شمس الدین جبار اور امریکی مسلمانوں کی شرمندگی
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
آج سے24برس قبل امریکی شہر، نیویارک، میں نائن الیون کے نام سے جو عظیم المیہ جنم لیا، امریکا اور امریکی شہری اِسے فراموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں ۔ اِس تاریخی المناک سانحہ میں تین ہزار امریکی شہری ہلاک ہو گئے تھے ۔ نائن الیون سانحہ میں ملوث دہشت گردوں کے بارے میں امریکی تفتیش کاروں کا الزام ہے کہ اِس میں مسلمان شامل تھے ۔
اِن دہشت گردوں کے پس منظر بارے جو داستانیں منصہ شہود پر آئیں، ان میں یہ صراحت سے بتا دیا گیا تھا کہ یہ لوگ بنیادی طور پر کن مسلمان ممالک سے تعلق رکھتے تھے ۔
اِن معلومات کی بنیاد پر امریکی مسلمان کمیونٹی کو کئی آزمائشوں سے گزرنا پڑا ۔ یہ مراحل جانگسل بھی تھے اور حوصلہ شکن بھی ۔ امریکی شہریوں کے لیے بھی اور امریکی مسلمان کمیونٹی کے لیے بھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مگر فریقین میں مفاہمت کے جذبات نے جنم لیا ۔ امریکی شہریوں نے انتقام کے جذبے کو دبایا اور آگے بڑھ کر زیر عتاب آئی امریکی مسلمان کمیونٹی کے ساتھ رہنا سہنا سیکھ لیا ۔
مگر آئے دن امریکا میں کسی نہ کسی المناک سانحہ میں ملوث ، بدقسمتی سے، نئے سرے سے کوئی مسلمان شناخت رکھنے والا شخص ہی نکل آتا ہے ۔ ایسا شخص پوری امریکی مسلمان کمیونٹی کے لیے بدنامی اور شرمندگی کا باعث بن جاتا ہے ۔ یعنی ایک گندی مچھلی اپنے گندے کردار سے پوری امریکی مسلمان برادری کے جَل کو گندا اور پراگندہ کردیتی ہے ۔
ایسا ہی ایک المناک سانحہ یکم جنوری کی رات امریکا میں پیش آیا ۔ اُس رات امریکی شہری، ہر سال کی روائت کے تحت، مشہور امریکی ریاست ’’لوزیانا‘‘(Louisiana) کے مشہور شہر ’’ نیو اورلینز‘‘(New Orleans) میں نئے سال2025ء کو خوش آمدید کہنے کے لیے موج مستی کررہے تھے۔
اچانک ایک طرف سے ایک تیز رفتار گاڑی (جسے ہم پاکستانی زبان میں ویگو گاڑی یا ڈالا بھی کہہ سکتے ہیں)آئی اورموج میلہ کرتے امریکی ہجوم کو روندتی چلی گئی ۔ ساتھ ہی ڈرائیور نے وہاں لوگوں اور پولیس نفری پر گولیاں بھی برسائیں ۔ جواباً پولیس نے بھی نامعلوم حملہ آور پر گولیاں چلا دیں ۔ چیخ و پکار اور شوروغوغا رُکا تو معلوم ہوا کہ حملہ آور بھی پولیس کے ہاتھوں مارا جا چکا ہے اورہلاکت سے قبل اُس نے 15بے گناہ انسانوں کو اپنی بھاری گاڑی کے نیچے کچل کر مارڈالا ہے ۔ پولیس اہلکاروں سمیت جو عام لوگ اُس کے حملے سے شدید زخمی ہوئے ، اُن کی تعداد تین درجن سے زائد بتائی گئی ہے ۔
پولیس نے ہلاک ہونے والے حملہ آور کی شناخت اور تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ(1) وہ امریکی مسلمان ہے (2) اُس کا نام شمس الدین جبار ہے (3) عمر42سال ہے (4) یکے بعد دیگرے تین شادیاں کر چکا ہے (5) دو شادیوں سے تین بچے ہیں ( 6) سیاہ فام داڑھی رکھے ہے(7) وہ امریکی ریاست ٹیکساس میں پیدا ہوا (8) دو امریکی جامعات کا فارغ التحصل تھا(9)انفرمیشن ٹیکنالوجی کا ماہر تھا (10)امریکی فوج میں رہا ۔
افغانستان، تاجکستان اور یوکرائن میں فوجی خدمات انجام دیتا رہا (11)امریکی فوج سے سبکدوشی کے بعد وہ کئی چوریوں میں بھی ملوث پایا گیا ۔ کئی بار بغیر لائسنس مہلک گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے گرفتار بھی ہوا (12)اُس کی طلاق یافتہ بیویوں نے مقامی پولیس کو شکائت لگائی کہ وہ منصوبہ بندی سے ہمیں ہلاک کرنا چاہتا ہے (13) ایک بیوی نے اعتراف کیا کہ فوج سے نکلنے کے بعد وہ زیادہ متشدد مسلمان ہو گیا تھا ( 14) ہلاک کیے جانے کے بعد اُس کی گاڑی سے عالمی شہرت یافتہ دہشت گرد تحریک ’’داعش‘‘ کے پرچم بھی برآمد ہوئے (15)اُس کے ایک ای میل سے منکشف ہوا کہ وہ خود بھی’’داعش‘‘ میں شامل ہونا چاہتا تھا ۔
