دنیا مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی جبر اور آزاد کشمیر میں جمہوری آزادیوں کے درمیان فرق کو ملحوظ نظر رکھے، پیر مظہر شاہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
وزیر برائے مذہبی امور آزاد کشمیر کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں شہداء کی پاکستان کے پرچم میں لپٹے تدفین مملکت خداداد کے ساتھ کشمیریوں کی لازوال محبت کا ثبوت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آزاد جموں و کشمیر کے وزیر برائے مذہبی امور پیر مظہر عبداللہ شاہ نے کشمیری عوام کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی اور کشمیر کاز کی بھرپور حمایت پر پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں شہداء کی پاکستان کے پرچم میں لپٹے تدفین مملکت خداداد کے ساتھ کشمیریوں کی لازوال محبت کا ثبوت ہے۔ ذرائع کے مطابق پیر مظہر عبداللہ شاہ نے ایک میڈیا انٹرویو میں کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعینات بھارتی فوج ایک قابض فوج کی حیثیت رکھتی ہے جس کے ظلم و ستم کے نتیجے میں علاقے میں گیارہ ہزار خواتین بیوہ ہوئیں جبکہ آزاد جموں و کشمیر میں موجود پاکستان کی فوج یہاں کے لوگوں کی محافظ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہے جس پر کشمیری اس کے مشکور ہیں۔
انہوں نے آزادجموں و کشمیر میں ہونے والے حالیہ پرامن مظاہروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لوگ اپنے مسائل کے لیے پرامن طور پر سڑکوں پر نکلے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس مقبوضہ جموں و کشمیر میں اس طرح کے مظاہروں کو برداشت نہیں کیا جاتا اور بھارتی حکومت طاقت سے جواب دیتی ہے۔ پیر مظفر شاہ نے کہا کہ دنیا کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری بھارتی جبر اور آزاد جموں و کشمیر میں رائج جمہوری حقوق اور آزادیوں کے درمیان فرق کو ملحوظ نظر رکھنا چاہیے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
نکیال آزاد کشمیر۔۔۔ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں
اسلام ٹائمز: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ صاحب! ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں، یہ بچی ہمیں یہ سمجھا گئی ہے کہ فرقہ پرست مُلاّں یہ شعور نہیں رکھتے کہ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ بچیوں کے جنازوں پر فرقوں کی سیاست نہیں کی جاتی۔ بچیاں، محبت کا وہ معصوم روپ ہوتی ہیں، جو کسی ایک مسلک، قبیلے یا قوم کی ملکیت نہیں ہوتیں بلکہ وہ کائنات کے حُسن کی روشن تجلی ہیں۔ انکے قہقہے، انکی شرارتیں، انکے ننھے ہاتھوں کی معصوم دعائیں۔۔۔ بیٹیاں خدا کیجانب سے انسانوں کو دی گئی وہ رحمتیں ہیں، جنہیں کوئی دیوار، کوئی فرقہ، کوئی جغرافیہ محدود نہیں کرسکتا۔ جب ایک بچی فوت ہو جاتی ہے، تو گویا بہاروں کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے اور جب ایک معصوم بچی کے جنازے پر کوئی مولوی فساد کھڑا کرے تو یہ صرف ایک بدنصیب خاندان کا سانحہ نہیں ہوتا بلکہ ایسا فساد پورے معاشرے کے ماتھے پر شرمندگی کی ایک نمایاں انمٹ سلوٹ بن جاتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
دریڑی پلانی، نکیال گاؤں میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ سوشل میڈیا کے مطابق ایک حادثے یا ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں شدید زخمی ہونے والے مولانا چوہدری ساجد رحمانی کا کہنا ہے کہ پہلی ٹکر میں ہم لوگ معمولی زخمی ہوئے، لیکن ڈرائیور نے دوبارہ گاڑی ریورس کرکے مجھے، میری بیوی اور بچی پر گاڑی چڑھا دی، جس سے ہم شدید زخمی ہوگئے۔ اس واقعے کے حوالے سے شیعہ علماء کونسل آزاد کشمیر کے وفد نے ڈپٹی کمشنر کوٹلی، میجر (ر) ناصر رفیق اور ایس ایس پی کوٹلی، عدیل لنگڑالوی سے اہم ملاقات کی ہے۔ شنید ہے کہ جس گاڑی نے موٹر سائیکل پر سوار مولانا کو ٹکر ماری، وہ نکیال کے ہی کسی شخص کی ملکیت ہے۔ دمِ تحریر مولانا چوہدری ساجد رحمانی کی بیوی اور بچی اس دارِ فانی سے کوچ کرچکی ہیں۔
