Islam Times:
2025-04-23@05:22:41 GMT

ولایت تکوینی

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

‍‍‍‍‍‍

دین و دنیا پروگرام اسلام ٹائمز کی ویب سائٹ پر ہر جمعہ نشر کیا جاتا ہے، اس پروگرام میں مختلف دینی و مذہبی موضوعات کو خصوصاً امام و رہبر کی نگاہ سے، مختلف ماہرین کے ساتھ گفتگو کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ناظرین کی قیمتی آراء اور مفید مشوروں کا انتظار رہتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںولایت تکوینی آئمہ اطہارؑ
 
پروگرام دین و دنیا
عنوان: ولایت تکوینی آئمہ اطہار
میزبان: محمد سبطین علوی
مهمان: حجہ الاسلام والمسلمین جناب عون علوی
تاریخ: 10 جنوری 2025

موضوعات گفتگو:
⚫ولایت تکوینی کا معنی
????ولایت تکوینی و تشریعی میں فرق
????ولایت تکوینی کی حدود و قیو
 
خلاصہ گفتگو
 
ولایت تکوینی کا مطلب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ وہ اختیار ہے جس کے ذریعے بعض برگزیدہ ہستیاں کائنات میں اللہ کی مشیت کے تحت تصرف کرتی ہیں۔ یہ ولایت اللہ کی مخلوقات میں تخلیق، تدبیر اور معجزات کے اظہار سے جڑی ہوئی ہے۔ انبیاء، ائمہ معصومین علیہم السلام اور اولیاء اللہ کو یہ اختیار اللہ کے اذن سے عطا کیا جاتا ہے۔
 
ولایت تکوینی اور تشریعی میں فرق یہ ہے کہ ولایت تکوینی کائنات کے معاملات میں تصرف کا اختیار ہے جبکہ ولایت تشریعی احکامِ شریعت کو واضح کرنے اور نافذ کرنے کا حق ہے۔ ولایت تکوینی کی بنیاد اللہ کی مرضی اور مشیت پر ہے، اور اس کا استعمال ہمیشہ مخلوقات کی بھلائی اور ہدایت کے لیے کیا جاتا ہے۔
 
یہ ولایت مطلق نہیں بلکہ اللہ کے حکم کے تابع ہے۔ معصومین علیہم السلام کائنات میں اللہ کی مرضی کے عین مطابق تصرف کرتے ہیں، جیسا کہ حضرت عیسیٰؑ کا مردے زندہ کرنا یا امام علیؑ کا سورج کو پلٹانا۔
 
یوں ولایت تکوینی اللہ کی قدرت کا مظہر ہے جو اس کی وحدانیت اور کائنات کے نظم و ضبط کو ظاہر کرتی ہے اور انسان کو اللہ کی قربت کی دعوت دیتی ہے
 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اللہ کی

پڑھیں:

حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی مہم، امن کی کوشش یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟

اسلام ٹائمز: اگر واقعی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا لبنان کی آزادی اور امن کے لئے ہوتا، تو سب اس کا خیرمقدم کرتے لیکن جب یہ مطالبہ دشمن کی طرف سے آئے، دباؤ کے ذریعے نافذ ہو اور مزاحمت کی آخری لائن کو ختم کرنے کی کوشش ہو تو ہمیں پوچھنا چاہیئے کہ کیا ہم ایک ایسا لبنان چاہتے ہیں جو باوقار، آزاد اور مزاحمت کا علمبردار ہو؟ یا پھر ایک ایسا لبنان جو کمزور، مطیع اور اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہو۔ تحریر و آزاد تجزیہ: سید نوازش رضا

2025ء کا سال لبنان، شام، فلسطین اور پورے مشرق وسطیٰ کے لیے ایک انقلابی دور بن چکا ہے۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ، جولانی کی مغرب نواز حکومت کا قیام، حزب اللہ کی قیادت بشمول سید حسن نصراللہ کی شہادت، اور اسرائیل کی لبنان میں براہ راست عسکری موجودگی جیسے عوامل نے پورے خطے کا توازن بدل دیا ہے۔ ان حالات میں لبنانی حکومت پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا غیر معمولی دباؤ ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اور مغربی طاقتیں اسے لبنان کے امن کی ضمانت بنا کر پیش کر رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ۔۔ کیا یہ واقعی امن کی کوشش ہے یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟

حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی بات، حقیقت ہے یا فریب؟
اس وقت دنیا کو جو بیانیہ دیا جا رہا ہے وہ یہ ہے "لبنان کی خودمختاری اور امن کے لیے، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا ضروری ہے!" لیکن کیا یہ واقعی لبنان کے حق میں ہے؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ مطالبہ امریکہ اور اسرائیل کی ترجیح ہے کیونکہ حزب اللہ وہ واحد قوت ہے جس نے اسرائیل کو نہ صرف روک کر دکھایا بلکہ 2006ء کی جنگ میں سیاسی و عسکری سطح پر شکست دی۔ اگر آج حزب اللہ کے ہتھیار لے لیے جائیں تو لبنان مکمل طور پر غیر مسلح ہو جائے گا جبکہ اسرائیل ایک ایٹمی طاقت کے ساتھ لبنان کی سرحد پر بیٹھا ہے۔ تو کیا یہ برابری کا نظام ہوگا؟ کیا یہ امن ہوگا یا کمزوروں کو مزید کمزور کرنا ہوگا؟

لبنانیوں کے سامنے شام کا تجربہ ہے
بشار الاسد کی حکومت کا امریکہ، مغرب، ترکی اور اسرائیل کی حمایت سے مسلح گروہوں کے ذریعے تختہ الٹا گیا۔ پھر کیا ہوا؟ اسرائیل نے شام کی فوجی طاقت کو تباہ کر دیا، جولان کی پہاڑیوں سے نیچے آگیا اور پیش قدمی جاری رکھی۔ آج شام کے ٹکڑے کیے جا رہے ہیں اور ملک مکمل طور پر اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہے۔ شام کی آزادی، خودمختاری اور مزاحمت ختم ہو چکی ہے۔ کیا لبنانی بھی یہی تجربہ دہرانا چاہتے ہیں؟ کیا وہ اسرائیل اور امریکہ پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟

حزب اللہ کی طاقت اور اس کا کردار
یہ سچ ہے کہ حزب اللہ کے پاس ریاست جتنی طاقت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا اس طاقت کا غلط استعمال کیا؟ کیا وہ لبنان کی حکومت کا تختہ الٹنے نکلے؟ کیا انہوں نے اپنی فوجی طاقت کو اپنے شہریوں پر آزمایا؟ حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ نے اپنی طاقت کو صرف ایک ہی مقصد کے لیے استعمال کیا ہے، اسرائیل کے خلاف مزاحمت۔ جب شام میں داعش اور تکفیری گروہ آئے تو حزب اللہ لبنان کی سرحدیں بچانے کے لیے آگے آئی جبکہ باقی سیاست دان صرف بیانات دے رہے تھے۔

حزب اللہ لبنان میں ایسی جماعت نہیں ہے جسے ایک عام سیاسی جماعت کے طور پر دیکھا جائے۔ اس کا سیاسی و عسکری ڈھانچہ منظم اور طاقتور ہے۔ لبنانی سیاست پر اس کی گرفت ہے اور فوج کے اعلیٰ عہدوں پر اس کے حامی اور شیعہ افراد موجود ہیں۔ یہ ایک ریاست کے اندر مکمل طاقتور ریاستی نیٹ ورک رکھتی ہے۔ اس کے فلاحی کام صرف شیعہ علاقوں تک محدود نہیں بلکہ سنی اور عیسائی آبادیوں میں بھی اس کا فلاحی نیٹ ورک متحرک ہے۔ اسکول، اسپتال، امدادی تنظیمیں۔ سب حزب اللہ کی خدمات کا حصہ ہیں۔

حزب اللہ کی کمزوری، ایک تاثر یا حقیقت؟
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ حزب اللہ اب کمزور ہو چکی ہے۔ اس کا سبب ہے کہ شام میں بشار الاسد حکومت کا خاتمہ، جس کے باعث حزب اللہ کی سپلائی لائن کٹ گئی ہے۔ سید حسن نصراللہ سمیت کئی اعلیٰ قیادتوں کی شہادت، جس سے تنظیم کو گہرا دھچکہ پہنچا ہے۔ اسرائیلی حملوں میں اس کے اسلحہ ڈپو اور قیادت کو نشانہ بنایا گیا لیکن کیا یہ کمزوری عارضی ہے یا مستقل؟ کیا حزب اللہ مکمل طور پر مفلوج ہو چکی ہے؟ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ حزب اللہ اب بھی منظم، مسلح اور نظریاتی طور پر مزاحمت کے لیے تیار ہے۔

