Express News:
2025-04-22@20:35:45 GMT

جُھوٹ کی تباہ کاریاں

اشاعت کی تاریخ: 9th, January 2025 GMT

سب جانتے ہیں کہ بے بنیاد باتوں کو لوگوں میں پھیلانے، جھوٹ بولنے اور افواہ کا بازار گرم کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ ہاں! اتنی بات تو ضرور ہے کہ یہی جھوٹ، چاہے جان کر ہو، یا اَن جانے میں ہو، کتنے لوگوں کو ایک آدمی سے بدظن کردیتا ہے، لڑائی، جھگڑا اور خون خرابہ کا ذریعہ ہوتا ہے۔

 کبھی تو بڑے فسادات کا سبب بنتا ہے اور بسا اوقات پورے معاشرے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں کے سامنے آتی ہے، تو وہ بھی لوگوں کی نظر سے گر جاتا ہے، اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔

جھوٹ کیا ہے؟

لفظ جھوٹ کو عربی زبان میں ’’کذب‘‘ کہتے ہیں۔ خلافِ واقعہ کسی بات کی خبر دینا، چاہے وہ خبر دینا جان بوجھ کر ہو، یا غلطی سے ہو، جھوٹ کہلاتا ہے۔(المصباح المنیر)

 اگر خبر دینے والے کو اس بات کا علم ہو کہ یہ جھوٹ ہے، تو وہ گناہ گار ہوگا، پھر وہ جھوٹ اگر کسی کے لیے ضرر کا سبب بنے، تو یہ گناہِ کبیرہ میں شمار کیا جائے گا، ورنہ تو گناہِ صغیرہ ہوگا۔

قرآن کریم میں جھوٹوں کا انجام:

ارشادِ خداوندی کا مفہوم: ’’اور جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل درآمد مت کیا کر، کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے اس سب کی پوچھ ہوگی۔‘‘

انسان جب بھی کچھ بولتا ہے تو اﷲ کے فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں، پھر اسے اس ریکارڈ کے مطابق اﷲ کے سامنے قیامت کے دن جزا و سزا دی جائے گی۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے، مفہوم: ’’وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا، مگر اس کے پاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار ہے۔‘‘ یعنی انسان کوئی کلمہ جسے اپنی زبان سے نکالتا ہے، اسے یہ نگراں فرشتے محفوظ کرلیتے ہیں۔ یہ فرشتے اس کا ہر ایک لفظ لکھتے ہیں، خواہ اس میں کوئی گناہ یا ثواب اور خیر یا شر ہو یا نہ ہو۔

رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’انسان بعض اوقات کوئی کلمۂ خیر بولتا ہے، جس سے اﷲ تعالیٰ راضی ہوتا ہے، مگر یہ اس کو معمولی بات سمجھ کر بولتا ہے، اس کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ اس کا ثواب کہاں تک پہنچا کہ اﷲ تعالیٰ اس کے لیے اپنی رضائے دائمی قیامت تک کی لکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح انسان کوئی کلمہ اﷲ کی ناراضی کا (معمولی سمجھ کر) زبان سے نکال دیتا ہے، اس کو گمان نہیں ہوتا کہ اس کا گناہ کا وبال کہاں تک پہنچے گا؟ اﷲ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس شخص سے اپنی دائمی ناراضی قیامت تک کے لیے لکھ دیتے ہیں۔ ‘‘ (ابن کثیر)

جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ ہے اور یہ ایسا گناہِ کبیرہ کہ قرآن کریم میں، جھوٹ بولنے والوں پر اﷲ کی لعنت کی گئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: مفہوم: ’’لعنت کریں اﷲ کی ان پر جو کہ جھوٹے ہیں۔‘‘

حدیث شریف میں جھوٹ کی مذمت:

