Jasarat News:
2025-04-22@06:08:11 GMT

یہ بات درست ہے

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

یہ بات درست ہے

مغربی میڈیا ہو یا بھارتی میڈیا دونوں ہی اپنی حکومتوں اور حکومتوں کے خالقوں اور مالی سرپرستوں کے تابع ہوتا ہے۔ اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک خبر آئی کہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی کارٹونسٹ نے امریکی ارب پتی جیف بیزوس کے خلاف کارٹون سنسر کرنے پر ملازمت سے استعفا دے دیا ہے۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق 64 سالہ این ٹیلناس نے اپنے کارٹون میں جیف بیزوس اور دیگر امریکی ارب پتیوں کو نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجسمے کے سامنے ڈالرز کے تھیلے پیش کرتے ہوئے دکھایا تھا۔ کارٹونسٹ نے جن دیگر امریکی ارب پتیوں کے خاکے بنائے تھے ان میں فیس بک کے مالک مارک زکربرگ اور اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹو سیم آلٹمین بھی شامل ہیں جبکہ والٹ ڈزنی کی علامت مکی ماؤس بھی ٹرمپ کے مجسمے کے ساتھ موجود ہے۔ این ٹیلناس کا موقف بھی سامنے آیاکہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اخبار نے ان کا کارٹون اس وجہ سے سنسر کیا ہو کہ وہ کسی کے خلاف ہے۔ وہ خود کے بارے میں فیصلے کو ایک خطرناک رحجان اور اور آزادی صحافت کے خلاف ایک عمل تصور کررہی ہیں۔

این ٹیلناس کا موقف اپنی جگہ مگر جو اپنی حکومتوں اور حکومتوں کے خالقوں اور مالی سرپرستوں کے تابع ہوتا ہے اس کی بھی کچھ ’’مجبوریاں‘‘ ہیں۔ یہ واقعہ ہمارے ملک میں آزادی صحافت کے پروانوں کے لیے ایک سبق ہے۔ مستعفی ہونے والی کارٹونسٹ کے موقف پرواشنگٹن پوسٹ کے ایڈیٹر ڈیوڈ شپلے کا بھی موقف سامنے آیا ہے کہ وہ مستعفی کارٹونسٹ کی اس تشریح سے متفق نہیں ہیں کہ یہ ادارتی فیصلہ کسی مذموم عمل کا نتیجہ ہے۔ بہر حال ہمارا یہ مسئلہ نہیں ہے کہ دونوں میں درست کون ہے؟ ہمارا مسئلہ مغربی میڈیا کا رویہ ہے‘ مغرب خصوصاً امریکا‘ خلیج کے پہلی جنگ کے بعد سے اب تک میڈیا کے سر پر جنگ میں اپنے مفادات کا تحفظ اور ہنگامہ خیزی کرتا چلا آرہا ہے۔ خلیج کی پہلی جنگ میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ امریکی فوجی نہیں بلکہ سی این این جنگ لڑرہا ہے۔ مغربی میڈیا کی یک طرفہ پروپیگنڈا مہم کوئی نئی بات نہیں۔ جب 1971 کی جنگ کے پاکستانی جنگی قیدی رہا ہوکر آئے تھے تو ایک مغربی میڈیا نے اس تاثر کی نفی کرنے کے لیے بھارت میں پاکستانی جنگی قیدی بہت مشکل حالات میں رہے، اس میڈیا کے نمائندے نے بھاری بھرکم جسم والے قیدیوں کی تصاویر بنائیں اور اسٹوری د ی کہ بھارت میں ان سے بہت اچھا سلوک کیا گیا ہے، اسی رپورٹر نے بعد میں بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک میں خوب نام کمایا۔

ہمارے ہاں بھی ایک فیشن بن گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کرو، ان کے خلاف لکھو اور مغربی نکتہ نگاہ کو پھیلائو۔ جو بھی یہ کرتا ہے مغربی میڈیا اسے ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے اس لیے مقبوضہ کشمیر کا محاذ ہو یا افغانستان یا بلوچستان یا پھر سابق فاٹا۔ مغربی میڈیا گدھ کی طرح ایسی سڑی لاشیں تلاش کرتا ہے جن کی تحریروں میں سڑاند آتی ہو۔ پہلے وہ ہمدرد بن کر آتے ہیں اور گپ شپ کے ماحول میں بات کرتے ہیں لیکن اسٹوری فائل کرتے ہیں تو اپنے ’’حقائق‘‘ بیان کرتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ مغرب میں انہیں پذیرائی بھی خوب ملتی ہے۔ یہ سارا طرز عمل ہمیں اس بات کی بھی خبر دیتا ہے کہ ہمارے سفارت خانے، ہمارے پریس اتاشی اور ہماری وزارت اطلاعات کام ہی نہیں کرتی ہے۔

