Islam Times:
2025-04-22@05:59:00 GMT

مغربی کنارے میں نئی صیہونی سازش کا انکشاف

اشاعت کی تاریخ: 9th, January 2025 GMT

مغربی کنارے میں نئی صیہونی سازش کا انکشاف

عبری زبان میں شائع ہونے والے اخبار نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ اسرائیلی، مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے گھر مسمار کر کے انہیں وہاں سے نکال باہر کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں، لکھا کہ ایک اسرائیلی وزیر نے مغربی کنارے کو بھی غزہ کی طرح تباہ کرنے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے ایک طرف غزہ کی پٹی میں مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی شروع کر رکھی ہے جبکہ اب وہ مغربی کنارے میں بھی فلسطینی شہریوں کے خلاف ایسا ہی ظلم شروع کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ عبری زبان میں شائع ہونے والے اخبار ہارٹز نے اپنے ایک کالم میں فاش کیا ہے کہ مغربی کنارے میں مقیم یہودی آبادکار غزہ میں رونما ہونے والے واقعات پر رشک کر رہے ہیں اور صیہونی کابینہ اور فوج سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ جو اقدامات غزہ میں انجام دیے ہیں وہ مغربی کنارے میں بھی انجام دیں۔ ہارٹز میں شائع ہونے والے اس کالم میں مغربی کنارے کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے اور لکھا ہے: "اسرائیل مغربی کنارے کو بھی غزہ کی طرح نابود کر دینا چاہتا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں اسرائیلی کابینہ ایک طرف غزہ میں فوجی موجودگی بڑھانے اور شاید وہاں حکومت قائم کرنے کے لیے اقدامات انجام دے رہی ہے جبکہ دوسری طرف یہودی بستیاں تعمیر کرنے والے ادارے فوج اور کابینہ کی مدد سے مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر میں وسعت لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔" یہ عبری اخبار مزید لکھتا ہے: "اسرائیل کے وزیر خزانہ بزالل اسموتریچ نے ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس کے مطابق مغربی کنارے میں فلسطینی شہر یعنی الفندق، نابلس اور جنین کو شمالی غزہ میں جبالیا کی طرح نابود کر دینے کا مشورہ دیا گیا ہے۔"
 
انتہاپسند صیہونی وزیر اسموتریچ نے اپنے منصوبے میں اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اسرائیل کو مغربی کنارے میں بھی وسیع فوجی آپریشن انجام دینا چاہیے تاکہ مسلح عناصر (فلسطینی مجاہدین) کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا جائے۔ ہارٹز کے کالم میں مزید آیا ہے: "مغربی کنارے میں ایریل ہاوسنگ پراجیکٹ کے سربراہ یائیر شتیپون نے بھی 2002ء کی طرح مغربی کنارے میں وسیع فوجی آپریشن کرنے اور فلسطینی مہاجرین کی رہائش گاہوں کو تباہ کا مطالبہ کیا ہے۔" ہارٹز نے آخر میں اس بات پر زور دیا کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کا عقیدہ ہے کہ تمام فلسطینیوں کو جلاوطن کرنا اور ان کے گھروں کو تباہ کر دینا بہت ضروری ہے تاکہ "دو ریاستی راہ حل" کا امکان پوری طرح ختم ہو جائے۔ چند دن پہلے عبری ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا تھا کہ مغربی کنارے کے شمالی شہر قلقیلیہ میں واقع یہودی بستی کدومیم میں ایک مزاحمتی کاروائی انجام پائی جس میں تین صیہونی ہلاک اور 9 زخمی ہو گئے۔ اس کاروائی نے اسرائیلی حکمرانوں خاص طور پر وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور دیگر وزیروں کو شدید غضبناک کر دیا ہے۔ اسموتریچ نے غصے میں کہا: "مغربی کنارے کے الفندق گاوں اور جنین اور نابلس شہر کو غزہ بنا دینا چاہیے۔"
 
