نوجوانوں میں نشہ کا بڑھتا ہوا رجحان
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
کسی بھی قوم کیلئے ان کی نوجوان نسل مستقبل کے معمار کےطور پر بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ان کی صحتمندانہ سرگرمیاں اور عمدہ تعلیم و تربیت ہی انہیں معاشرے کا فعال اور کارآمد فرد بنا سکتی ہے۔ راقم کو 1990 تا 2000 اپنے کیریئر کے آغاز میں کم و بیش ایک دہائی کالجز میں تدریس کی بنا پر، اب بھی پاکستان میں مختلف سطح کے تعلیمی اداروں میں انتظامیہ و تدریسی عملہ سے رابطہ اور صورت احوال سے آگاہی کا موقع ملتا رہتا ہے۔ جہاں محنتی طلبہ کی صحتمند اور خوشگوار سرگرمیاں قابل ستائش ہیں وہاں کچھ قباحتیں قابل مذمت اور والدین، انتظامیہ وحکام بالا کی فوری توجہ کی مستحق بھی ہیں۔ان میں سے ایک یہ کہ ان دنوں نوجوانوں میں “آئس” نامی قاتل نشے کا بڑھتا ہوا رجحان حددرجہ تشویشناک ہے۔”آئس“ سمیت کئی نئے نئے نشے اب پوش علاقوں کے نوجوانوں کی تفریح کاحصہ بن چکے ہیں۔ ”پارٹی ڈرگز“ کہلانے والی یہ منشیات پارٹیز سے نکل کر تعلیمی اداروں میں پہنچ چکی ہیں۔ اس سے قبل ہیروئن ، چرس اور دیگر نشے عام تھے۔ ” آئس“ ان ناموں میں ایک نیا اضافہ ہے جو گزشتہ 4 تا 5 سال سے ہمارے معاشرے میں پھیل رہا ہے۔
تعلیمی اداروں اور ان کے ہاسٹلز میں مقیم نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد مسلسل اس لعنت کا شکار ہورہی ہے۔ اس کو سگریٹ کے ذریعے عوامی مقامات پر بھی بآسانی استعمال کیاجاتا ہے اور بدبو نہ ہونے کی وجہ سے یہ دوسرے نشہ جات کی طرح بظاہر معیوب بھی محسوس نہیں ہوتا۔ اس نشے میں 24 سے 48 گھنٹوں تک جگانے کی خاصیت موجود ہونے کی وجہ سے پہلے پہل طلبہ اس کی طرف اس لئے راغب ہوتے ہیں تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ امتحان کی تیاری کرسکیں مگر اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں کہ اس طرح وہ ایک عذاب میں مبتلا ہونےجارہے ہیں۔ بعد میں وہ ان کے دماغ کو کمزور اور وجود کو کمزور کرکے انہیں جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار کردیتا ہے۔ وہ معاشرے کےناکارہ فرد بن کر رہ جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ICE کا نشہ amphetamine نامی ایک کیمیکل سےبنتا ہے۔ یہ چینی یانمک کےبڑے دانے کے برابرایک کرسٹل قسم کی سفیدچیزہوتی ہےجسےباریک شیشے سے گزارکر گرم کیاجاتاہے۔ اس کے لئے عموما بلب کےباریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض افراد اسے انجکشن کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔ اس قاتل زہر کے تاجر پہلے پارٹیز میں مفت آئس دے کر نوجوانوں کو اس کا عادی بناتے ہیں، بعد میں انہیں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے رینجرز نے کراچی میں چھاپہ مار کر آئس بنانے والے ایک گروہ کے آٹھ افرادکو حراست میں لیا تھا جو کراچی کے پوش علاقوں میں اس زہر کی سپلائی کرتے تھے۔ اسی طرح لاہور کے پوش علاقوں، جامعات، ہاسٹلز اور فارم ہاؤسز میں اس نشے کو سپلائی کیاجاتا ہے۔ شہراقتدار کی جامعات میں بھی بآسانی یہ آئس نامی زہر قاتل دستیاب ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یونیورسٹی ملازمین اور دیگر افراد نوجوانوں کو آئس فراہم کرتے ہیں۔” آئس” پشاور اورقبائلی علاقوں میں آسانی سے مل جاتی ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں کام کرنے والی خفیہ لیبارٹریاں بھی” آئس“ تیار کر کے فروخت کررہی ہیں۔
خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں ” آئس“ کو ہیروئن کی جگہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ بد قسمتی سے اس لت میں سب سے زیادہ مبتلا بھی تعلیمی اداروں کے طلبہ ہیں۔ ہوش اڑا دینے والی ایک حقیقت یہ کہ کثیر تعداد میں لڑکیاں اس نشے کا شکار ہیں۔ ” آئس“ نشے کی بڑی مقدار پڑوسی ممالک سے مختلف طریقوں سے پاکستان پہنچ رہی ہے۔ چین سے پڑھ کر واپس آنے والے کئی طلبہ میں بھی” آئس“ کی لت پائی گئی کیوں کہ چین میں یہ نشہ کافی عام ہورہا ہے۔ تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ” آئس“ استعمال کرنے والے بیشتر افراد پہلے ہیروئن کے عادی رہ چکے ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں میں بحالی نو کے مراکز اِس نشے کے متاثرہ مریضوں کا علاج کررہے ہیں۔ یہ مراکز انتہائی محتاط طریقے سے چلائے جارہے ہیں کیوں کہ انہیں یہاں آنے والے افراد کی شناخت کو خفیہ رکھنا ہوتا ہے اور انہیں شرمندگی سے بھی بچانا ہوتا ہے جبکہ یہ کافی مہنگے بھی ہیں تاہم اب تک حکومت کی طرف سے اس نشے کی روک تھام کے سسلسلے میں کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ابھی تک خصوصی طور پر اس کے سمگلروں اور پینے والوں کے لیے کوئی سزا مقرر کی گئی ہے حکومت کی جانب سے اس وقت اس برائی کو روکنا اور نوجوان نسل کو اس کی لت سے بچانا انتہائی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں لوگوں میں منشیات کی لعنت کے بارے میں آگاہی دینا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ منشیات ہی بہت سے جرائم اور سماجی برائیوں کی جڑ ہیں۔قوم کے نوجوان تباہی کی منزلوں کی جانب گامزن ہیں مگر کوئی انہیں روکنے والا نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آئس سمیت منشیات کے خلاف آگاہی مہم اور کارراوائی میں طلبہ تنظیمیں اور اساتذہ حکومت کا ساتھ دیں اور حکومت کو بھی چاہیے کہ آئس جیسے نشے اور اس میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے تاکہ اس ناسور کو مزید پھیلنے سے روکا جائے.
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: تعلیمی اداروں
پڑھیں:
پاکستان کے مختلف شہروں میں سیمنٹ کی قیمتوں میں ملا جلا رجحان
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان کے اہم شہروں میں سیمنٹ کی قیمتوں میں ملا جلا رجحان دیکھنے میں آیا ہے، کچھ شہروں میں معمولی اضافہ ہوا ہے، جبکہ کچھ میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے، تاہم سالانہ بنیادوں پر مجموعی طور پر قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اسلام آباد میں سیمنٹ کی قیمت 6 روپے اضافے سے 1,387 روپے فی بوری تک پہنچ گئی، جو 0.4 فیصد ہفتہ وار اضافہ اور 14.6 فیصد سالانہ اضافہ ہے۔ گزشتہ سال اپریل 2024 میں قیمت 1,210 روپے تھی۔
راولپنڈی میں قیمت 2.1 فیصد اضافے کے ساتھ 1,379 روپے فی بوری ہو گئی، جو پچھلے سال کی 1,199 روپے قیمت کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ ہے۔
لاہور میں معمولی 1.4 فیصد کمی دیکھی گئی، جہاں قیمت 1,497 روپے فی بوری رہی، تاہم سالانہ بنیاد پر اب بھی 19.8 فیصد اضافہ موجود ہے۔ اپریل 2024 میں قیمت 1,250 روپے تھی۔
پشاور میں 0.1 فیصد کا معمولی اضافہ ریکارڈ ہوا، اور قیمت 1,400 روپے فی بوری ہو گئی۔ گزشتہ سال کی 1,201 روپے قیمت کے مقابلے میں 16.6 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
کراچی میں سیمنٹ کی قیمت مستحکم رہی اور 1,313 روپے فی بوری پر برقرار رہی، تاہم سالانہ بنیاد پر قیمت میں 12.1 فیصد اضافہ ہوا، کیونکہ اپریل 2024 میں قیمت 1,171 روپے تھی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، مہنگائی، توانائی لاگت، اور ترسیل کے مسائل سیمنٹ کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی بڑی وجوہات ہیں، جو آئندہ ہفتوں میں بھی اسی رجحان کے ساتھ جاری رہنے کا امکان رکھتے ہیں۔
جماعت اسلامی کا متوقع غزہ مارچ، اسلام آباد میں سیکیورٹی ہائی الرٹ، ریڈ زون سیل