کابل سے پاکستان کی سرزمین پر کسی صورت دہشت گردی ایکسپورٹ نہیں ہونی چاہیے، حافظ نعیم الرحمن
اشاعت کی تاریخ: 9th, January 2025 GMT
منصورہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے امیر کا کہنا تھا کہ خواہش ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوں، عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے، پی ڈی ایم حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ہی اپوزیشن سے مذاکرات کررہی ہے، دونوں اطراف میں جو بھی طے پائے تحریری شکل میں ہو اور عوام کو مکمل باخبر رکھا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے 17جنوری کو ملک گیر مظاہروں اور آئندہ کا لائحہ عمل دینے کا اعلان کیا ہے۔ منصورہ میں سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف، امیر لاہور ضیاالدین انصاری ایڈووکیٹ، سابق ایم این اے صاحبزادہ طارق اللہ و دیر سے آئی ہوئی قیادت کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طبقاتی اور استحصالی نظام عوام کا خون چوس رہا ہے۔ آئی پی پیز معاہدوں کے خاتمہ سے حکومت کے بقول قومی خزانہ کو ڈیڑھ ہزار ارب تک کا فائدہ ہوا ہے تو بجلی ٹیرف پر عوام کو فائدہ کیوں نہیں دیا جارہا۔ امیر جماعت نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں امن کے لیے افغانستان سے مذاکرات ضروری ہے۔ کابل سے پاکستان کی سرزمین پر کسی صورت دہشت گردی ایکسپورٹ نہیں ہونی چاہیے۔ اسلام آباد اور کابل اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ کرم میں امن کے لیے مرکزی و صوبائی حکومتیں ذمہ داری ادا کریں۔ کے پی اور بلوچستان میں فوجی آپریشن سے مسائل پہلے حل ہوئے نہ اب ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوں۔ انہوں نے کہا عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے، پی ڈی ایم حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ہی اپوزیشن سے مذاکرات کررہی ہے، دونوں اطراف میں جو بھی طے پائے تحریری شکل میں ہو اور عوام کو مکمل باخبر رکھا جائے۔ انہوں نے کہا پی ٹی آئی فارم 45 کے بیانیہ سے دستبردار ہوچکی ہے، ہمارا موقف شروع سے ہی ایک ہے۔ آج بھی یہی مطالبہ ہے کہ فارم 45 پر عدالتی کمیشن بنایا جائے اور جو کامیاب ہوا ہے اسے حکومت دی جائے۔ انہوں نے کہا موجودہ حکمران پارٹیوں نے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے حکومت بنائی، پی پی کو اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کے بغیر کراچی کی میئرشپ نہیں مل سکتی تھی، ایم کیو ایم کی عوام میں کوئی پزیرائی نہیں، طاقتور حلقوں کی جانب سے اس مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے مل کر کراچی کو تباہ کیا، دونوں میں نورا کشتی جاری ہے۔ بلاول بھٹو سوال کرنے کی بجائے جواب دیں کہ وہ رجیم چینج سے لے کر اب تک حکومت میں شریک ہیں، کراچی اور سندھ کے مسائل حل کیوں نہیں ہو رہے؟
امیر جماعت نے کہا کہ تمام اسلامی ممالک اور نظریاتی ملک ہونے پر بالخصوص پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ امریکہ اسرائیلی دہشت گردی اور نسل کشی کا سرپرست ہے، اسلامی ممالک کے حکمران امریکہ کی آشیرباد سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور اسی کے مفادات کا تحفظ بھی کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر قومی موقف میں وحدت کو کشمیریوں کی بھرپور سیاسی و سفارتی مدد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسٹیبلشمنٹ کی انہوں نے کہا کے لیے
پڑھیں:
وقف قانون میں مداخلت بی جے پی کی کھلی دہشت گردی
بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کرتی رہتی ہے یہ نہ صرف مسلمانوں کو ہندوؤں کا دشمن قرار دیتی ہے بلکہ مسلمانوں کو غیر ملکی بھی خیال کرتی ہے۔ برصغیر میں اسلام پھیلانیکا سہرا بزرگان دین کے سر ہے جن کی تعلیمات سے متاثر ہوکر غیرمسلم جوق در جوق مسلمان بنے۔ جہاں تک مسلمان بادشاہوں کا تعلق ہے۔ اسلام کو پھیلانے میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔
حقیقت تو یہ ہے بی جے پی کے پروپیگنڈے کے قطع نظر ہندو مسلمان بادشاہوں سے اتنے مانوس تھے کہ جب 1857 میں انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کی حکومت کو ختم کرنا چاہا تو ہندو ان کے ساتھ تھے اور وہ مسلمانوں کے ساتھ انگریزوں سے لڑے۔
اگر انگریزوں کو ساورکر جیسے غدار ہندوستانی نہ ملتے تو وہ چند سالوں میں ہی ہندوستان سے نکال دیے جاتے مگر اس شخص نے نہ صرف انگریزوں کی غلامی کو قبول کیا بلکہ ان کی ہدایت کے مطابق ہندو مسلمانوں میں خلیج پیدا کی جس کی وجہ سے دونوں قوموں میں دوریاں پیدا کی گئیں۔ ہندو مسلمانوں میں نفرت کی وجہ سے انگریز ہندوستان پر ڈیڑھ سو سال تک حکومت کرتے رہے۔ اسی ساورکر کی وجہ سے ہندوستان میں کئی مسلم دشمن تنظیمیں وجود میں آئیں جن میں راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) بھی ہے۔
