Express News:
2025-04-22@06:10:58 GMT

فزیو تھراپی کی تعلیم کے حوالے سے رپورٹ

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

پاکستان میں میڈیکل کے اہم شعبے فزیو تھراپی کی تعلیم کو کنٹرول کرنے کے لیے وفاقی حکومت کی سطح پر کوئی سرکاری ادارہ موجود نہیں۔ فی الحال ہائر ایجوکیشن کمیشن فزیو تھراپی کی تعلیم اور نصاب کی نگرانی کرتا ہے۔
تاہم سندھ میں 2023 میں صوبائی محکمہ صحت سندھ کے تحت سندھ فزیو تھراپی کونسل قائم کی گئی جس کی منظوری سندھ اسمبلی نے دے دی ہے۔ قائم کی جانے والی کونسل سندھ میں فزیو تھراپیسٹ ڈگری حاصل کرنے والوں کو رجسٹر ڈ کرے گی۔
سندھ سمیت ملک بھر میں پانچ سالہ ڈاکٹر آف فزیو تھراپی کی ڈگری مکمل کرنے والے طلبہ اور طالبات کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے کیونکہ سرکاری سطح پر اسپتالوں میں فزیو تھراپسٹ کی اسامیاں کم اور ڈگری مکمل کرنے والے طلبہ و طالبات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ 
نجی اسپتالوں میں فزیو تھراپی کے پیکیجز مختلف ہیں اور یومیہ فزیو تھراپی کے چارجز 2 ہزار روپے سے لے کر 10 ہزار روپے تک وصول کیے جاتے ہیں۔ صوبائی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں فزیو تھراپی کے شعبہ میں موجود سہولیات کو مزید بڑھایا جا رہا ہے۔
چ
ایکسپریس ٹریبیون نے ڈاکٹر آف فزیو تھراپیسٹ کی تعلیم کے حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی ہے۔

فزیوتھراپی کی تعلیم مکمل کرنے والی ڈاکٹر حرا نے بتایا کہ انٹرسائنس کے بعد میڈیکل کالج میں داخلہ نا ملنے کی وجہ سے جناح اسپتال کے جناح فزیوکالج میں 2018 میں داخلہ لیا۔2023 میں 5 سالہ ڈاکٹر آف فزیوتھراپی کورس مکمل کیااور اب جناح اسپتال کراچی کے شعبہ فزیوتھراپی یونٹ میں ہاوس جاب کررہی ہوں۔ بدقسمتی سے حکومت کی جانب سے پانچ سالہ ڈگری کورس کرنے کے بعد بھی فزیوتھراپسٹ کو دوران ہاوس جاب ماہانہ معاوضہ نہیں ملتا جبکہ ایم بی بی ایس کے بعد ڈاکٹر کو ہاوس جاب کے دوران ماہانہ معاوضہ دیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر اف فزیوتھراپسٹ پانچ سالہ کورس کے بعد بھی کراچی میں نجی اسپتال میں ملازمت 20 سے 25 ہزار روپے ماہانہ معاوضہ دیاجاتا ہے جو کہ بہت کم ہیں۔ مزید برآں جناح اسپتال میں کالج آف فزیوتھراپی کراچی یونیورسٹی سے الحاق شد ہ ہے اور ہمیں ڈگری کراچی یونیورسٹی کی دی جاتی ہے۔ کراچی میں بیشتر میڈیکل کالجوں اور اداروں نے DPT کورس شروع کردیا ہے جس کی وجہ سے طلبا کی تعداد بڑھتی جارہی ہے لیکن ان کو جاب نہیں ملتی۔ 
جناح اسپتال کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر نوشین نے بتایا کہ اسپتال میں کالج آف فزیوتھراپی 1956 میں قائم کیا گیا تھا۔ اب تک تقریبا 3 ہزار سے زائد فزیوتھراپسٹ اپنی گریجویشن مکمل کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے کالج میں ہر سال 54 طلبا کو داخلہ دیے جاتے ہیں۔ لیکن اس سال نشستوں کی تعداد بڑھا کر 64 کردی گئی ہے۔ ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی پہلے 4 سالہ ڈگری پروگرام ہوا جوکہ اب 5 سالہ پروگرام کردیا گیا ہے۔


سندھ فزیو تھراپی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر دبیر احمد نے بتایا کہ سندھ میں پہلی بار 31 جولائی 2023 کو محکمہ صحت کے ایک نوٖٹیفیکشن کے مطابق مجھے سندھ فزیوتھراپی کونسل کے قیام کی ذمہ درای سونپی گئی، انہوں نے بتایا کہ سندھ فزیوتھراپی کونسل کے خدوخال تیار کیے جارہے ہیں، کونسل ابھی تک سندھ میں فعال نہیں تاہم اس پر کام جاری ہے۔ 
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں فزیو تھراپی کی تعلیم کا ضابطہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے تحت آتا ہے۔ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (JPMC) اور اسکول آف فزیوتھراپی، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، میو ہسپتال لاہور جیسے اہم اداروں نے ملک میں پی ٹی کی تعلیم میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