سال رواں کے بجٹ میں وزارت اطلاعت کے لیے 5649 ملین کی رقم رکھی گئی لیکن اس قدر خطیر رقم کے باوجود گزشتہ ماہ دسمبر میں مزید 54 کروڑ مانگے گئے کہ ہمیں حکومت مخالف پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنا ہے۔ بہتر ہوتا کہ مزید رقم مانگنے کے بجائے پہلے بجٹ میں رکھی گئی رقم کے استعمال کی رپورٹ لے لی جاتی لیکن جناب یہ ملک کی بیورو کریسی ہے اس سے کون پنگا لے گا؟ حکومت اس سے کیا حساب مانگے گی، حکومت تو یہ معلوم نہیں کرسکی کہ وزارت اطلاعات کے بیرون ملک تعینات ہونے والے افسروں کی ایک بڑی تعداد مغربی ملکوں میں کیوں رہ جاتی ہے۔ ویسے اس کام میں وزارت خارجہ بھی کسی سے کم نہیں ہے ایک رپورٹ ضرور پارلیمنٹ میں پیش ہونی چاہیے کہ گزشتہ دس سال میں وزارت اطلاعات اور وزارت خارجہ کے بیرون ملک تعینات ہونے والے کتنے افسر اور ان کے زیر کفالت ان کی فیملی کے کتنے لوگ برطانیہ، امریکا، کینیڈا اور مغربی ممالک ہی کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ اگر ایسا کام حج عمرہ ٹریول والے کریں تو ایسے بھگوڑوں کو خرگوش کہا جاتا ہے کہ لیکن یہ سرکاری خرگوش تو کسی احتساب کے کٹہرے میں لائے ہی نہیں جاتے ان کا حساب کتاب ضرور ہونا چاہیے یونہی بے لگام کب تک وزارتیں یہ بوجھ برداشت کرتی رہیں گی۔

بات چونکہ میڈیا کی ہورہی ہے ابھی حال ہی میں ایک مغربی نشریاتی ادارے نے بلوچستان کے مسنگ پرسنز کے حوالے سے ایک متنازع اور غلط رپورٹ جاری کی ہے، سب جانتے ہیں کہ بلوچستان کی صورت حال خاصی پیچیدہ ہے، حکومتوں کی خاموشی اسے مزید سنگین بنا رہی ہے یہ مسئلہ تب حل ہوگا جب مسنگ پرسنز اور تخریب کاروں میں فرق کرلیا جائے گا۔ جب تک یہ نہیں ہوگا مغربی میڈیا زہریلہ کام کرتا رہے گا۔ ایک اور اہم بات یہاں کرنا بہت ضروری ہے ہماری حکومتیں اور کارپرداز دونوں ہی گوروں سے بہت مرعوب رہتے ہیں اور مقامی میڈیا کو لفٹ نہیں کراتے ہیں بس پھر جب اور جہاں ایسا ہوگا تو پھر نتیجہ بھی ویسا ہی نکلے گا۔ ہر حکومت سرکاری ٹی وی، نجی ٹی وی چینلوں پر صرف اپوزیشن کو لتاڑتی ہے وزیراطلاعات، وزیراعظم اور حکومتی اہلکار مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے پر کیوں خاموش رہتے ہیں؟

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مغربی میڈیا کے خلاف

پڑھیں:

سوشل میڈیا کی ڈگڈگی

تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چاہے وہ فیس بک کے جلوے ہوں یا انسٹا گرام اور تھریڈزکی شوخیاں، X نامی عجب نگری ہو یا ٹک ٹاک کی رنگینیاں، ایک نقلی دنیا کے بے سروپا تماشوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ میں نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنا ہے، ’’ دنیا بدل گئی ہے‘‘ جب کہ ذاتی طور پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ دنیا کبھی بدل نہیں سکتی ہے۔

دنیا ویسی ہی ہے، زمین، آسمان، سورج، چاند، ندی، دریا، سمندر، پہاڑ، پیڑ، پودوں اور قدرت کے کرشموں سے لیس انسانوں اور جانوروں کے رہائش کی وسیع و عریض پیمانے پر پھیلی جگہ جو صدیوں پہلے بھی ایسی تھی اور آیندہ بھی یوں ہی موجود رہے گی۔