جیسا کہ مندرجہ بالا قرآنی آیات میں جھوٹ اور بلا تحقیق کسی بات کے پھیلانے کی قباحت و شناعت بیان کی گئی ہے، اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی اس بدترین گناہ کی قباحت و شناعت کھلے عام بیان کی گئی ہے۔ ایک حدیث میں یہ ہے کہ جھوٹ اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے، لہٰذا اﷲ کے رسول ﷺ نے جھوٹ کو ایمان کا منافی عمل قرار دیا ہے۔ مفہوم: ’’حضرت صفوان بن سلیمؓ بیان کرتے ہیں: اﷲ کے رسول ﷺ سے پوچھا گیا: کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘ پھر سوال کیا گیا: کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘ پھر عرض کیا گیا: کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’ نہیں‘‘ (اہلِ ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا)۔

ایک حدیث شریف میں جن چار خصلتوں کو رسول کریم ﷺ نے نفاق کی علامات قرار دیا ہے، مفہوم: ’’جس میں چار خصلتیں ہوں گی، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں کوئی ایک خصلت پائی جائے، تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، تا آں کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو دھوکا دے اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے۔‘‘

مفہوم: ’’جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بدبو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہوجاتا ہے۔‘‘

مفہوم: ’’یقیناً! جھوٹ بُرائی کی راہ نمائی کرتا ہے اور بُرائی جہنم میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے، تا آں کہ اﷲ کے یہاں ’’کذّاب‘‘ (بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا) لکھا جاتا ہے۔‘‘

مفہوم: ’’یہ ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو، جس حوالے سے وہ تجھے سچا سمجھتا ہے، حال آں کہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘

’’حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کیا میں تمہیں وہ گناہ نہ بتلاؤں جو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑے ہیں؟ تین بار فرمایا۔ پھر صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ہاں! اے اﷲ کے رسول ﷺ!۔ پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اﷲ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ پھر آپ ﷺ بیٹھ گئے، جب کہ آپ ﷺ (تکیہ پر) ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر فرمایا: ’’خبردار! اور جھوٹ بولنا بھی۔‘‘ (کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ ہے)۔

صرف یہی نہیں کہ ایسا جھوٹ جس میں فساد و بگاڑ اور ایک آدمی پر اس جھوٹ سے ظلم ہو رہا ہو، وہی ممنوع ہے، بلکہ لطف اندوزی اور ہنسنے ہنسانے کے لیے بھی جھوٹ بولنا ممنوع ہے۔ اﷲ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: مفہوم: ’’وہ شخص برباد ہو جو ایسی بات بیان کرتا ہے، تاکہ اس سے لوگ ہنسیں، لہٰذا وہ جھوٹ تک بول جاتا ہے، ایسے شخص کے لیے بربادی ہو، ایسے شخص کے لیے بربادی ہو۔‘‘

جھوٹ بولنا حرام ہے:

شریعتِ مطہرہ اسلامیہ میں جھوٹ بولنا اکبر کبائر (کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ) اور حرام ہے، جیسا کہ قرآن و احادیث کی تعلیمات سے ثابت ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مفہوم: ’’پس جھوٹ افترا کرنے والے تو یہ ہی لوگ ہیں، جو اﷲ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہ لوگ ہیں پورے جھوٹے۔‘‘

ارشادِ خداوندی کا مفہوم ہے: ’’اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا جھوٹا زبانی دعویٰ ہے، ان کی نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ فلاں چیز حلال ہے اور فلاں چیز حرام ہے، جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اﷲ پر جھوٹی تہمت لگا دو گے، بلاشبہ! جو لوگ اﷲ پر جھوٹ لگاتے ہیں، وہ فلاح نہ پائیں گے۔‘‘

چند مواقع پر جھوٹ کی اجازت:

شخ الاسلام ابو زکریا محی الدین یحییٰ بن شرف نوویؒ اپنی مشہور کتاب: ’’ریاض الصّالحین‘‘ میں ’’باب بیان ما یجوز من الکذب‘‘ کے تحت رقم طراز ہیں:

’’آپ جان لیں کہ جھوٹ اگرچہ اس کی اصل حرام ہے، مگر بعض حالات میں چند شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بات چیت مقاصد (تک حصول) کا وسیلہ ہے، لہٰذا ہر وہ اچھا مقصد جس کا حصول بغیر جھوٹ کے ممکن ہو، وہاں جھوٹ بولنا حرام ہے۔ اگر اس کا حصول بغیر جھوٹ کے ممکن ہی نہ ہو، وہاں جھوٹ بولنا جائز ہے۔ پھر اگر اس مقصد کا حاصل کرنا ’’مباح‘‘ ہے، تو جھوٹ بولنا بھی مباح کے درجے میں ہے۔ اگر اس کا حصول واجب ہے تو جھوٹ بولنا بھی واجب کے درجے میں ہے۔

