دھناشری ورما سے علیحدگی کی خبروں پر یوزویندر چاہل کا بیان سامنے آ گیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
بھارتی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی یوزویندر چاہل نے اپنی اہلیہ اور ڈانسر دھنا شری ورما سے طلاق کی افواہوں پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے مداحوں سے درخواست کی کہ وہ ان کے اور اہلیہ کے درمیان طلاق کی افواہوں پر قیاس آرائیاں نہ کریں۔
یوزویندر چاہل نے حال ہی میں اپنی انسٹاگرام اسٹوری شیئر کی ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے تمام مداحوں کے دل سے شکر گزار ہیں جن کی محبت اور حمایت کی بدولت وہ اس مقام تک پہنچ پائے ہیں تاہم یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ ملک، ٹیم اور مداحوں کے لیے ابھی بہت سے شاندار اوورز باقی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کیا بھارتی کھلاڑی یوزویندر چاہل کی دھناشری ورما سے علیحدگی ہوگئی؟ اہلیہ نے خاموشی توڑ دی
ان کا کہنا تھا کہ جہاں انہیں ایک کھلاڑی ہونے پر فخر ہے وہیں وہ ایک بیٹے، بھائی اور دوست بھی ہیں۔ یوزویندر چاہل نے کہا کہ حالیہ واقعات کے بعد لوگ ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں تجسس رکھتے ہیں اور انہوں نے چند سوشل میڈیا پوسٹس میں ایسی قیاس آرائیاں دیکھی ہیں جو حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔
کھلاڑی کا مزید کہنا تھا کہ ایک بیٹے، بھائی اور دوست کے طور پر وہ سب سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ان قیاس آرائیوں میں نہ الجھیں کیونکہ یہ ان کے اور ان کے خاندان کے لیے بہت تکلیف دہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں سکھایا گیا ہے، ہمیشہ سب کے لیے اچھا چاہو، محنت اور لگن سے کامیابی حاصل کرو اور کبھی شارٹ کٹ نہ اختیار کرو اور وہ اس پر ہمیشہ قائم رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’میں ہمیشہ آپ سے محبت اور حمایت کی امید کروں گا، نہ کہ ہمدردی کی‘۔
یہ بھی پڑھیں: سوناکشی سنہا کی طلاق اور بالی ووڈ کے 2 بڑے خانز کی موت، ماہر نجوم کی پیشگوئی
گزشتہ روز دھنا شری ورما نے بھی اپنی انسٹاگرام اسٹوری شیئر کی تھی جس میں انہوں نے کہا کہ پچھلے چند دن ان کے اور ان کے خاندان کے لیے بہت مشکل گزرے ہیں۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ٹرولز حقیقت جانے بغیر بے بنیاد تحریروں سے ان کے کردار کو بدنام کر رہے ہیں اور نفرت پھیلا رہے ہیں۔
دھناشری کا کہنا تھا کہ انہوں نے سالوں کی محنت سے اپنی ساکھ اور نام بنایا ہے۔ خاموشی ان کی کمزوری کی نہیں بلکہ طاقت کی علامت ہے۔ سچ ہمیشہ اپنی جگہ بناتا ہے اور اسے کسی کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
یہ بھی پڑھیں: حنا الطاف سے شادی اور پھر طلاق کا فیصلہ کیوں کیا؟ آغاعلی نے خاموشی توڑ دی
واضح رہے کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی یوزویندر چاہل اور اہلیہ کے درمیان طلاق کی افواہیں زور پکڑ گئیں۔ یہ افواہیں اسپن بولر یوزویندر اور ان کی اہلیہ کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو ان فالو کرنے کے بعد سامنے آئی تھیں۔
