پی آئی اے کی لاجواب سروس سے بے لگام سروس تک کی 79سالہ کہانی
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
یہ جون 1946 کی گرم، دوپہر کی بات ہے کراچی کی مشہور کاروباری شخصیت مسٹر ایم اے اصفہانی اپنے دفتر میں معمول کے مطابق کام کر رہے تھے کہ ان کو قائد اعظم محمد علی جناح کی طرف سے ملنے کا پیغام آیا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ کیوں بلایا گیا؟ بہرحال وہ ان کی رہائش گاہ پر فوراً پہنچے۔ بانی پاکستان فوراً ملاقات کے لیے آگئے۔
قائد اعظم نے ان سے انہیں آنے والے پاکستان کے لیے ایک ایئرلائن بنانے کا منصوبہ بنانے کو کہا، کیونکہ اپنی شاندار بصیرت اور دور اندیشی کے ساتھ، مسٹر جناح نے محسوس کرلیا تھا کہ پاکستان کے 2پروں یعنی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی تشکیل کے ساتھ ہی، 1100میل کے فاصلے کے لیے نقل و حمل کا ایک تیز اور موثر طریقہ ضروری ہوگا، جس کے لیے آزاد قومی ایئرلائن ہونا ناگزیر ہے۔
مسڑ اصفہانی قائد اعظم کے بلند وژن کو سراہے بغیر نہ رہ سکے، وہ بہت خوش تھے کہ جس لیڈر کو انہوں نے منتخب کیا اس کا وژن بہت عظیم الشان ہے، اصفہانی نے بغیر وقت ضائع کیے اپنا کام شروع کردیا، اگلے 48گھنٹوں میں اس نے مستقبل کے متحدہ پاکستان کے لیے نئی ایئرلائن کا بلیو پرنٹ بنالیا۔
اس طرح 4ماہ کی قلیل مدت میں 23اکتوبر 1946 کو ایک نئی ایئر لائن اورینٹ ایئر ویز نے جنم لے لیا۔ ابتدائی طور پر کلکتہ میں ایک پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر رجسٹرڈ کیا گیا اور اس کے سربراہ مسٹر ایم اے اصفہانی بطور چیئرمین اور ایئر وائس مارشل کارٹر بطور جنرل مینجربن گئے۔
نئے کیریئر کا آفس کلکتہ میں بنا اور اس کے لیے مئی 1947 میں آپریٹنگ لائسنس حاصل کرلیا گیا، اورینٹ ایئرویز نے کلکتہ-رنگون روٹ لے لیا، جو جنگ کے بعد کا پہلا بین الاقوامی سیکٹر بھی تھا۔ ہندوستان میں رجسٹرڈ ایئر لائن کے ساتھ ہی اورینٹ ایئرویز نے آپریشنل آغاز کردیا۔
اس کے آغاز کے تقریبا 2ماہ کے اندر، پاکستان کا جنم ہوگیا، اور ایک نئی قوم کی پیدائش نے بنی نوع انسان کی تاریخ میں آبادی کی سب سے بڑی منتقلی کو جنم دیا۔ اورینٹ ایئرویز نے BOAC طیاروں کی مدد سے جسے حکومت پاکستان نے چارٹر کیا تھا، دونوں دارالحکومتوں دہلی اور کراچی کے درمیان امدادی کارروائیاں اور لوگوں کی آمدورفت شروع کردی۔
اس کے بعد، اورینٹ ایئرویز نے اپنا اڈہ پاکستان منتقل کردیا اور پاکستان کے 2بازو کے 2دارالحکومتوں-کراچی اور ڈھاکہ کے درمیان ایک اہم رابطہ قائم کیا۔ صرف 2 DC-3s، تین عملے کے ارکان، اور بارہ مکینکس کے ایک ڈھال والے بیڑے کے ساتھ، اورینٹ ایئرویز نے اپنے طے شدہ آپریشنز کا آغاز پریوں کی کہانی کے انداز میں کیا۔
اس کےابتدائی راستے کراچی-لاہور-پشاور، کراچی-کوئٹہ-لاہور اور کراچی-دہلی-کلکتہ-ڈھاکا تھے۔ 1949 کے آخر تک، اورینٹ ایئرویز نے 10 DC-3s اور 3 Convair 240s حاصل کر لیے تھے جو ان راستوں پر چلائے جاتے تھے۔ 1950 میں، یہ تیزی سے ظاہر ہوگیا تھا کہ برصغیر کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اضافی صلاحیت کو شامل کرنا پڑے گا۔