فزیو تھراپسٹ ڈاکٹر عائشہ نے بتایا کہ فزیو تھراپی مختلف مشینوں کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ فزیو تھراپی ان مریضوں کی ہوتی ہے جن کے جسم کے مختلف حصوں میں درد عر ق النساء اور ریڑھ کی ہڈی کے مریضوں سمیت وہ مریض جو مختلف حاد ثات کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے۔ ہڈی جڑنے کے بعد ان کے متاثرہ حصے کے پھٹوں کو دوبارہ متحرک کرنے کے لیے فزیو تھراپی کی جاتی ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں فزیو تھراپی کی سہولیات مفت ہیں لیکن وہاں مریضوں کی تعداد زیادہ ہے اور مشینیں کم ہیں۔ نجی اسپتالوں میں فزیو تھراپی کی مختلف اقسام کی فیس مرض کے مطابق لی جاتی ہے، جو یومیہ 2 ہزار روپے سے لے کر 10 ہزار روپے یا اس سے زائد ہے۔ اس کے علاوہ آج کل گھروں پر بھی فزیو تھراپی سروسز فراہم کی جاتی ہیں۔ فزیو تھراپسٹ متاثرہ مریض کو یومیہ 1500 سے 4 ہزار روپے میں اپنی خدمات فراہم کرتا ہے۔

عرق النساء کے درد میں مبتلا ایک 62 سالہ خاتون کہکشاں نے بتایا کہ انہیں گزشتہ 4 سال سے عرق النساء کی تکلیف ہے اور ہفتے میں وہ دو دن فزیو تھراپی کرانا ان کے لیے ضروری ہے۔ نجی اسپتالوں میں یا گھر پر فزیو تھراپی کرانا مالی مشکلات کی وجہ سے ان کے لیے ناممکن ہے۔ اس لیے وہ سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد سے فزیو تھراپی کراتی ہیں لیکن اسپتال میں فزیو تھراپی کرانے والے مریضوں کا رش بہت زیادہ ہوتا ہے اور اسپتال میں مشینوں کی بہت کمی ہے۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں فزیو تھراپی کی مشینوں میں اضافہ کیا جائے۔

صوبائی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں فزیو تھراپی کے شعبہ میں موجود سہولیات کو مزید بڑھایا جا رہا ہے۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہزار روپے سندھ فزیو انہوں نے ڈاکٹر آف کی تعداد آف فزیو ہے اور کے لیے کے بعد

پڑھیں:

سندھ کے تعلیمی اداروں میں کیا ہورہا ہے؟

سندھ کے تعلیمی اداروں میں اس وقت ابتر صورت حال ہے، محکمہ تعلیم کی اعلیٰ بیوروکریسی تعلیمی ترقی کے لیے منصوبہ بندی اختیارکرنے میں ناکام نظر آتی ہے، اگرچہ محکمہ تعلیم کے پاس وافر بجٹ ہے اور بین الاقوامی اداروں سے بھی سندھ کے محکمہ تعلیم کو امداد ملتی رہی ہے، لیکن حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ سندھ کے حکومت کی نگرانی میں چلنے والے تعلیمی اداروں میں نظم وضبط کا فقدان ہے۔

اساتذہ اپنی ذمے داریاں ادا نہیں کر رہے ہیں اور طلبہ بھی تعلیم کے بجائے زیادہ تر غیرنصابی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، سندھ کے دیہی علاقوں میں فقط سرکاری فائلوں پر تعلیمی ادارے موجود ہیں لیکن عملاً ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس طرح زیادہ تر تعلیمی بجٹ خرد برد کیا جاتا ہے اور قومی خزانے کو لوٹا جاتا ہے۔

خود حکومت کے ذرائع تسلیم کرتے ہیں کہ محکمہ تعلیم میں ہر سطح پر بدعنوانیاں موجود ہیں لیکن ان بدعنوانیوں کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔ سندھ ایک ایسا صوبہ ہے جس کی یونیورسٹیوں میں بھی اعلیٰ تعلیم میں تحقیق کے پہلو کو نظر اندازکیا جا رہا ہے اور تعلیمی معیار پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔

1973ء کے آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت ملک میں 5 سے 16 سال کی عمرکے بچوں کو مفت لازمی تعلیم دینے کی حکومت پابند ہے۔ نومبر 2011میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ نے میٹرک تک مفت اور لازمی تعلیم کے بل کی اتفاق رائے سے منظوری دی، اس بل کے تحت بچوں کو نہ پڑھانے والے والدین کو پانچ ہزار روپے اور اسکول میں داخل نہ کرنے کی بنیاد پر پانچ سو روپے روزانہ کی بنیاد پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