چناں چہ جب ایک مسلمان کسی ایسے ظالم سے چھپ جائے، جو اس کا قتل کرنا چاہتا ہے، یا پھر اس کا مال چھیننا چاہتا ہے اور اس نے اس مال کو چھپا کر کہیں رکھ دیا ہو، پھر ایک شخص اس حوالے سے سوال کیا جاتا ہے (کہ وہ شخص یا مال کہاں ہے؟) تو یہاں اس (شخص یا مال) کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے۔ اسی طرح کسی کے پاس امانت رکھی ہوئی ہو، ایک ظالم شخص اس کو غصب کرنا چاہتا ہے، تو یہاں بھی اس کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے۔

زیادہ محتاط طریقہ یہ ہے کہ ان صورتوں میں ’’توریہ ‘‘ اختیار کیا جائے۔ توریہ کا مطلب یہ ہے کہ (بولنے والا شخص) اپنے الفاظ سے ایسے درست مقصود کا ارادہ کرے، جو اس کے لحاظ سے جھوٹ نہ ہو، اگرچہ ظاہری الفاظ اور مخاطب کی سمجھ کے اعتبار سے وہ جھوٹ ہو۔ اگر وہ شخص ’’توریہ‘‘ سے کام لینے کے بہ جائے صراحتاً جھوٹ بھی بولتا ہے، تو یہ ان صورتوں میں حرام نہیں ہے۔‘‘

جھوٹ اعتماد و یقین کو ختم کردیتا ہے:

مذکورہ بالا استثنائی صورتوں کے علاوہ ہمیں جھوٹ بولنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ہے، لہٰذا جھوٹ بولنا دنیا و آخرت میں سخت نقصان اور محرومی کا سبب ہے۔ جھوٹ اﷲ رب العالمین اور نبی کریم ﷺ کی ناراضی کا باعث ہے۔ جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے، جو دوسری بیماریوں کے مقابلے میں بہت عام ہے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے جھوٹ کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ اس جھوٹ سے انھوں نے کیا پایا اور کیا کھویا ؟ جب لوگوں کو جھوٹے شخص کی پہچان ہوجاتی ہے، تو لوگ اس کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔ جھوٹ بولنے والا شخص کبھی کبھار حقیقی پریشانی میں ہوتا ہے، مگر سننے والا اس کی بات پر اعتماد نہیں کرتا۔ ایسے شخص پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے، کیوں کہ وہ اپنے اعتماد و یقین کو مجروح کرچکا ہے۔

حرفِ آخر:

جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ لوگوں کے درمیان لڑائی، جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ دو آدمیوں کے درمیان عداوت و دشمنی کو پروان چڑھاتی ہے۔ اس سے آپس میں ناچاقی بڑھتی ہے۔ اگر ہم ایک صالح معاشرہ کا فرد بننا چاہتے ہیں، تو یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم لوگوں کو جھوٹ کے مفاسد سے آگاہ اور باخبر کریں، جھوٹے لوگوں کی خبر پر اعتماد نہ کریں، کسی بھی بات کی تحقیق کے بغیر اس پر ردّعمل نہ دیں۔

اگر ایک آدمی کوئی بات آپ سے نقل کرتا ہے تو اس سے اس بات کے ثبوت کا مطالبہ کریں۔ اگر وہ ثبوت پیش نہیں کرپاتا تو اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دیں اور اسے دھتکار دیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں، مفہوم: ’’نبی اکرم ﷺ کو جھوٹ سے زیادہ کوئی عادت ناپسند نہیں تھی، چناں چہ آپؐ کو اگر کسی کے حوالے سے یہ معلوم ہوجاتا کہ وہ دروغ گو ہے، تو آپؐ کے دل میں کدورت بیٹھ جاتی اور اس وقت تک آپؐ کا دل صاف نہیں ہوتا، جب تک یہ معلوم نہ ہوجاتا کہ اس نے اﷲ سے اپنے گناہ کی نئے سرے سے توبہ نہیں کرلی ہے۔‘‘