یہ واقعہ فرقہ وارانہ منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ ریاستی اداروں کو کرنا چاہیئے۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ آزاد کشمیر میں مقامی سطح پر نہ فرقہ واریت کے نیٹ ورکس موجود ہیں اور نہ ہی مذہبی ٹارگٹ کلنگ کے۔ جب بھی ایسا کوئی واقعہ رونماء ہوتا ہے تو اُس کے تانے بانے آزاد کشمیر سے باہر کے دینی مدارس یا عسکری تنظیموں سے جا ملتے ہیں۔ اس سے قبل عباس پور اور مظفرآباد میں بھی ایسا بہت کچھ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہاں پر یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کا مشترکہ اور ازلی دشمن ہندوستان ہے۔ ماضی میں انڈین ایجنسی را کی گود میں بیٹھنے والے ہمارے نام نہاد مجاہد بھائیوں نے جس بے دردی سے مساجد، امام بارگاہوں، اولیائے کرام کے مزارات، پبلک مقامات، صحافیوں، شاعروں، ڈاکٹروں اور پولیس و فوج کے اہلکاروں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا ہے، اُسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس بربریت کا براہِ راست فائدہ ہندوستان کو پہنچا اور بارڈر کے دونوں طرف کے کشمیری یہ نعرہ لگانا ہی بھول گئے کہ "کشمیر بنے گا پاکستان۔"
لوگوں کو یہ خوف لاحق ہوگیا کہ یہ نام نہاد "مجاہدین" اپنے جرگے بٹھا کر اور خود ساختہ عدالتیں لگا کر ہمیں درختوں سے لٹکا کر گولیاں ماریں گے اور ہماری خواتین و بیٹیوں کو کنیز بنا لیں گے۔ سانحہ اے پی ایس، سانحہ کوہستان، سانحہ بابوسر۔۔۔ یہ سب سانحات گواہ ہیں کہ ایسے عناصر انسانیت سے عاری ہوتے ہیں اور ان کے لیے نہ کوئی فرقہ اہم ہوتا ہے، نہ قوم، نہ عمر، نہ جنس، نہ بچہ اور نہ بچی۔۔۔۔ آزاد کشمیر جو اولیائے کرام کی سرزمین ہے، وہاں مولانا چوہدری ساجد رحمانی کی معصوم بچی کے جنازے کے موقع پر دھنگا فساد کرانے کی کوشش کوئی معمولی بات نہیں۔ نکیال سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ شاہ نواز علی شیر، جو کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کے ممبر اور بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری جنرل بھی ہیں، انہوں نے اپنے کالم میں بالکل درست کہا ہے کہ "حکامِ بالا! اگر آج آپ خاموش رہے، تو کل یہ آگ کسی تھانے، مدرسے، مسجد، اسکول یا بازار تک پہنچ جائے گی۔ یہ محض ایک جنازے پر جھگڑا نہیں تھا؛ یہ معاشرے کے ضمیر کی موت، قانون کی بے بسی اور انسانیت کے چہرے پر ایک سیاہ داغ تھا۔
محترم کالم نگار کے مطابق، مولانا چوہدری ساجد رحمانی کا مسلک شیعہ ہے۔ موقع پر موجود ویڈیوز اور عینی شاہدین کے مطابق، اہلِ تشیع نے ہمیشہ کی طرح واضح کیا کہ جنازے دو ہی ہوں گے؛ ایک اہلِ سنت کے مطابق اور دوسرا اہلِ تشیع کے مطابق۔ اس وضاحت کے باوجود ایک مولوی صاحب نے اہلِ سنت کے عمومی اخلاق کے برعکس، یہ اعلان کیا کہ "نہیں، جنازہ تو صرف ایک ہی ہوگا اور وہ بھی صرف اہلِ سنت طریقے کے مطابق۔ ہم دوسرا جنازہ نہیں پڑھنے دیں گے۔" انسان کے اندر سب سے قیمتی چیز اس کا اخلاق ہے اور یہی اخلاق اس کی شناخت اور مقام کی گواہی دیتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ رویہ اہلِ سنت کا اخلاق نہیں ہوسکتا، کیونکہ آزاد کشمیر میں اہلِ سنت کے اندر مدبر، تعلیم یافتہ اور روشن فکر شخصیات کی کمی نہیں۔