اورینٹ ایئرویز ایک نجی ملکیتی کمپنی تھی جس کا سرمایہ اور وسائل محدود تھے۔ اس سے آزادانہ طور پر بڑھنے اور پھیلنے کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس کے بعد ہی حکومت پاکستان نے ایک سرکاری ایئرلائن بنانے کا فیصلہ کیا اور اورینٹ ایئرویز کو اس میں ضم ہونے کی دعوت دی۔
انضمام کا نتیجہ 10جنوری 1955کو پی آئی اے سی آرڈیننس 1955کے ذریعے ایک نئی ایئر لائن کی پیدائش تھا۔ جس کا نام پی آئی اے رکھ دیا گیا۔ اس طرح قائد اعظم کا ایک اور خواب یعنی ’سبز پرچم والی اپنی ائیرلائن‘ پورا ہوا، اور قومی ایئر لائن نے ناقابل شکست کامیاب سفر کا آغاز کردیا۔
پی آئی اے کی پہلی بین الاقوامی سروسسال 1955 میں نئی آنے والی ایئر لائن نے پہلی طے شدہ بین الاقوامی سروس کے افتتاح کا بھی عندیہ دے دیا، سابق چیف فنانشل افسر عامر کہتے ہیں کہ چمکتے دھمکتے دارالحکومت لندن کے لیے، قاہرہ اور روم کے راستے کے منصوبہ پر، بہت زیادہ تنقید کی گئی تھی، کیونکہ عوام بین الاقوامی روٹ کو چلانے کی ضرورت کو نہیں سمجھ سکتے تھے اور نہ ہی اس کا جواز پیش کرسکتے تھے، جبکہ ان کی رائے میں، ترقی پذیر ملک کے لیے اہم دیگر منصوبوں کو زیادہ ترجیح دی جانی چاہیے تھی۔
تاہم، پی آئی اے کی توجہ بڑے پیمانے پر پاکستانی کمیونٹی کی خدمت پر بھی تھی، تارکین وطن کو سفری سہولیات کی فراہمی قومی ایئرلائن کی اولین ترجیحات میں شامل رہی ہے۔ مزید برآں، پی آئی اے نے بین الاقوامی خدمات کے ذریعے خاطر خواہ زرمبادلہ کمایا، جسے اس نے طیاروں اور اسپیئر پارٹس کی خریداری میں لگایا، کیونکہ بیڑے میں توسیع ایئر لائن کے لیے ایک اشد ضرورت تھی۔
بالآخر وہ دن بھی آگیا جب قومی پرچم بردار 7مارچ 1960کو لندن جانے کے لیے تیار ہوگیا۔ کیپٹن سعید خان فرسٹ آفیسر جنید فلائٹ انجنیئر منور اوردیگر کیبن کریو کے اراکین جن میں سر جاوید بھٹی، شکیل قادری ظفر اشتیاق محمد فیروز منیار، فرزانہ شریف اور نائلہ نذیر جس کی عمر اس وقت 19 سال تھی،انتہائی خوش تھے، اور مقررہ وقت سے 4 گھنٹے پہلے ایئرپورٹ پہنچ گے۔
خوش کیوں نہ ہوتے کیوں کہ وہ پی آئی اے کی پہلی بین الاقوامی پرواز کے ذریعے مسافروں کو لندن لے جا رہے تھے انہوں نے طیارے کی دہلیز پر کھڑے ہوکر مسافروں کا استقبال کیا۔ کپتان نے جہاز کا دروازہ بند ہوتے ہی اعلان کیا۔ ’خواتین و حضرات ہم آپ کو پی آئی اے کی پہلی بین الاقوامی پرواز پر خوش آمدید کہتے ہیں، ہم براستہ انقرہ اور روم لندن پہنچیں گے، گھنٹوں کی مسافت طے کرکے پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن لندن پہنچ گئی۔
