داریل کے نوجوان قلم و کتاب کلچر کو فروغ دیں، فیض اللہ فراق
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
ترجمان گلگت بلتستان حکومت نے کہا کہ داریل کے نوجوان اپنی استعداد کے اعتبار سے کسی سے کم نہیں ہیں، ضرورت اس امر کی ہے وہاں مثبت رجحانات کے ساتھ تعلیم کو عام کیا جائے اور اس عمل کیلئے حکومت گلگت بلتستان اپنی بساط سے بڑھ کر کوششیں کر رہی ہے جبکہ مزید کمیونٹی کا اشتراک ناگزیر ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ترجمان گلگت بلتستان حکومت فیض اللہ فراق نے داریل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ داریل کی نوجوان نسل میں آگے بڑھنے کی جستجو ہے۔ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ آج سے کئی سال قبل اشتیاق داریلی اور ان کی ٹیم نے جس محنت اور لگن کے ساتھ داریل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھ کر تعلیمی تحریک کا آغاز کیا تھا اسکی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ترجمان نے یوم تاسیس کے موقع پر اشتیاق داریلی اور اسکی ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے انکا شکریہ بھی ادا کیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ داریل کے نوجوان مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے اور داریل جیسے خوبصورت علاقے میں قلم و کتاب کلچر کو استحکام دینے میں کردار ادا کریں گے۔ داریل کے نوجوان اپنی استعداد کے اعتبار سے کسی سے کم نہیں ہیں، ضرورت اس امر کی ہے وہاں مثبت رجحانات کے ساتھ تعلیم کو عام کیا جائے اور اس عمل کیلئے حکومت گلگت بلتستان اپنی بساط سے بڑھ کر کوششیں کر رہی ہے جبکہ مزید کمیونٹی کا اشتراک ناگزیر ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: داریل کے نوجوان گلگت بلتستان اور اس
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
شیعہ علما کونسل گلگت کے جنرل سیکرٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا کہ کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل ضلع گلگت کے جنرل سکریٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مورخہ 19 اپریل 2025ء کو جاری ہونے والی مشیر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مولانا محمد دین کی پریس ریلیز محض ایک بیان نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کی شناخت پرامن بقائے باہمی، مذہبی رواداری اور اجتماعی شعور ہے۔ ایسے میں کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے ہمارا سوال ہے کہ کیا مشیر موصوف کی یہ پریس ریلیز آپ کی منظوری سے جاری کی گئی؟ اگر ہاں، تو یہ طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے کہ ایک حکومت اپنے عوام سے اس انداز میں مخاطب ہو رہی ہے جو نفرت، تقسیم اور اشتعال کو ہوا دے رہا ہے۔ اور اگر یہ بیان آپ کی اجازت یا علم کے بغیر جاری کیا گیا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے غیر سنجیدہ اور نالائق مشیروں کو فوراً برطرف کریں تاکہ حکومت کی نیک نامی، شفافیت اور سنجیدگی پر عوام کا اعتماد قائم رہ سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشیر موصوف نے خطیب جامع مسجد امامیہ گلگت جناب آغا سید راحت حسین الحسینی جیسے محترم، سنجیدہ اور باوقار عالم دین کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ گلگت بلتستان کے مہذب سیاسی و سماجی کلچر سے متصادم ہے۔ ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو ذاتی حملے سمجھتے ہیں اور سنجیدہ تنقید کا جواب اخلاقیات کے دائرے سے باہر نکل کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور سوال اٹھانا ہر باشعور شہری، خصوصاً اہل علم کا آئینی، اخلاقی اور سماجی حق ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں واقعی عوامی مفاد پر مبنی ہیں تو دلیل و حکمت سے عوام کو مطمئن کیا جائے، نہ کہ ان پر الزام تراشی کر کے ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی جائے۔ مشیر موصوف کا یہ کہنا کہ "دین کو سیاست سے الگ رکھا جائے" نہ صرف فکری گمراہی کی نشانی ہے بلکہ اس قوم کے نظریاتی اساس سے انحراف بھی ہے۔ پاکستان کا قیام ہی کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ“ کے نام پر ہوا تھا، اور اس ملک کی بقاء اسی وقت ممکن ہے جب دین اور سیاست کو ہم آہنگی سے مربوط کیا جائے۔