اس موقع پر بچی کے ورثاء نے کہا کہ اگر ایک ہی جنازہ ہونا ہے، تو پھر ہمیں اپنا شیعہ جنازہ پڑھانے دیں اور اہلِ سنت حضرات ہماری چوتھی رکعت کے اختتام پر اپنی نماز مکمل کرلیں۔ اس پر وہی مولوی صاحب چِلانے لگے کہ صرف اہلِ سنت کی چار تکبیریں "اصلی" ہیں، اس لیے صرف وہی جنازہ پڑھائیں گے۔ ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے، لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ یہ اخلاق اہلِ سنت کا نہیں۔ لہٰذا اس مولوی صاحب کے بارے میں تحقیق ہونی چاہیئے کہ کہیں وہ اس حسّاس سرحدی علاقے میں بھارتی انٹیلیجنس "را" کے لیے تو کام نہیں کر رہے؟ ان دنوں بلوچستان اور افغان بارڈر سمیت پورے پاکستان میں را کی سرگرمیوں اور ایجنٹوں کی موجودگی میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ ایسے میں نکیال جیسے حساس سرحدی علاقے میں ایسی حرکت کسی دشمن ملک کے ایجنڈے کا حصہ بھی ہوسکتی ہے۔
بہرحال عوامِ علاقہ کو یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ جب ہم انسانی احترام اور حب ُّ الوطنی کو فراموش کر دیتے ہیں، تو پھر ہم جنگ انسانیت اور اپنے ہی وطن کے خلاف لڑ رہے ہوتے ہیں، نہ کہ کسی مذہب یا فرقے کے خلاف۔ نکیال کے ایڈوکیٹ نے بجا طور پر مطالبہ کیا ہے کہ فرقہ واریت کو ہوا دینے والے عناصر کے خلاف فوری، غیرجانبدار اور مؤثر قانونی کارروائی کی جائے۔ جنازوں اور لاشوں کی بے حرمتی کو سختی سے روکا جائے۔ تحصیل و ضلع کی سطح پر بین المسالک ہم آہنگی کے لیے نمائندہ کمیٹی تشکیل دی جائے۔ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے SOPs مرتب کیے جائیں۔ انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ تمام مکاتبِ فکر کے علماء کو تحصیل و ضلعی سطح پر جمع کرکے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے، جس میں واضح کیا جائے کہ معصوموں کے جنازے، دعائیں اور تدفین کسی مسلک سے بالاتر ہیں۔
شاہ نواز علی شیر کا یہ جملہ ہر باشعور انسان کے دل کو چھو لیتا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کے لیے ایک ایسا ماحول چھوڑنا ہے، جہاں جنازے رشتوں کو توڑیں نہیں، جوڑیں۔ جہاں مذہب دلوں کو نرم کرے، سخت نہ کرے۔ جہاں تکبیر کی تعداد نہیں، دعا کی تاثیر دیکھی جائے۔ وہ اپنے سماج سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم سب کو یہ یاد دلانا ہوگا کہ اسلام اخلاص کا نام ہے، نمازِ جنازہ ایصالِ ثواب اور دعا کا عمل ہے، نہ کہ فرقوں کی برتری کا میدان۔ شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ کے اس جملے کے بعد میرے لکھنے کو کچھ نہیں بچتا کہ ان فتنہ گروں کے بیچ وہ معصوم بچی صرف ایک کفن چاہتی تھی، ایک دعا اور ایک پُرامن رخصتی۔ شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ صاحب! ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں، یہ بچی ہمیں یہ سمجھا گئی ہے کہ فرقہ پرست مُلاّں یہ شعور نہیں رکھتے کہ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔
بچیوں کے جنازوں پر فرقوں کی سیاست نہیں کی جاتی۔ بچیاں، محبت کا وہ معصوم روپ ہوتی ہیں، جو کسی ایک مسلک، قبیلے یا قوم کی ملکیت نہیں ہوتیں بلکہ وہ کائنات کے حُسن کی روشن تجلی ہیں۔ ان کے قہقہے، ان کی شرارتیں، ان کے ننھے ہاتھوں کی معصوم دعائیں۔۔۔بیٹیاں خدا کی جانب سے انسانوں کو دی گئی وہ رحمتیں ہیں، جنہیں کوئی دیوار، کوئی فرقہ، کوئی جغرافیہ محدود نہیں کرسکتا۔ جب ایک بچی فوت ہو جاتی ہے، تو گویا بہاروں کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے اور جب ایک معصوم بچی کے جنازے پر کوئی مولوی فساد کھڑا کرے تو یہ صرف ایک بدنصیب خاندان کا سانحہ نہیں ہوتا بلکہ ایسا فساد پورے معاشرے کے ماتھے پر شرمندگی کی ایک نمایاں انمٹ سلوٹ بن جاتا ہے۔