اس طرح پی آئی اے 1960میں تجارتی طور پر جیٹ طیارہ چلانے والی دوسری ایشیائی ایئرلائن بن گئی جب اس نے کراچی-لندن روٹ پر بوئنگ 707 متعارف کرایا۔ ایئر لائن نے ابتدائی طور پر پین ایم پائلٹ استعمال کیے، لیکن جون 1960 میں اس نے 707 کو آل پاکستانی عملے کے ساتھ چلانا شروع کیا۔ اس طرح پی آئی اے کا کامیابی کانہ ختم ہو نے والا سفر شروع ہوگیا۔
2 جنوری 1962کو پی آئی اے نے لندن اور کراچی کے درمیان تیز ترین پرواز کا ریکارڈ توڑا، ایف اے آئی (فیڈریشن ایروناٹیک انٹرنیشنل) کے نمائندوں کے ساتھ آفیشل اوقات کی نگرانی کے لیے، پی آئی اے نے 6 گھنٹے، 43 منٹ، 51 سیکنڈ(mph582)کی پرواز مکمل کی، یہ ایک ریکارڈ ہے جو آج تک ٹوٹا ہوا نہیں ہے۔
باکمال لوگ لاجواب سروس1964 میں، پی آئی اے نے ایک اور تاریخی کامیابی حاصل کی، جسے ایئر لائن کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ 29 اپریل 1964 کو، بوئنگ 720B کے ساتھ، پی آئی اے نے عوامی جمہوریہ چین میں پرواز کرنے والی ایک غیر کمیونسٹ ملک سے پہلی ایئر لائن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ پی آئی اے کی چین کے لیے پہلی سروس کراچی سے کینٹن کے راستے شنگھائی تک تھی۔ اسی پرواز کے بعد پی آئی اے کو باکمال لوگ لاجواب سروس کا لقب مل گیا۔
اس کے بعد پی آئی اے دنیا ہوا بازی کے افق پر لازوال حیثیت اختیار کرگئی ۔ایک سے بڑھ کر ایک کامیابی پی آئی اے کے قدم چومنے لگی۔ دنیا کی اہم شخصیات پی آئی اے سے سفر کرنے میں فخر محسوس کرتی تھیں۔ باکمال لوگ لاجواب سروس کا ڈنکا ہرجگہ بجنے لگا، مگر 90 کی دھائی کے فوراً بعد پی آئی اے کو نظر لگنی شروع ہوگئی۔
پی آئی اے کا زوالایئر مارشل نور خان اور اصغر خان، جن کے دور کو پی آئی اے کا سنہری دور قرار دیا جاتا ہے، ان کے جانے کے ساتھ ہی پی آئی اے آہستہ آہستہ تنزلی کی طرف جانے لگی۔ اگرچہ زوال کے آغاز کے طور پر کوئی خاص سال کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ ایئر لائن کی کارکردگی میں 1990 میں نمایاں طور پر کمی آنا شروع ہوئی جس کی وجہ مختلف عوامل جیسے پائلٹوں کی بار بار ہڑتال، stakeholders کے ساتھ مسائل، زیادہ عملہ اور ایئر لائن مینجمنٹ میں سیاسی مداخلت شامل ہے۔
یہ 2000 کی دہائی تک جاری رہی، ایئر لائن کو بڑھتی ہوئی مسابقت، ایندھن کے بڑھتے ہوئے اخراجات، اور عمر رسیدہ انفراسٹرکچر کا سامنا کرنا پڑا۔ نئے طیاروں اور روٹس کے تعارف سمیت ایئر لائن کی اصلاح کی کوششوں کے باوجود پی آئی اے کی مالی مشکلات برقرار رہی۔ کچھ دوست ممالک کے ساتھ دشمن اور منافق عناصر نے بھی اپنا حصہ ڈالا، اور اندرون خانہ سازشیں کرنا شروع کردیں اور اس عظیم اثاثہ کو تباہی کی طرف موڑ دیا۔
عرش سے فرش تک کا سفرپاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے زوال کی وجہ کئی دہائیوں کے دوران سامنے آنے والے عوامل کا مجموعہ ہے۔ 30سال ایوی ایشن انڈسٹری کے ساتھ منسلک کیپٹن آفتاب احمد کہتے ہیں کہ پی آئی اے کو ملک کی ترقی میں اہم ذمہ داریاں پوری کرنے کی سزا دی گئی ہے۔ مختلف ایوی ایشن کے سابق اور موجودہ ذمہ داروں کے ساتھ بات چیت کے بعد معلوم ہوا کہ ایئر مارشلز نور خان اور اصغر خان کی پی آئی اے سے رخصتی کے فوراً بعد ہی ایئر لائن کی انتظامیہ اور آپریشنز پر تیزی سے سیاست کی گئی۔ اس کی وجہ سے غیر مؤثر فیصلہ سازی، بدعنوانی اور احتساب کا فقدان ہوگیا۔