(مسند احمد، بہ حوالہ احیاء العلوم)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اﷲ کے رسول ﷺ اﷲ تعالی حرام ہے کا سبب بات کی اور اس کے لیے ہے اور

پڑھیں:

یہودیوں کا انجام

دنیا ایک بار پھر ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں حق اور باطل کی جنگ واضح ہو چکی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر بہنے والا معصوم خون، بچوں کی لاشیں، ماں کی آہیں اور بے گھر ہوتے خاندان ہمیں ایک بار پھر اس یاد دہانی کی طرف لے جا رہے ہیں کہ ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو اللہ کی پکڑ بھی قریب آ جاتی ہے۔ آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ ایک روحانی اور ایمانی آزمائش بھی ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق یہودیوں کا ماضی، حال اور مستقبل واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی سرکشی، ان کی نافرمانیاں اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے ساتھ ان کے سلوک کا بارہا ذکر آیا ہے۔ ان کی فطرت میں دھوکہ، فریب، اور سازش شامل ہے۔ انہوں نے نہ صرف اللہ کے انبیا ء کو جھٹلایا بلکہ انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک وقت کی نشاندہی فرمائی ہے جب یہودیوں کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ اس وقت حق اور باطل کا آخری معرکہ ہو گا جسے ’’ملحمہ کبریٰ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس معرکے میں مسلمان غالب آئیں گے اور اللہ کے وعدے کے مطابق زمین پر عدل اور انصاف قائم ہو گا۔
حدیث مبارکہ میں آتا ہے ۔ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کر لیں، اور مسلمان انہیں قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی پتھروں اور درختوں کے پیچھے چھپیں گے مگر وہ درخت اور پتھر بھی پکار اٹھیں گے: اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آئو اور اسے قتل کرو، سوائے ’’غرقد‘‘ کے درخت کے، کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔(صحیح مسلم: 2922)
یہ حدیث نہ صرف مستقبل کے ایک یقینی واقعے کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ یہودیوں کا انجام عبرتناک ہو گا۔ وہ جہاں بھی چھپیں گے قدرت انہیں بے نقاب کر دے گی۔یہ حدیث ہمیں نہ صرف یہ بتاتی ہے کہ یہودیوں کا انجام تباہی ہو گا بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ اس معرکے میں اللہ کی قدرت براہِ راست کام کرے گی۔ یہاں تک کہ جمادات(درخت اور پتھر) بھی بول اٹھیں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک الہامی سچائی ہے جس پر ہمیں کامل یقین رکھنا ہے کیونکہ یہ بات بات دنیا کے سب سے عظیم ، سچے انسان اور خاتم النبیین جناب محمد الرسول اللہ نے ارشاد فرمائی ہے۔
فلسطین میں ہونے والی نسل کشی انسانی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب بن چکی ہے۔ ہزاروں بچوں، عورتوں اور معصوم لوگوں کا قتلِ عام، ہسپتالوں، مساجد اور سکولوں پر بمباری، اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جنگ صرف زمینی نہیں بلکہ ایمانی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ وہ طاقت کب، کہاں اور کیسے مسلمانوں کو حاصل ہو گی جس کے ذریعے وہ یہودیوں کو شکست دیں گے؟ اس کا جواب بھی قرآن اور سنت میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں’’ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم‘‘ (سورۃ محمد: 7)