اسپن بولر یزویندرا چاہل نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے اہلیہ کے ساتھ اپنی تمام تصاویر ڈیلیٹ کردی ہیں تاہم ان کی اہلیہ نے شوہر کے ساتھ تصاویر ڈیلیٹ کرنے کے بجائے صرف اَن فالو کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
دھناشری ورما یزویندرا چاہل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کہنا تھا کہ انہوں نے کے لیے کہا کہ اور ان
پڑھیں:
بات ہے رسوائی کی
یہ خبر حیران کن اور توجہ طلب تھی کہ جب برطانیہ میں ہسٹری کی ایک ٹیچر پچاس سالہ وینیسا براؤن کو چھبیس مارچ کو دو آئی پیڈز چوری کرنے کے الزام میں جیل میں ساڑھے سات گھنٹے گزارنے پڑے، یہ آئی پیڈز کسی اور کے نہیں بلکہ ان کی اپنی بیٹیوں کے تھے جو وینیسا نے صرف اس لیے چھپائے تھے کہ ان کی بیٹیاں اپنے اسکول کے کام پر توجہ دیں۔
یہ ترغیب دلانے کا انداز تو روایتی ماؤں والا ہی تھا لیکن ان کے لیے شرمندگی کا باعث بن گیا، صرف یہی نہیں بلکہ انھیں پابند بھی کر دیا گیا ہے کہ جب تک یہ مقدمہ خارج نہیں ہوجاتا وہ اس تفتیش کے حوالے سے نہ صرف اپنی بیٹیوں بلکہ کسی سے بھی بات نہیں کرسکتیں۔
ایک استاد کو جو دوسرے بچوں کو تعلیم دیتا ہے، اپنے ہی بچوں کی پڑھائی کی خاطر اس اقدام کی وجہ سے جس کوفت اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا، اس تجربے کو انھوں نے ناقابل بیان تباہی اور صدمہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ ان کی تمام تر توجیہات بے اثر ثابت ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ آئی پیڈز ان کے بچوں کے تھے اور وہ انھیں ضبط کرنے کی حق دار تھیں۔ پولیس نے مذکورہ آئی پیڈز ان کی والدہ کے گھر سے برآمد کیے تھے۔ایک ماں خاص کر جب وہ استاد کے رتبے پر بھی فائز ہو، دہری ذمے داریوں کی حامل ہوتی ہے۔
اسے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے علاوہ اس کے اردگرد کے ماحول کو بھی دیکھنا پرکھنا ہوتا ہے کہ آیا وہ اس کی اولاد کے لیے موافق ہیں یا نہیں۔ وہ اپنے بچوں کی راہ سے کانٹے چننے کی اہل ہوتی ہے جس کے لیے انھیں پولیس کی مدد اور معاونت کی ضرورت نہیں، لیکن بدقسمتی سے مغربی ممالک میں حقوق کی علم برداری کے بڑے جھنڈے گڑھے ہوتے ہیں، جو ایک ماں سے اپنی اولاد کے حقوق تک چھین لیتے ہیں۔
ایک ماں کو اپنی اولاد کے لیے کیا تحفظات ہوتے ہیں، وہ پڑھے لکھے، صحت مند اور تندرست رہے،کھیل کود بھی کرے اور اپنی دوسری ذمے داریاں بھی نبھائے، اس تمام کے لیے اس کا ذہن صحت مند سوچ رکھنے کا حامل پہلی ترجیح ہوتا ہے۔
ماں بری سوچ سے اپنی اولاد کو الگ رکھنا چاہتی ہے۔آج کل بچوں کے ہاتھ میں بالشت بھر موبائل ساری حشر سامانی لیے ہر دم موجود اور تازہ دم تیار رہتا ہے۔ وہ اپنے والدین اور بڑوں کی نظر سے چھپ کر برا اور غلیظ مواد بھی دیکھ سکتے ہیں۔ فحش مواد دیکھنے سے ذہن کس طرح اثرانداز ہوتا ہے، کینیڈا کی لاوال یونیورسٹی کی ایک محقق ریچل اینی بارر نے ایک تحقیق کی جس میں انھوں نے بتایا۔
’’دنیا بھر میں کروڑوں افراد انٹرنیٹ کو مثبت کی بجائے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، خصوصاً فحش مواد یا پورن سائٹس پر وقت گزارتے ہیں، یہ عادت دماغ کے اہم ترین حصے کو چاٹ لیتی ہے اور کند ذہن یا تعلق بچگانہ ذہنیت کا مالک بنا سکتی ہے ۔‘‘