اوورسٹافنگ اور یونین ایشوز: پی آئی اے کی افرادی قوت غیر پائیدار سطح پر پہنچ گئی، ایئر لائن کے پاس 1980 کی دہائی میں ہوائی جہازوں میں ملازمین کا دنیا کا سب سے زیادہ تناسب تھا۔ اس کی وجہ سے آپریشنل اخراجات میں اضافہ ہوا اور یونین کے تنازعات، جس نے ایئر لائن کی کارکردگی کو مزید مفلوج کردیا۔
فلیٹ اور انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کا فقدان: پی آئی اے کا بیڑا نمایاں طور پر پرانا ہے، بہت سے طیارے دہائیوں پرانے ہیں۔ ایئر لائن کا بنیادی ڈھانچہ، بشمول اس کے ہوائی اڈے اور دیکھ بھال کی سہولیات بھی بین الاقوامی معیارات سے پیچھے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دیکھ بھال کے اخراجات میں اضافہ، کارکردگی میں کمی، اور مسافروں کی حفاظت میں کمی واقع ہوئی۔
نجی ایئرلائنز سے مسابقت: پاکستان میں نجی ایئرلائنز جیسے ایئربلیو اور شاہین ایئر وغیرہ کے ابھرنے سے مسابقت میں اضافہ ہوا اور پی آئی اے کا مارکیٹ شیئر کم ہوتا گیا۔ پی آئی اے نے بدلتی ہوئی مارکیٹ کی حرکیات کے مطابق ڈھالنے کے لیے جدوجہد کی اور نجی کیریئرز کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی خدمات کو جدید بنانے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔
حفاظتی خدشات اور ریگولیٹری مسائل: پی آئی اے کو کئی حفاظتی خدشات (safty concerns) کا سامنا کرنا پڑا، بشمول 2016کے ایک مہلک حادثہ، جس نے ایئر لائن کے حفاظتی معیارات پر سوالات اٹھائے۔ یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ای اے ایس اے) نے ایئر لائن کے حفاظتی سرٹیفیکیشن اور نگرانی کے بارے میں خدشات کی وجہ سے پی آئی اے کو یورپی فضائی حدود میں پرواز کرنے پر پابندی عائد کردی، جس سے کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا۔
ایوی ایشن کے سابق سینئر وزیر غلام سرورخان کے اسمبلی کے اجلاس میں پی آئی اے کے پائلٹوں کے خلاف بیان نے جلتی ہوئی پر تیل کا کام کردیا، اور رہی سہی عزت خاک میں ملا دی۔
مالی بدانتظامی اور بدعنوانی: پی آئی اے کی مالی جدوجہد بدعنوانی، بدانتظامی اور شفافیت کے فقدان کی وجہ سے بڑھ گئی تھی۔ ایئر لائن کا قرض بڑھ گیا، اور اس نے چلتے رہنے کے لیے حکومتی سبسڈیز پر بہت زیادہ انحصار کیا۔ ان عوامل نے مجموعی طور پر پی آئی اے کے زوال میں اہم کردار ادا کیا، جس نے اسے ایک معروف بین الاقوامی کیریئر سے جدوجہد کرنے والی قومی ایئر لائن میں تبدیل کردیا۔
ٓآج پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کو شدید مالی نقصان کا سامنا ہے۔ 2023کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، پی آئی اے کا کل جامع نقصان تقریباً 75.