کینیڈا کے ایک ادارے اور پاکستان کی ایک یونیورسٹی کے ٹیچر ایجوکیشن کے شعبے کے اشتراک عمل سے جو تحقیقی رپورٹ سندھ کے تعلیمی اداروں کی ابتر صورتحال کے متعلق منظر عام پر آئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صوبے میں تعلیمی معیار زوال پذیر ہے اور اساتذہ بھی اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کررہے ہیں۔

اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق سندھ کے 70 فیصد پرائمری اسکولوں میں صرف 15 منٹ پڑھایا جاتا ہے۔ 20 فیصد اساتذہ 20 منٹ سے زائد اور 10 فیصد 5 منٹ سے بھی کم وقت تک پڑھاتے ہیں۔ اس تحقیق کے لیے سندھ کے بہت سے اضلاع کا انتخاب کیا گیا تھا۔

سروے کے نتائج مرتب کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ان اضلاع کے طالب علموں کو تعلیم دینے پر اساتذہ کی توجہ نہیں ہے اور طلبہ بھی پڑھائی میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔ اساتذہ تنخواہیں اور مراعات وصول کرتے ہیں مگر وہ تدریسی ذمے داریاں ادا کرنے سے گریزکرتے ہیں۔ اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق سندھ کے ان اضلاع میں بچوں کو عام طور پر تعلیمی اداروں میں نہیں بھیجا جاتا۔

اس طرح ان تعلیمی اداروں میں 46 فیصد طالب علم عموماً غیر حاضر رہتے ہیں اور تعلیم پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ رپورٹ مرتب کرنے والوں کی یہ بھی رائے ہے کہ اساتذہ کی تربیت کے لیے اصلاحات میں تسلسل نظر نہیں آرہا ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ سے سندھ حکومت کے محکمہ تعلیم کی ناقص کارکردگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ صوبے میں نہ صرف تعلیمی معیار بہتر ہوسکے بلکہ اساتذہ بھی اپنی تدریسی ذمے داریاں یکسوئی اور سنجیدگی سے ادا کریں۔

آج کے پاکستانی معاشرے میں تعلیم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور مستقبل میں بھی تعلیم کا فروغ اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ حکومت کے تعلیم سے متعلق پالیسی ساز ادارے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔ تعلیمی معیارکو بڑھانے کے لیے اقدامات کے اعلان کیے جاتے ہیں۔

خوشنما الفاظ پر مشتمل تقاریرکی جاتی ہیں مگر عملاً سندھ میں تعلیمی معیارکی ترقی پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے اور طالب علموں میں بھی تعلیم کے حصول کا جذبہ موجود نہیں ہے۔ جب اساتذہ کو اپنی تدریسی ذمے داریاں کا احساس نہیں ہے اور طالب علموں کو وہ مقررہ وقت تک پڑھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محکمہ تعلیم کا بجٹ منظورکرنے والے حکام خواب خرگوش میں کیوں مبتلا ہیں؟ اور کس لیے وہ نااہل اساتذہ کے خلاف کارروائی سے گریزکر رہے ہیں؟ حکومت اور اقوام متحدہ کے یونیسف ادارے کی طرف سے کرائے گئے مشترکہ سروے کے مطابق سندھ میں بچوں کو غیر انسانی حالات کا سامنا ہے، جوکہ بین الاقوامی معیار سے بہت کم ہے، اس غذائی قلت کی وجہ سے بچے مختلف ذہنی و جسمانی امراض میں پہلے ہی مبتلا ہیں۔ سندھ کے تعلیمی اداروں میں بچوں کے تعلیمی حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے جامع حکمت عملی طے کرنا بھی محکمہ تعلیم سندھ کی ذمے داری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے کنوینئر پارلیمانی کاکس آن چائلڈ رائٹس ڈاکٹر نکہت شکیل خان کی سربراہی میں وفد کی ملاقات
  • کراچی میں شدید گرمی کے باعث اسپتالوں میں ہیٹ اسٹروک وارڈز قائم
  • سرکاری اسپتالوں کی نجکاری کیخلاف ڈاکٹرز کی ہڑتال، او پی ڈیز بند، پولیو ورکرز کا بھی احتجاج
  • سندھ کے بیشتر سرکاری اسپتالوں میں قواعد کیخلاف تعیناتیاں، مریضوں کو علاج میں دشواریاں
  • جناح اسپتال کے ڈاکٹر پر تشددکا معاملہ، احتجاج پر ینگ ڈاکٹرز تقسیم، مطالبات بھی سامنے آگئے
  • ہسپتال میں 77 سالہ بزرگ پر ڈاکٹر کا بہیمانہ تشدد ، ویڈیو وائرل
  • کراچی میں گرمی کا راج، جلدی امراض تیزی سے پھیلنے لگے
  • کراچی: گرمی کی شدت میں اضافے سے جلدی امراض تیزی سے پھیلنے لگے، اسپتالوں میں رش
  • سندھ کے تعلیمی اداروں میں کیا ہورہا ہے؟
  • پنجاب میں اسپتالوں کی نجکاری کے خلاف ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال جاری