کے علاوہ اور کیا کہا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پہلے دن کی سماعت کے دوران جس طرح کے سوالات اٹھائے اور وقف ترمیمی قانون کے شقوں پر سوالیہ نشان لگایا اس سے ظاہر ہوگیا تھا کہ یہ قانون سپریم کورٹ میں ٹھہر نہیں پائے گا۔