272 ملین امریکی ڈالر) تھا۔ مزید اہم مالیاتی میٹرکس
کل نقصان: PIA کا جمع شدہ نقصان PKR 400-500 بلین (تقریباً USD 1.4-1.7 بلین) کے درمیان ہے۔
روزانہ نقصان: اگرچہ روزانہ نقصان کا صحیح اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، لیکن ہم سالانہ نقصان کی بنیاد پر اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ تقریباً PKR 88 بلین (USD 316 ملین) کا سالانہ نقصان فرض کرتے ہوئے، روزانہ کا نقصان تقریباً PKR 241 ملین (USD 690,000) روزانہ ہے۔
آمدنی اور اخراجات: حیرت ہے کہ متنازعہ نجکاری کے عمل کے درمیان، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو سال 2023 کے لیے 75 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ ایئر لائن کے کل واجبات 825 ارب روپے تک پہنچ گئے جبکہ کل اثاثوں کی مالیت 161ارب روپے ہے۔
ایک محتاط رپورٹ کے مطابق 2024 میں بھی، قومی ایئر لائن پی آئی اے کو کئی بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جس میں کمپنی کو مجموعی طور پر 29ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس سال بھی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کو مسافروں کو سفری سہولیات فراہم کرنے میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔
حکومت کی جانب سے پی آئی اے کی نجکاری کا عمل تعطل کا شکار رہا۔ پی آئی اے کے طیاروں میں تکنیکی خرابی معمول کی بات رہی۔ بروقت مرمت نہ ہونے کے باعث قومی ایئرلائن کے بیشتر طیارے اڑان بھرنے سے قاصر رہے جس سے کمپنی کو لاکھوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
باوثوق ذرائع کے مطابق پی آئی اے کے 34 طیاروں میں سے مبینہ طور پر 17 طیارے اس سال بھی طویل عرصے تک گراؤنڈ رہے۔ 12 بوئنگ 777 طیاروں میں سے 7 طیارے گراؤنڈ رہے۔ 17 ایئربس 320 طیاروں میں سے 7 طیارے ٹیک آف کرنے میں ناکام رہے۔ 5اے ٹی آر طیاروں میں سے صرف 2 طیارے آپریشنل رہے۔
انجن، لینڈنگ گیئر، اے پی یو اور دیگر حصوں کی کمی کی وجہ سے زیادہ تر طیارے گراؤنڈ رہے۔ ان بڑھتے ہوے اخراجات سے تنگ آکر بالٓاخر حکومت نے نجکاری کے عمل کو آگے بڑھایا تاکہ روز روز کے اخراجات کا بوجھ ہلکا کیا جاسکے۔ مگر اس سے بھی ابھی تک کوئی خاطر خواہ مقصد پورے نہ ہوسکے۔
تاہم ایوی ایشن کے ماہرین نجکاری کے عمل کو زیادہ پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ سنیئر صحافی کوثر نقوی کے مطابق پی آئی اے کا ملکی ترقی میں اہم کردار دشمن ممالک کو شروع دن سے ناپسند رہا ہے اور اس کے خلاف سازشیں کرتے رہے۔ جس کے نتیجہ میں ایئرلائن کو مالیاتی بحران میں دھکیل دیا۔ ان کے مطابق ہرمشکل کا حل موجود ہے صرف will کا ہونا ضروری ہے۔
کیپٹان عزیز الرحمان کہتے ہیں کہ مالیاتی چیلنجز پی آئی اے کی طویل مدتی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے اہم اصلاحات اور تنظیم نو کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ری اسٹرکچرنگ اور ری آرگنائزیشن انتہائی اہم او ناگزیر ہے، افرادی قوت کو کم سے کم کریں، اور میرٹ کی بنیاد پر پروموشنز متعارف کروائیں۔ دیکھ بھال کے اخراجات کو کم کرنے اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے نئے، ایندھن کی بچت کرنے والے طیارے حاصل کریں۔ ہوائی اڈوں کو اپ گریڈ کریں، گراؤنڈ ہینڈلنگ کو بہتر بنائیں، اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کریں۔