اگر حزب اللہ کو غیر مسلح کردیا جائے، پھر کیا ہوگا؟
اگر حزب اللہ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا جائے تو کیا اسرائیل اپنی فوجیں پیچھے ہٹا لے گا؟ نہیں۔ بلکہ وہ اور آگے بڑھے گا، یہی اس کی پالیسی رہی ہے: ’’خطرہ ختم ہو تو قبضہ بڑھاؤ‘‘۔ لبنان کی فوج کیا اسرائیل کے خلاف مزاحمت کر سکتی ہے؟ سادہ جواب ہے کہ نہیں۔ وہ نہ صرف کمزور ہے بلکہ فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار ہے۔ تو پھر کیا لبنان اپنی بقاء کے لیے امریکہ، فرانس یا اقوام متحدہ پر انحصار کرے؟ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ سب طاقتوروں کے ساتھ ہوتے ہیں، کمزوروں کے ساتھ نہیں۔

کیا حزب اللہ کو تنقید سے بالاتر سمجھا جائے؟
بالکل نہیں، کوئی بھی انسانی ادارہ، چاہے وہ مذہبی ہو یا عسکری، تنقید سے بالاتر نہیں ہو سکتا لیکن تنقید کا معیار یہ ہونا چاہیئے، اگر حزب اللہ نے کرپشن کی ہو، لبنانی عوام کو لوٹا ہو، فرقہ واریت کو بڑھایا ہو، یا ذاتی مفاد کے لیے ہتھیار اٹھائے ہوں تو وہ تنقید کے قابل ہیں، لیکن اگر کسی گروہ نے صرف دشمن کے خلاف مزاحمت کی ہو، غریب علاقوں میں فلاحی نظام قائم کیا ہو، دفاعِ وطن کی خاطر جانیں قربان کی ہوں، تو پھر حزب اللہ کے خاتمے کا مطالبہ حکمت نہیں بلکہ قومی خودکشی ہے۔

نتیجہ: ایک جائز سوال
اگر واقعی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا لبنان کی آزادی اور امن کے لئے ہوتا، تو سب اس کا خیرمقدم کرتے لیکن جب یہ مطالبہ دشمن کی طرف سے آئے، دباؤ کے ذریعے نافذ ہو اور مزاحمت کی آخری لائن کو ختم کرنے کی کوشش ہو تو ہمیں پوچھنا چاہیئے کہ کیا ہم ایک ایسا لبنان چاہتے ہیں جو باوقار، آزاد اور مزاحمت کا علمبردار ہو؟ یا پھر ایک ایسا لبنان جو کمزور، مطیع اور اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہو۔

اصل تحریر:
https://hajij.com/en/articles/political-articles-analysis/item/2935-the-campaign-to-disarm-hezbollah-a-peace-effort-or-the-agenda-of-the-powerful

متعلقہ مضامین

  • مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری
  • جو نام ہم بھجواتے وہ جیل انتظامیہ قبول نہیں کرتی، نعیم حیدر
  • حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی مہم، امن کی کوشش یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟
  • دہشت گردوں سے لڑنا نہیں بیانیے کا مقابلہ کرنا مشکل ہے، انوارالحق کاکڑ
  • نئے پوپ کا انتخاب کیسےکیا جاتا ہے؟
  • ہمارے خلاف منصوبے بنتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں آؤ ہم سے بات کرو، سلمان اکرم راجہ
  • مسیحیوں کے تہوار ’ایسٹر‘ کی دلچسپ تاریخ
  • یہودیوں کا انجام
  • باطنی بیداری کا سفر ‘شعور کی روشنی
  • گلشن اقبال کراچی میں شہری کے ہاتھوں مبینہ ڈاکو کی ہلاکت، ویڈیو سامنے آگئی