شمس الدین جبار نے یہ قاتلانہ فعل انفرادی حیثیت میں کیا ۔ اُس کے اقدام سے مگر امریکا کی چار ملین مسلم آبادی شدید متاثر بھی ہُوئی ہے اور ایک بار پھر مقامی امریکیوں کی سخت تنقید اور تنقیص کا ہدف بن رہی ہے ۔ وہ امریکی جو بوجوہ امریکی مسلمانوں بارے سخت تحفظات رکھتے ہیں ، شمس الدین جبار کے قاتلانہ فعل سے اُن کے منہ پھر کھل گئے ہیں ۔امریکی مسلمانوں سے مقامی امریکیوں کے شکوے شکایات اور ناراضیاں پھر بڑھنے لگی ہیں ۔ اِس کا ایک اندازہ ہمیں واشنگٹن کی ڈیٹ لائن سے ایک معاصر میں شائع ہونے والی اِس رپورٹ سے بھی ہوتا ہے ۔
اِس رپورٹ کا عنوان ہی یہ ہے American Muslims in a state of shock after New Orleans terror attack اِس رپورٹ کے مطابق: شمس الدین جبار کے دہشت گردانہ عمل سے امریکی مسلمان برادری سناٹے اور خوف میں آ گئی ہے ۔ امریکی مسلمان کمیونٹی کو نئے خطرات و خدشات نے گھیر لیا ہے ۔ امریکی مسلمانوں کی نمایندہ تنظیموں ( مثلاً CAIRاورICNAاورISCG) نے اگرچہ کھل کر شمس الدین جبار کے تشدد اور قتل کی اِس قابلِ نفرت حرکت کی شدید مذمت بھی کی ہے اور متاثرین سے اظہارِ افسوس بھی کیا ہے ، مگر کون جانے امریکی دلوں میں پکتا لاوا کب اور کہاں اُبل پڑے ؟
ڈر ہے کہ شمس الدین جبار کے اِس قاتلانہ اقدام سے امریکا میں آنے والے مسلمان تارکینِ وطن (Immigrants) اور علم کے حصول اور تجارت کی غرض سے آنے والے مسلمانوں کے خلاف جذبات میں بھڑکاؤ آئے گا ۔ نَو منتخب امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، کے ایک بیان سے اشتعال انگیزی کی ایک صورت تو سامنے بھی آگئی ہے ۔’’ نیو اور لینز‘‘ میںشمس الدین جبار کے ہاتھوں 15امریکیوں کی ہلاکت کے بعد ٹرمپ نے ایک بیان میں یوں کہا:’’جب مَیں نے کہا تھا کہ باہر سے آنے والے مجرم ہمارے ملک میں موجود مجرموں سے زیادہ بد تر ہیں تو میرے مخالف ڈیموکریٹس اور فیک نیوز میڈیا نے میرے اِس بیان کی مسلسل تردید کی ، لیکن (اب’’ اورلینز ٹریجڈی ‘‘کے بعد) میرا کہا سچ ثابت ہوا ہے ۔
یہ بھی سچ ثابت ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں جرائم کی شرح اِس سطح پر آ چکی ہے جو پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھی ۔‘‘ٹرمپ کے اِس بیان کے بعد امریکی مسلمانوں اور امریکا میں آنے والے نئے مسلمانوں پر اگر خدانخواستہ نئی اُفتادیں اور آزمائشیں اُمنڈ آتی ہیں تو کہا جائے گا کہ اِس کی دعوت خود شمس الدین جبار ایسے امریکی مسلمانوں نے دی ۔
اسلام تو امن اور سلامتی کا مذہب ہے ۔ سمجھ مگر نہیں آرہی کہ پھر شمالی امریکا اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمان برادری میں جرائم کی شرح کیوں بڑھتی جارہی ہے ؟ امریکی اور مغربی مسلمان اپنے میزبان غیر مسلم ممالک کے لیے امن اور سلامتی کا سمبل کیوں نہیں بن پا رہے ؟ حقائق بڑے ہی تلخ ہیں ۔ مثال کے طور پر رواں لمحوں میں برطانوی جیلوں میں قید مسلمانوں کی شرح 18فیصد ہے (برطانوی جیلوں میں 15ہزار مسلمان قید ہیں) ۔کہا جاتا ہے کہ برطانیہ میں38لاکھ مسلمان بس رہے ہیں ۔