اس کے علاوہ عملے کی مہارت اور پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے باقاعدہ تربیت اور ترقی کے مواقع فراہم کریں۔ جناب عزیز نے مزید کہا کہ پی آئی اے کے روٹ نیٹ ورک کو بہتر بنانا چاہیے اور منافع بخش راستوں پر توجہ مرکوز کریں۔
تاہم، پی آئی اے کے لیے اچھی خبر نومبر2024 کے آخری دنوں میں آئی، جب یورپی ایئر سیفٹی ایجنسی (ای اے ایس اے) نے پی آئی اے سمیت پاکستانی ایئر لائنز پر سے پابندی اٹھالی۔ ای اے ایس اے نے اپنے خط کے ذریعے انتظامیہ کو باضابطہ طور پر آگاہ کیا۔ قومی ایئرلائن نے ساڑھے 4 سال بعد یورپ سے پابندی اٹھائے جانے کے بعد سال 2025 کے پہلے مہینے یعنی آج کے دن 10جنوری2025کو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے پیرس کے لیے پروازیں چلانے جا رہی ہے۔
ایوی ایشن کے مشھور صحافی صلاح الدین نے بہرحال امید ظاہر کی ہے کہ سال 2025 میں پی آئی اے کے یورپی فلائٹ آپریشن دوبارہ شروع ہونے کے بعد وہ برطانیہ کے لیے بھی اپنا فلائٹ آپریشن شروع کر دے گا۔ جس سے مسافروں کو براہ راست سفری سہولیات میسر آئیں گی۔ ان کے مطابق پی آئی اے نے 20 سال بعد اس سال بھی منافع کمانے کے لیے بجٹ بنایا ہے جس سے پی آئی اے کا حکومت پر بوجھ ختم ہوسکتا ہے۔
جبکہ ایوی ایشن انڈسٹری کے مبصرین کا خیال ہے کہ مزید پابندیوں اور جرمانے سے بچنے کے لیے بین الاقوامی حفاظت اور ریگولیٹری معیارات کی تعمیل کو یقینی بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح سخت مالیاتی کنٹرول کو لاگو کرکے آمدنی کے نظام کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ پی آئی اے کی بحالی میں مدد کے لیے بنیادی ڈھانچے کی ترقی، ٹیکس میں چھوٹ، اور دیگر مراعات کے لیے حکومت کی مدد بے حد ضروری ہے ۔
اس کے بغیر پی آئی اے کسی صورت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکتی۔ ایوی ایشن کے مبصرین کے مطابق ان حکمت عملیوں پر عمل درآمد کرکے پی آئی اے ممکنہ طور پر اپنے نقصانات سے نکل سکتی ہے اور ایک باوقار بین الاقوامی کیریئر کے طور پر اپنی پہلے والی پوزیشن ’باکمال لوگ لاجواب سروس‘ دوبارہ حاصل کرسکتی ہے۔ صرف ایک جامع نیک نیتی اور بھرپور will کی ضرورت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان انٹرنیشنل ایئر قومی ایئرلائن طیاروں میں سے ایئر لائن کی ایئر لائن کے پی آئی اے نے پی آئی اے کی اورینٹ ایئر پی آئی اے کا پی آئی اے کو کو پی آئی اے پاکستان کے قومی ایئر کے درمیان کی وجہ سے کے مطابق کے ذریعے کا نقصان کی ضرورت کے ساتھ لائن نے اور اس کے لیے کے بعد
پڑھیں:
ایف آئی آر کی کہانی
ابو سفیان کو تھانے میں موٹرسائیکل چوری کی ایف آئی آر درج کرانی تھی جو اس کے گھر کے باہر سے چوری ہو ئی،وہ ایف آئی آر درج کرانے محلے والوں کے ہمراہ تھانے پہنچا اور محررکو واردات کی جتنی بھی تفصیل بتاسکتا تھا، بتائی،محرر کا کہنا تھا کہ ایس ایچ او کی اجازت کے بغیر ایف آئی آر کا اندراج نہیں کیاجاسکتا۔چونکہ ایس ایچ او تھانے سے باہر ہیں۔اس لئے محرر نے صبح سے پہلے ایف آئی آر کے اندراج سے معذرت کر لی۔ اس وقت رات کے دس بج رہے تھے جبکہ صبح ہونے میں ابھی کئی گھنٹے باقی تھے-محرر جو اے ایس آئی رینک کا افسر تھا،مقدمہ کے اندراج میں مسلسل لیت ولعل سے کام لےرہا تھالیکن ابو سفیان بھی بضد تھاکہ ایف آئی آر درج کرائے بناتھانے سےواپس نہیں جائےگا-کافی بحث و تکرار کےبعد بالآخر محرر نے وائرلیس پر ایس ایچ او کو وقوعہ کی اطلاع دی اور واپس تھانہ آنے کی درخواست کی۔کچھ ہی دیرگزری ہو گی کہ ایس ایچ او کی سرکاری گاڑی تھانہ میں داخل ہوئی۔ابو سفیان نے ان کےسامنے اپنا مدعابیان کیا۔تاہم ایس ایچ او نےکوئی خاص نوٹس نہ لیا- اندراج مقدمہ کے لیئے شرط عائد کی کہ وہ کسی پر شک کا اظہار کرے۔ تب ابو سفیان گویا ہوا کہ بلا یقین وہ کسی پر کیسے شک کا اظہار کرسکتا ہےلیکن ایس ایچ او اپنے مدعا پر قائم رہا۔باربار شک کی گردان دہراتارہا۔ بالآخر ابوسفیان تنگ آکر بولا ایس ایچ او صاحب ! سچ پوچھیں تو مجھے آپ پر ہی شک ہے کہ موٹرسائیکل کی چوری میں آپ کا ہاتھ ہے۔ یہ سن کر ایس ایچ او کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ لال پیلا نظر آنے لگا۔ ابوسفیان نے ایس ایچ او کی یہ حالت دیکھی تو مزید کہاایف آئی آر درج نہیں ہونی تو ایس پی کا آفس زیادہ دور نہیں ہے۔ میں ایک صحافی ہوں۔ میری ایف آئی آر درج نہیں ہو گی تو دن چڑھتے ہی بڑے صاحب (ایس پی)کے آفس پہنچ جائوں گا اور آپ کی شکایت کروں گا۔
اس مکالمے کے بعد ایس ایچ او اندراج مقدمہ کے لئے راضی ہوا اور نامعلوم چور کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی۔ یہ لاہور کے تھانہ شاہدرہ کا سچا واقعہ ہے۔ جو کئی سال پہلے پیش آیا۔ یہ بات خود ابوسفیان نے مجھے بتائی، جو ایک ماہنامہ میگزین کا ایڈیٹر و پبلشر تھا۔ ایف آئی آر کے موضوع پر یہ کالم تحریر کرتے وقت مذکورہ واقعہ اس لئے کوٹ کیا کہ آپ سب ایف آئی آر کی نزاکت اور اہمیت کو سمجھ سکیں۔ یہ ایک واقعہ نہیں اس جیسے بے شمار واقعات روزانہ کی بنیاد پرتھانوں میں پیش آتے ہیں اور لوگوں کو اندراج مقدمہ کے لئے در بدر ہونا پڑتا ہے۔ پتہ نہیں، کہاں کہاں کی خاک چھاننا پڑتی ہے۔ ایف آئی آر ہے کیا؟ایف آئی آر سے مراد فرسٹ انفارمیشن رپورٹ اورمعنوی اعتبار سے پہلی اطلاعی رپورٹ ہے۔ جرم ناقابل دست اندازی ہو تو روزنامچے میں رپورٹ تحریر کرکےمحرر کی جانب سے سائل کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لیےکہاجاتا ہے۔ موجووہ قانون میں کسی بھی فوجداری مقدمہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ جس میں جرم، وقت، جائے وقوعہ اور چشم دید گواہان پر بہت زور دیا گیا ہے۔ یہ چاروں چیزیں ایف آئی آر کی بنیاد بنتی ہیں۔ یعنی جرم، وقت، جائے وقوعہ اور چشم دید گواہان۔ ایف آئی آر کا متن جتنے کم الفاظ میں ہوگا، مدعی یااستغاثہ اتنے ہی اچھے انداز میں اسے ٹرائل کے وقت عدالت میں ثابت کرسکے گا۔ عدم ثبوت کی بنیاد پر ملزم یا ملزمان کے بری ہونے کے سو فیصد چانسز ہوتے ہیں۔ اس لئے جب بھی کسی وقوعہ کی ایف آئی آر درج کرائی جائے ، اس کی نوعیت عمومی ہو یا سنگین، کم سے کم الفاظ میں درج کرانی چاہیے ۔ مثال کے طور پر فلاں وقت اور فلاں مقام پر ایک نامعلوم شخص (کسی کو نامزد بھی کیاجا سکتاہے)نے یہ جرم کیا۔ جرم کی نوعیت کے مطابق ہی دفعات لاگو کی جاتی ہیں جو قابل ضمانت بھی ہو سکتی ہیں اور ناقابل ضمانت بھی۔پاکستان میں مخالفین کو پھنسانےکے لئےفرضی کہانیوں پرمبنی جھوٹی ایف آئی آرزکا اندراج عام سی بات ہے۔ تعزیرات پاکستان میں کسی کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کرانا ایک جرم قرار دیا گیا ہے۔ جس کی سزا سات سال تک قید ہو سکتی ہے۔