البتہ دنیا والے ہر تھوڑے عرصے بعد اپنی پسند و ناپسند اور عادات و اطوار سمیت تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اُن کی یہ تبدیلی اس قدر جادوئی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات سے جُڑی ماضی کی ہر بات سرے سے فراموش کر بیٹھتے ہیں۔

تبدیلی کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، اس دنیا کے باسی صرف گزری، بیتی باتیں نہیں بھولتے بلکہ وہ سر تا پیر ایک نئے انسان کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟

جس کا سیدھا سادہ جواب ہے کہ انسان بے چین طبیعت کا مالک ہے، وہ بہت جلد ایک جیسے ماحول، حالات اور واقعات سے بیزار ہو جاتا ہے۔ ہر نئے دورکا انسان پچھلے والوں سے مختلف ہوتا ہے جس کی مناسبت سے اُن کو نت نئے نام دیے جاتے ہیں، جن میں سے چند ایک کچھ یوں ہیں،

 Millennials, G i generation, Lost generation, Greatest generation, Generation Alpha, Silent generation,

Generation Z

یہ سب نام انسان کی ارتقاء کی مناسبت سے اُس کی نسل کو عنایت کیے گئے ہیں، جب ہر دورکا انسان دوسرے والوں سے قدرے مختلف ہے تو اُن کی تفریح کے ذرائع پھر کس طرح یکساں ہوسکتے ہیں۔تاریخِ انسانی کے اوائل میں مخلوقِ بشر داستان گو سے دیو مالائی کہانیاں سُن کر اپنے تصور میں ایک افسانوی جہاں تشکیل دے کر لطف اندوز ہوتی تھی، وہ دنیاوی مسائل سے وقتی طور پر پیچھا چھڑانے کے لیے انھی داستانوں اور تصوراتی ہیولوں کا سہارا لیتی تھی۔

چونکہ انسان اپنی ہر شے سے چاہے وہ فانی ہو یا لافانی بہت جلد اُکتا جاتا ہے لٰہذا جب کہانیاں سُن سُن کر اُس کا دل اوب گیا تو وہ خود افسانے گھڑنے لگا اور اُسے اس کام میں بھی خوب مزا آیا۔ دراصل داستان گوئی کا جو نشہ ہے، ویسا خمارکہانی سننے میں کہاں میسر آتا ہے مگر انسان کی بے چین طبیعت نے اس شوق سے بھی زیادہ عرصے تک اُس کا جی بہلنے نہ دیا اور بہت جلد وہ داستان گوئی سے بھی بیزار ہوگیا پھر وجود میں آئے انٹرنیٹ چیٹ رومز جہاں بِن دیکھے لوگ دوست بننے لگے، جن کی بدولت’’ ڈیجیٹل فرینڈ شپ‘‘ کی اصطلاح کا جنم ہوا اور اس طرح تفریح، مزاح، لطف کی تعریف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔

زمانہ حال کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ماضی کے اُنھی انٹرنیٹ چیٹ رومز کی جدید شکل ہیں، ان بھانت بھانت کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے آج پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہوا ہے اور تقریباً ہر عمر و طبقے کا انسان اپنی زندگی کا بیشمار قیمتی وقت ان پر کثرت سے ضایع کر رہا ہے۔ پہلے پہل انسان نے تفریح حاصل کرنے کی نیت سے داستان سُنی پھر افسانے کہے اور اب خود جیتی جاگتی کہانی بن کر ہر روز سوشل میڈیا پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اس خود ساختہ کہانی کا مرکزی کردار وہ خود ہی ہوتا ہے، جو انتہائی مظلوم ہوتا ہے اور کہانی کا ولن ٹھہرتا ہے ہمارا سماج۔

دورِ حاضر کا انسان عقل و شعور کے حوالے سے بَلا کا تیز ہے ساتھ کم وقت میں کامیابی حاصل کرنے میں اُس کا کوئی ثانی نہیں ہے مگر طبیعتاً وہ بہت خود ترس واقع ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد نے جہاں انسان کو افسانوی دنیا کی کھڑکی فراہم کی ہے وہیں اُسے انگنت محرومیوں کا تحفہ بھی عنایت فرمایا ہے۔

زمانہ حال کا انسان سوشل میڈیا پر دکھنے والی دوسرے انسانوں کی خوشحال اور پُر آسائش زندگیوں سے یہ سوچے بغیر متاثر ہو جاتا ہے کہ جو دکھایا جا رہا ہے وہ سچ ہے یا کوئی فرد اپنی حسرتوں کو وقتی راحت کا لبادہ اُڑا کر اُس انسان کی زندگی جینے کی بھونڈی کوشش کر رہا ہے جو وہ حقیقت میں ہے نہیں مگر بننا چاہتا ہے۔