اس سے پہلے بھی صیہونی انتہاپسند وزیر بزالل اسموتریچ نے مغربی کنارے کی وسیع زمینوں پر قبضہ جمانے کا اعلان کیا تھا جو اوسلو معاہدے کے بعد غاصب صیہونی حکمرانوں کا بڑا اقدام ہے۔ عبری ذرائع ابلاغ نے رپورٹ دی تھی کہ یہ اقدام مغربی کنارے پر مکمل قبضہ جمانے کی راہ میں اہم قدم ہے۔ اسی طرح عبری اخبار یدیعوت آحارنوت نے ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ اسرائیل مغربی کنارے میں 22 موبایل ٹاور نصب کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ اقدام مغربی کنارے پر تسلط بڑھانے کے لیے انجام پائے گا۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس پراجیکٹ کے اخراجات اسموتریچ کی زیر سرپرستی ایک فنڈ سے پورے کیے جائیں گے۔ یہ موبایل ٹاور مغربی کنارے میں غصب شدہ زمینوں سمیت فلسطینیوں کی ذاتی ملکیت والی عمارتوں اور زمینوں میں بھی نصب کیے جائیں گے۔ اب تک صیہونی حکمران مغربی کنارے میں غیر قانونی یہودی بستیوں کے اردگرد ایسے موبائل ٹاور تعمیر کر چکے ہیں۔ یدیعوت آحارنوت نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل کا وزیر اقتصاد مغربی کنارے میں 50 مزید زمینوں پر حکومتی قبضے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ وہاں موبائل ٹاور تعمیر کیے جا سکیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: میں بھی نے ایک کی طرح

پڑھیں:

مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی

اسلام ٹائمز: دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔ تحریر: حنیف غفاری
 
ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی اور اسٹنفورڈ یونیورسٹی سمیت کئی چھوٹے اور بڑے تعلیمی مراکز کے خلاف انتہاپسندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے جس کا مقصد ان تعلیمی مراکز سے فلسطین کے حامیوں اور غاصب صیہونی رژیم کے مخالفین کا صفایا کرنا ہے۔ دوسری طرف مغرب میں انسانی حقوق، تعلیمی انصاف اور آزادی اظہار کے دعویداروں نے اس قابل مذمت رویے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بہت سے غیر ملکی طلبہ و طالبات جو مکمل طور پر قانونی طریقے سے امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے اب نہ صرف انہیں تعلیم جاری رکھنے سے روک دیا گیا ہے بلکہ اف بی آئی اور امریکہ کی سیکورٹی فورسز نے انہیں حراست میں رکھا ہوا ہے۔ امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی سمیت ملک کی تمام یونیورسٹیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت میں طلبہ و طالبات کی سرگرمیاں فوراً روک دیں۔
 
امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر زور دیا ہے کہ وہ مغربی ایشیا خطے میں جاری حالات سے متعلق طلبہ و طالبان کو یونیورسٹی کے احاطے میں اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت نہ دیں اور جو طلبہ و طالبان ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کی تمام معلومات سیکورٹی اداروں کو فراہم کریں۔ یوں امریکہ میں یونیورسٹی اور تعلیمی مراکز فوجی چھاونیاں بن کر رہ گئے ہیں۔ امریکہ کی وزارت داخلہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو وارننگ دی ہے کہ اگر اس کی انتظامیہ حکومتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کرتی تو اس کا غیر ملکی طلبہ و طالبات کو داخلہ دینے کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔ امریکہ کی وزارت داخلہ اور وائٹ ہاوس جس انداز میں یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز سے برتاو کر رہے ہیں وہ انسان کے ذہن میں "تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی" کا تصور قائم کر دیتا ہے۔
 