کُل برطانوی آبادی کا قریباً7فیصد۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ برطانوی جیلوں میں بوجوہ زندگی گزارنے والے مسلمانوں کی تعداد بے حد زیادہ ہے۔ امریکی جیلوں میں قید کیے گئے مسلمانوں کی شرح 10فیصد ہے ( امریکی جیلوں میں اِس وقت 1لاکھ 40ہزار مسلمان قید ہیں) ۔ کینیڈا کی جیلوں میں قیدی مسلمانوں کی شرح 8فیصد ہے۔ بطورِ پاکستانی مسلمان بھی ہمیں اِن حقائق پر، بحثیتِ مجموعی، شرمندگی اور ندامت کا اظہار کرنا چاہیے ۔ اِس امر کا کھوج بھی لگانا چاہیے کہ آخر عالمی سطح پر مسلمان کمیونٹی باعزت برادری کا لقب پانے سے کیوں قاصر ہے ؟؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شمس الدین جبار کے امریکی مسلمانوں مسلمانوں کی امریکا میں ا نے والے کے بعد کی شرح کے لیے
پڑھیں:
صدر زرداری اور وزیرِاعظم شہباز شریف نے زور دیا کہ قوم علامہ اقبال کے افکار کی پیروی کرے
صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم محمد شہباز شریف نے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے یوم وفات پر اپنے اپنے پیغامات میں زور دیا کہ قوم علامہ اقبال کے افکار کی پیروی کرے۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ آج ہم پاکستان کے نظریاتی معمار، عظیم مفکر اور شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو ان کی یومِ وفات پر خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اقبال صرف ایک شاعر ہی نہیں، بلکہ ایک ایسے اہل بصیرت رہنما تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا تصور پیش کیا۔ ان کا فلسفۂ خودی اور ان کی شاعری نے نہ صرف تحریکِ پاکستان کو نظریاتی بنیاد فراہم کی بلکہ بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے اندر ایک نئی روح پھونک دی۔
انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال وہ پہلے مفکر تھے جنہوں نے 1930 میں الٰہ آباد کے خطبے میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کا واضح تصور پیش کیا۔ ان کا یہ نظریہ بعد میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں عملی شکل اختیار کر کے وطن عزیز پاکستان کی صورت میں شرمندہ تعبیر ہوا۔ اقبال نے مسلمانوں کو صرف سیاسی طور پر ہی نہیں، بلکہ فکری اور روحانی طور پر بھی متحد کیا۔ اقبال نے بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو اپنی جداگانہ تہذیب، ثقافت اور شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کا پیغام دیا۔
مزید پڑھیں: علامہ اقبال اور شاہ عبد العزیز: ایک فکری رشتہ جو تاریخ نے سنوارا
وزیراعظم نے کہا کہ آج جب پاکستان کو سماجی تقسیم اور عالمی چیلنجز کا سامنا ہے، علامہ اقبال کی تعلیمات ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ انہوں نے علم، عمل، یقینِ محکم اور خود اعتمادی پر زور دیا، جو آج بھی ہماری تمام مشکلات کا حل ہیں۔ ہمیں ان کے فلسفے کو اپناتے ہوئے معاشی خود انحصاری، تعلیمی انقلاب اور قومی یکجہتی کو فروغ دینا ہوگا۔ اقبال کا فلسفہ اور ان کی شاعری ہمیں بتاتی ہے کہ ایک مثالی معاشرہ کیسے تعمیر کیا جا سکتا ہے، جہاں انصاف، محنت اور اخلاقیات کو فوقیت حاصل ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال نے ہمیشہ نوجوانوں کو قوم کا اصل سرمایہ قرار دیا۔ انہوں نے نسل نو کو شاہین سے تعبیر دیتے ہوئے جہدِ مسلسل، حصول علم اور اعلیٰ اخلاقی اقدار اپنانے کی تلقین کی۔ اقبال کے نزدیک نوجوان ہی وہ طاقت ہیں جو قوموں کو زوال سے نکال کر عروج پر پہنچا سکتے ہیں۔ آج کے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اقبال کے پیغام کو سمجھیں، جدید علوم حاصل کریں، اور ملک کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ یہی وہ پیغام ہے جو ہمارے نوجوانوں کو ہر میدان میں کامیابی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اقبال کے خوابوں کو حقیقت بنائیں۔ ہمیں اپنے اندر خودی کو جگا کر، علم و ہنر سے آراستہ ہو کر، اور قومی یکجہتی کو مضبوط کر کے پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانا ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو بااختیار بنانا ہے تاکہ وہ ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکیں۔
مزید پڑھیں: ’ایسا لگا کہ میں اقبال ہوں اور خود کو پینٹ کر رہا ہوں‘
آئیے، اقبال کے یومِ وفات پر ہم عہد کریں کہ ہم اقبال کے نظریات کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں اپنائیں گے اور ایک مضبوط، خودمختار اور ترقی یافتہ پاکستان کی تعمیر کریں گے۔ پاکستان پائندہ باد۔
صدر مملکت آصف علی زرداری کا علامہ اقبال کے یومِ وفات کے موقع پر پیغامصدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ آج ہم شاعرِ مشرق اور مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کا یومِ وفات عقیدت و احترام سے منا رہے ہیں۔ آج ہم علامہ اقبال کی سیاسی اور فکری خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ علامہ اقبال کے افکار، فلسفہ، اور شاعری ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ ہمیں اپنی انفرادی و قومی زندگی میں پیغامِ اقبال پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال محض ایک شاعر نہ تھے، بلکہ وہ ایک مفکر اور مصلح بھی تھے۔ علامہ اقبال نے ملتِ اسلامیہ کے زوال کا درد محسوس کیا۔ علامہ اقبال نے امت کو بیدار کرنے کے لیے اپنے افکار و اشعار کو ذریعہ بنایا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے 190 ملین پاؤنڈز سے دانش یونیورسٹی بنائیں گے، وزیراعظم شہباز شریف
صدر کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال کی شاعری خودی، اجتہاد، عشق حقیقی، حریتِ فکر، اور ملت کی نشاۃِ ثانیہ جیسے تصورات پر محیط ہے۔ اقبال کے نزدیک، امتِ مسلمہ کی نجات صرف سیاسی آزادی میں نہیں، بلکہ فکری و روحانی بیداری میں مضمر ہے۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کو علم، بصیرت، خوداعتمادی اور دینِ حق کے اصل پیغام کی طرف بلایا، علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی سمت کے تعین میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔
صدر زرداری نے مزید کہا کہ علامہ اقبال نے 1930 کے خطبۂ الہٰ آباد میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا۔ علامہ اقبال کی سیاسی سوچ مسلمانوں کی جداگانہ شناخت کی عکاس تھی۔ سماجی، معاشی اور فکری چیلنجز کے پیشِ نظر ہمیں اقبال کی تعلیمات کو مشعلِ راہ بنانا ہوگا۔
صدر نے زور دیا کہ آئیے، عہد کریں کہ علامہ اقبال کی تعلیمات اور فکر پر عمل پیرا ہوں گے۔ عہد کریں کہ پاکستان کو ایک ایسا ملک بنائیں گے جہاں تمام شہریوں کو آزادی، سماجی و معاشی انصاف اور ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
21 اپریل شہباز شریف صدر زرداری علامہ اقبال