ترجمہ: اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔یعنی جب مسلمان دین اسلام پر مکمل عمل پیرا ہوں گے، جب وہ فرقوں، تعصبات، اور دنیاوی لالچ سے نکل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں گے تب ہی اللہ کی نصرت نازل ہو گی۔میرا رب وہ ہے جو تقدیر بھی بدلتا ہے اور حالات بھی۔ غم کا موسم کبھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ مگر یہ معرکہ جسے ہم دیکھ رہے ہیں اس نے نہ صرف دشمن کو بے نقاب کیا ہے بلکہ ہمارے اپنے مسلمان حکمرانوں کو بھی۔ وہ حکمران جن کی زبانیں خاموش، ضمیر مردہ اور آنکھیں بند ہیں۔ جن کے محلات تو چمک رہے ہیں مگر ان کے دل سیاہ ہو چکے ہیں۔ وہ یہودیوں کے سامنے اس لیے جھک چکے ہیں کیونکہ انہیں مسلمانوں کی جانیں اور عزتیں نہیں بلکہ اپنی بادشاہتیں، اپنی دولت اور دنیاوی آسائشیں عزیز ہیں۔یہی معرکہ ہم عام مسلمانوں کے ایمان کا بھی امتحان ہے۔ اربوں کی تعداد میں ہم مسلمان دنیا بھر میں بستے ہیں مگر افسوس کہ ہمارا طرزِ زندگی، ہماری خریداری، ہماری ترجیحات سب اسرائیل کی مدد کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ہم ان ہی یہودی مصنوعات کو خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیل کے فوجی بجٹ میں شامل ہوتا ہے۔ہم میں سے کتنے ہی افراد روزانہ یہودی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم انہی کمپنیوں کی چیزیں خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیلی فوج کے اسلحہ اور بارود پر خرچ ہوتا ہے۔ ہم اپنی لاعلمی، غفلت یا لاپرواہی کے باعث اس ظلم میں شریک ہو رہے ہیں۔ ہم خود اپنے ہاتھوں سے ان ظالموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں جو ہمارے ہی بھائیوں کا خون بہا رہے ہیں۔افسوس، صد افسوس! کہ ہم صرف سوشل میڈیا پر پوسٹس اور احتجاج تک محدود ہو چکے ہیں جبکہ عمل کے میدان میں ہماری موجودگی ناپید ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب سے پہلے خود کو بدلیں، اپنی ترجیحات کو ایمان کی روشنی میں دیکھیں، اور ہر وہ قدم اٹھائیں جو ظالم کی طاقت کو کمزور کرے۔اللہ کی مدد صرف انہی کو حاصل ہوتی ہے جو خود کو اس کے دین کے لیے وقف کرتے ہیں۔ ہمیں آج سے یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم صرف باتوں سے نہیں، بلکہ عمل سے اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اپنے گھر سے، اپنی خریداری سے، اپنی دعائوں سے اور اپنی زندگی کے ہر شعبے میں ہم ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہوں گے۔دنیا اس وقت ظلم، فتنہ اور نفاق کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر جو خون بہایا جا رہا ہے جو لاشیں گرائی جا رہی ہیں اور جو بچے ماں کی گود سے چھینے جا رہے ہیں تاریخِ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک منظم نسل کشی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور دنیا بالخصوص مسلم حکمران تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔یہودیوں کا انجام اللہ کے فیصلے کے مطابق ہونا ہے۔ مگر وہ دن کب آئے گا؟ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم مسلمان کب جاگتے ہیں؟ کب ہم دنیا کی محبت اور موت کے خوف کو ترک کر کے اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں؟ کب ہم قرآن کو صرف ثواب کے لیے نہیں بلکہ رہنمائی کے لیے پڑھنا شروع کرتے ہیں؟یقین رکھیں! وہ وقت ضرور آئے گا جب ہر درخت اور پتھر بھی گواہی دے گا، اور مظلوموں کے آنسو ظالموں کے لیے آگ بن جائیں گے۔یہودیوں کا انجام طے شدہ ہے لیکن اس انجام کو لانے کے لیے ہمارا کردار کیا ہو گا؟ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • گجرات میں بھارتی فضائیہ کا ایک اور طیارہ کر تباہ
  • گجرات میں بھارتی فضائیہ کا ایک اور طیارہ گر کر تباہ
  • غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے نئے حملے ، گھر دھماکوں سے تباہ ، ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ
  • فلسطینی ریڈ کراس نے طبّی کارکنوں پر حملے کی اسرائیلی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیدیا
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • بجلی
  • یہودیوں کا انجام
  • القسام بریگیڈ کا ایک اور مہلک حملہ، اسرائیلی فوجی ہلاک و زخمی، ٹینکس تباہ
  • امریکا کے یمن پر تازہ حملے، مزید شہری جاں بحق، جوابی کارروائی میں امریکی ڈرون تباہ