ریاستی دہشت گردی کی آسان تعریف یہ ہے کہ کوئی حکومت سیاسی اہداف کی خاطر عام شہریوں کے خلاف غیر قانونی طور پر طاقت کا استعمال کر کے انہیں خوفزدہ کرے۔ ہم ایک طرف غزہ کی پٹی میں بھرپور انداز میں جاری مسلسل نسل کشی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں شہداء کی تعداد 52 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ غاصب اور بے رحم صیہونی رژیم کی جانب سے شدید محاصرے اور انسانی امداد روکے جانے کے باعث ہر لمحے معصوم بچے شہید ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں امریکی حکمران یہودی لابی آئی پیک کی کاسہ لیسی کی خاطر ملک کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز کو بے حس، خاموش تماشائی بلکہ جرائم پیشہ صیہونی رژیم کی حامی بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ تعلیمی مراکز کے خلاف اس ریاستی دہشت گردی کا سرچشمہ وائٹ ہاوس، نیشنل سیکورٹی ایجنسی اور موساد ہیں۔
 
یہاں ایک اور مسئلہ بھی پایا جاتا ہے جو شاید بہت سے مخاطبین کے لیے سوال کا باعث ہو۔ یہ مسئلہ صیہونی رژیم اور امریکی حکومت کی جانب سے خاص طور پر ہارورڈ یونیورسٹی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اس یونیورسٹی کو ملنے والا 2 ارب کا بجٹ روک دیا ہے۔ یہ کینہ اور دشمنی اس وقت کھل کر سامنے آیا جب غزہ جنگ شروع ہونے کے تین ماہ بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک سروے تحقیق انجام پائی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس یونیورسٹی کے 51 فیصد طلبہ و طالبات جن کی عمریں 18 سے 24 سال تھیں جعلی صیہونی رژیم کے خاتمے اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کے حامی ہیں۔ اس اکثریت کا خیال تھا کہ صیہونی حکمران آمر اور ظالم ہیں جبکہ فلسطینیی ان کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن انجام دینے میں پوری طرح حق بجانب تھے۔
 
اسی وقت سے امریکی حکومت اور صیہونی حکمران ہارورڈ یونیورسٹی اور اس سے متعلقہ اداروں کے خلاف شدید غصہ اور نفرت پیدا کر چکے تھے۔ امریکہ میں صیہونی لابی آئی پیک (AIPAC) نے ہارورڈ یونیورسٹی میں اس سروے تحقیق کی انجام دہی کو یہود دشمنی قرار دے دیا۔ مزید برآں، اس سروے رپورٹ کے نتائج کی اشاعت نے یہودی لابیوں کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ اب سب کے لیے واضح ہو چکا ہے کہ امریکہ میں نئی نسل نہ صرف غاصب صیہونی رژیم کے حق میں نہیں ہے بلکہ اس کے ناجائز وجود کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔ اب صیہونی لابیاں امریکہ کے ایسے یونیورسٹی طلبہ سے انتقام لینے پر اتر آئی ہیں جنہوں نے مظلوم فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی ہے اور کسی قیمت پر بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ بھی اس واضح ناانصافی اور ظلم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
 
دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔

متعلقہ مضامین

  • مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
  • امن خراب کر کے پہاڑوں پر قابض ہونے کا جواز ڈھونڈنے کی سازش ہو رہی ہے، کاظم میثم
  • آر ایس ایس اور بی جے پی مغربی بنگال میں فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دے رہی ہیں, ممتابنرجی
  • جعلی لاگ ان صفحات سے صارفین کی او ٹی پی چوری کا انکشاف
  • وفاق کے خلاف جو سازش کرے گا ہم اس کے خلاف چٹان بن کر کھڑے ہوں گے، راجہ پرویز اشرف
  • سپریم کورٹ پر حملے بی جے پی کی سوچی سمجھی سازش ہے، کانگریس
  • مغربی سامراجی قوتوں نے تاریخ کو کیسے مسخ کیا؟
  • جعلی لاگ ان صفحات کے ذریعے صارفین کی تفصیلات، او ٹی پی چوری کرنیکا انکشاف
  • تحریک انصاف اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی، نامور صحافی کا انکشاف
  • پاکستان کے شامل مغربی علاقوں میں  زلزلے جھٹکے، شدت 5.9ریکارڈ