دراصل غیر اخلاقی مواد کو دیکھنا عادت بنا لینے والے افراد کے دماغی حصے پری فرنٹل کورٹیکس کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس اہم حصے قوت ارادی جسمانی حرکات اور اخلاقیات کو کنٹرول کرتا ہے۔ ایک تحقیق تو فحش مواد اور فلموں کے دیکھنے والوں کے متعلق کہتی ہے کہ ان کے دماغ سے منسلک ’’ریوارڈ سسٹم‘‘ چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔
جرمنی کی اس سائنسی تحقیق کی مصنفہ زیمونے کیون کا کہنا ہے ’’باقاعدگی سے فحش فلمیں دیکھنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ کم یا زیادہ آپ کا دماغی ریوارڈ سسٹم ضایع ہوتا جاتا ہے۔‘‘دماغ میں موجود عصبی ڈھانچوں کے مجموعے کو ریوارڈ سسٹم کہتے ہیں اور عصبی ڈھانچے خوشی فراہم کرتے ہوئے دماغی رویے کو کنٹرول کرتے ہیں۔
اس تحقیق کے لیے چونسٹھ لوگوں کا انتخاب کیا گیا جن کی عمریں اکیس سے چونسٹھ سال کے درمیان تھیں۔ اس تحقیق سے پتا چلا کہ جو لوگ فحش فلمیں دیکھتے ہیں ان کے دماغ کا ’’اسٹریم‘‘ نامی حصہ چھوٹا ہو جاتا ہے، ریوارڈ سسٹم کا یہ اہم جز جنسی تحریک کا اہم کردار ہے۔فحش مواد دیکھنے والوں کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ریسرچ کی ایک طویل فہرست ہے اس لیے کہ آج کی دنیا کا یہ اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے، بچے اور بڑے، خواتین اور مرد فحش مواد کو دیکھنے کے باعث منفی رویوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں زیادتی، تشدد، مار پیٹ، خود غرضی اور قتل بھی شامل ہیں۔
ایسے افراد سرد مہری اور ظلم و جبر کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں باالفاظ دیگر وہ عام انسانوں کے برخلاف زیادہ تلخ، کرخت اور بدمزاج ہو جاتے ہیں۔ اپنی خواہشات کو کسی بھی حد تک پورا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ہم اس قسم کے لوگوں کو دوسروں کے مقابلے میں آسانی سے پہچان بھی سکتے ہیں کیونکہ ان کے رویے اور جذبات عام انسانوں کے مقابلے میں مختلف ہوجاتے ہیں۔
برقی تاروں سے پوری دنیا میں نجانے کیا کچھ دیکھا جا رہا ہے جو دیکھنے والوں کا قیمتی وقت تیزی سے برباد کرتا چلا جاتا ہے اب چاہے وہ طالب علم ہو یا گھریلو خواتین اور عام لوگ۔ یہ ایک ایسا سحر ہے جو اپنے اندر سب کچھ اتارتا چلا جا رہا ہے لیکن ماں باپ اور اساتذہ کے حوالے سے ایک بہت بڑا امتحان وہ غلیظ مواد ہے جو معاشرے کے نہ صرف معماروں کو بلکہ معمر شہریوں کی دماغی استعداد پر اثرانداز ہوتا ہے۔
ہمارے اپنے ملک میں اسلام کے حوالے سے روایتیں تو سخت ہیں لیکن درحقیقت اب جو کچھ کھلے عام اس انٹرنیٹ کے حوالے سے چل رہا ہے شرم انگیز ہے۔ کیا سب کچھ اسکرین پر لگا دینا ہماری اقدار کے ساتھ انصاف کرتا ہے؟ محبت،ایک اور لفظ کے اضافے سے جوکچھ مختصر ترین چند منٹوں میں دیکھا تو عقل ماتم کرنے لگی کہ یہ کمائی کا خوب اچھا طریقہ ہے۔
نجانے کون لوگ اس کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر و لکھاری تھے، پر نامعقولیت میں اول تھے۔ مرکزی کردار درمیانی عمر کے کردار ادا کرتے آنکھوں میں وحشت بھرے اداکار تھے۔ لوگ تنقید بھی کر رہے تھے اور تعریف بھی۔ ہمارے معاشرے میں، تو شاید یہ کہنا فضول ہی ہوگا کہ برطانیہ میں ہسٹری کی استاد کو اپنی ہی بچیوں کا آئی پیڈ چھپانے کی سزا جیل میں کیوں بھگتنی پڑی؟ اس لیے کہ تاریخ کی استاد جانتی تھی کہ ماضی میں عیش و عشرت اور فحش مواد دیکھنے کی وجہ سے قومیں کیسے برباد و خوار ہوئیں۔