بی جے پی دراصل آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے جو اس وقت بھارت میں برسر اقتدار ہے اور مسلمانوں کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے ۔ چند سال قبل یہ متنازعہ شہریت بل متعارف کرا چکی ہے جس کے تحت بھارتی مسلمانوں کو بھارت میں اپنی شہریت ثابت کرنا ہے۔
مسلمانوں نے اس کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور بالآخر بی جے پی حکومت کو اسے موخر کرنا پڑا۔ اسی بی جے پی نے بابری مسجد کو رام جنم بھومی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا اور بالآخر اپنی حکومتی طاقت کے بل پر اس قدیم مسجد کو مندر میں تبدیل کر دیا گیا۔ پھر گائے کاٹنے یا اسے ایذا پہنچانے کے الزام میں درجنوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔
پھر لَو جہاد کا مسئلہ کھڑا کیا اورکئی مسلم نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا۔ پھر دھرم پری ورتن یعنی مذہب کی تبدیلی کی مہم چلائی گئی جس کے تحت مسلمانوں کو ہندو بنانا شروع کیا گیا مگر یہ اسکیم کامیاب نہ ہو سکی اور اسے بند کرنا پڑا۔ اب مسلمانوں کو تنگ کرنے اور سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے وقت کی زمینوں اور جائیدادوں میں مداخلت کی جا رہی ہے۔
اس سلسلے میں ایک بل پیش کر کے لوک سبھا میں پاس کرایا گیا ہے۔ اس بل کو پاس ہونے سے روکنے کے لیے کئی سیکولر سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ لوک سبھا میں اس بل پر ووٹنگ میں اس کی حمایت میں 288 اور مخالفت میں 232 ووٹ آئے۔
ظاہر ہے کہ حکومت نے اپنی اکثریت کی بنیاد پر اس متنازعہ بل کو پاس کرا لیا تھا۔ یہ بل پاس تو ہوگیا ہے مگر مسلمان اس کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ احتجاجی مسلمانوں پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈے حملے کر رہے ہیں تاکہ انھیں چپ کرا دیا جائے مگر مسلمان اس بل کو واپس لینے کے لیے اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کر رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ بل کسی طرح بھی ہندوؤں یا ملک کے خلاف نہیں تھا، یہ ایک خالص مذہبی معاملہ ہے۔ زمینوں کا اللہ کی راہ میں وقف کرنا اور پھر انھیں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنا ایک پرانا نظام ہے۔ وقف زمینوں کی دیکھ بھال ایک بورڈ کے ذمے ہوتی ہے جو وقف بورڈ کہلاتا ہے۔
ایسے وقف بورڈ بھارت کے ہر شہر میں موجود ہیں۔ ان زمینوں کو مدرسے، اسکول، اسپتال، قبرستان، مساجد اور عیدگاہ وغیرہ کے قیام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ وقف قانون میں پہلی دفعہ 1995 میں ترمیم کی گئی تھی اس کے بعد 2013 میں پھر کچھ تبدیلی کی گئی۔ اب نئی ترمیمات نے بل کی شکل ہی بدل دی ہے۔ بی جے پی حکومت نے ان نئی ترمیمات کے ذریعے مسلمانوں کے اختیارات کو کم سے کم کر دیا ہے۔
اب نئی ترمیمات کے ذریعے دو غیر مسلم نمایندے بھی اس کا حصہ ہوں گے۔ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ جب یہ مکمل مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے اور صرف وہی اپنی زمینوں کو وقف کرتے ہیں تو ہندوؤں کو بورڈ میں شامل کرنے کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے۔
اب نئے قانون کے تحت ہر ضلع کا کمشنر پراپرٹی کا سروے کرے گا اور ضلع کا اعلیٰ سرکاری عہدیدار فیصلہ کرے گا کہ کوئی جائیداد وقف کی ہے یا نہیں۔ وقف کے معاملات میں مداخلت پر مسلمانوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ مسلمانوں کے معاملے میں حکومت جو چاہتی ہے سپریم کورٹ بھی وہی فیصلہ دیتی ہے۔
کچھ مسلمان یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ جب مسلمانوں کے معاملات میں ہندوؤں کو دخل اندازی کا موقع دیا جا رہا ہے تو پھر مسلمانوں کو بھی ہندوؤں کے مندروں وغیرہ کی زمینوں کے ٹرسٹ میں شامل کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہو رہا ہے۔
یہی بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی ہے جس سے وہ انتخابات کے وقت سیاسی فائدہ اٹھاتی ہے۔ وہ 15 برس سے مسلم کارڈ کے سہارے ہی حکومت پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔ وقف جیسے مسلمانوں کے مذہبی معاملات پر زیادتی کے سلسلے میں لیاقت نہرو معاہدے کے تحت حکومت پاکستان بھارتی حکومت سے بات کر سکتی ہے مگر افسوس کہ ہماری حکومت بالکل خاموش ہے پھر سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے میڈیا نے بھی بھارتی مسلمانوں کے ساتھ اس زیادتی پر کچھ لکھا اور نہ کہا۔