پاکستان پینل کوڈ سیکشن 193 اور 194 کے تحت جھوٹی گواہی دینے والے کو سزائے موت تک دی جا سکتی ہے-کسی کے خلاف اگر جھوٹی ایف آئی آر درج ہو جائے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ ایسی ایف آئی آر کے اندراج کے بعد اگر چالان متعلقہ عدالت میں پیش نہیں ہوا تو آئین کے آرٹیکل 199اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ 561اے کے تحت جھوٹی ایف آئی آر کے اخراج کے لئے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی جا سکتی ہے۔ اگر ملزم اپنا کیس ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے تو ہائی کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ایسی ایف آئی آر کے اخراج کا حکم جاری کر سکتی ہے۔اس کی مثال 2008ء میں ہائی کورٹ کے جسٹس کاظم علی ملک کے ایک فیصلے سے دی جاسکتی ہے۔ اس کیس میں مخالفین کا آپس میں لین دین کا مسئلہ تھا۔ فیکٹری کے مالک نے ایک شخص سے تیل خریدا اور ادائیگی نہیں کی۔ یہ دیوانی نوعیت کا معاملہ تھا لیکن مدعی نے پولیس کی ملی بھگت سے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 406 کے تحت مقدمہ درج کرا دیا۔ عدالت نے دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد ایف آئی آر کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 406 کے خلاف قرار دیتے ہوئے ایف آئی آر کے اخراج کا حکم جاری کر دیا، کہا یہ صریحا دیوانی مسئلہ ہے۔ اس میں پولیس نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا۔ نہ صرف یہ کہ ایف آئی آر کے اخراج کا حکم سنایا گیا بلکہ جھوٹی ایف آئی آر درج کرنے والے لاہور کے تھانہ باغبانپورہ کے سب انسپکٹر اور تفتیشی افسر پر 50ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔ یہ بھی حکم دیا کہ جرمانہ کی رقم مدعی کو ادا کی جائے۔ تاہم اگر کسی جھوٹی ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ملزم کاچالان عدالت میں پیش کر دیا گیا ہو اور ٹرائل شروع ہو جائے تو پٹیشن کی صورت میں ہائی کورٹ متعلقہ عدالت سے ریلیف حاصل کرنے کی ہدایت دے سکتی ہے۔ ایسی صورت میں علاقہ مجسٹریٹ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 265کے تحت ملزم کو کسی بھی وقت مقدمہ سے ڈسچارج کر سکتا ہے۔ پولیس رولز 1934 میں درج قانون کی شق 24 اعشاریہ 7بھی متعلقہ تفتیشی افسر کو درج شدہ جھوٹی ایف آئی آر کو منسوخ یا خارج کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ پاکستان میں ہر روز ایسی سینکڑوں ایف آئی آرز درج ہوتی ہیں جن کا حقیقت یا سچ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے تفتیشی پولیس افسر کو پتہ چل بھی جائے کہ ایف آئی آر جھوٹی اور بے بنیاد ہے۔ پھر بھی اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے وہ اسے خارج نہیں کرتا۔ تفتیشی افسر کی یہ قانونی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ ایف آئی آر کو بے بنیاد سمجھے اور مدعی سے شواہد طلب کرنے پر شواہد نہ ملنے کی صورت میں وہ اپنے قانونی اختیار کو استعمال کر کے مقدمہ خارج کر سکتا ہےلیکن عمومی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ ایک بےگناہ کو بھی جھوٹی ایف آئی آر میں نامزد ہوکربڑی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