سوشل میڈیا پر بہت کم ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو دنیا کو اپنی حقیقی شخصیت دکھانے پر یقین رکھتے ہوں۔ سوشل میڈیا پرستان کی جیتی جاگتی تصویر ہے، دراصل یہ وہ جہاں ہے جدھر ہر جانب فرشتہ صفت انسان، عدل و انصاف کے دیوتا، سچ کے پجاری، دوسروں کے بارے میں صرف اچھا سوچنے والے، ماہرِ تعلیم، حکیم، نفسیات شناس اور بندہ نواز موجود ہیں۔

حسد، جلن، نظر بد کس چڑیا کا نام ہے، اس سے یہاں کوئی واقف نہیں ہے، سب بنا مطلب دنیا کی بھلائی کے ارادے سے دوسروں کی اصلاح میں ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔جب کوئی فرد کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا حصہ بنتا ہے تو اُسے استقبالیہ پر ایک مکھوٹا پیش کیا جاتا ہے جسے عقلمند انسان فوراً توڑ دیتا ہے جب کہ بے عقل اپنی شخصیت کا اہم جُز بنا لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تب اپنی اندرونی کیفیات کو من و عن ظاہرکردیتا ہے جب کہ دکھ کی گھڑیوں میں اپنے حقیقی جذبات کو جھوٹ کی رنگین پنی میں لپیٹ کر خوشی سے سرشار ہونے کی بڑھ چڑھ کر اداکاری کر رہا ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا اپنے صارفین کو اُن کے آپسی اختلافات کے دوران حریفِ مقابل پر اقوالِ زریں کی مار کا کھلم کھلا موقع بھی فراہم کرتا ہے، ادھر کسی کی اپنے دوست سے لڑائی ہوئی اُدھر طنز کی چاشنی میں ڈوبے اخلاق کا سبق سموئے نرم گرم جملے اُس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دکھائی دینے لگتے ہیں۔

انسان کو سوشل میڈیا پر ملنے والے دھوکے بھی دنیا والوں سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اب چاہے وہ اپنے شناسا لوگوں سے ملیں یا اجنبیوں سے، کڑواہٹ سب کی ایک سی ہی ہوتی ہے۔ جوش میں ہوش کھونے سے گریزکرنے والے افراد ہی سوشل میڈیا کی دنیا میں کامیاب گردانے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز قطعی برے نہیں ہیں بلکہ یہ تو انسانوں کے بیچ فاصلوں کو کم کرنے، بچھڑے ہوئے پیاروں کو ملانے، نئے دوست بنانے اور لوگوں کو سہولیات پہنچانے کی غرض سے وجود میں لائے گئے تھے۔

چونکہ انسان ہر اچھی چیزکا بے دریغ استعمال کرکے اُس کے تمام مثبت پہلوؤں کو نچوڑ کر اُس کی منفیت کو منظرعام پر لانے میں کمال مہارت رکھتا ہے لٰہذا یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ انسان جب تک تفریح اور حقیقت کے درمیان فرق کی لکیرکھینچنا نہیں سیکھے گا تب تک وہ بندر کی طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی ڈگڈگی پر ناچ کر خود کا اور قوم بنی نوع انسان کا تماشا بنواتا رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • جج ہمایوں دلاور کے خلاف سوشل میڈیا مہم ،اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دیدی
  • آر ایس ایس اور بی جے پی مغربی بنگال میں فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دے رہی ہیں, ممتابنرجی
  • مغربی سامراجی قوتوں نے تاریخ کو کیسے مسخ کیا؟
  • پارٹی کا سوشل میڈیا علیمہ خان کنٹرول کرتی ہیں،حیدر مہدی،عادل راجا انہی کی ایما پر پراپیگنڈا کرتے ہیں‘ شیر افضل مروت
  • ’لگتا ہے ان کا ذہنی توازن درست نہیں‘ شہباز گل کا شیرافضل مروت کے بیان پر ردعمل
  • سوشل میڈیا کی ڈگڈگی
  • عمران خان کیخلاف ہتک عزت دعوی، وزیراعظم ویڈیو لنک پر پیش ، سخت جرح
  • 10 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ، عمران خان کے وکیل کی وزیرِ اعظم شہباز شریف پر جرح
  • 10 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ، عمران خان کے وکیل کی وزیراعظم شہباز شریف پر جرح
  • پاکستان کے شامل مغربی علاقوں میں  زلزلے جھٹکے، شدت 5.9ریکارڈ