موجودہ جی ایس ٹی نے عام انسان کی کمر توڑ دی ہے، کانگریس
اشاعت کی تاریخ: 9th, January 2025 GMT
کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے کہا کہ مودی حکومت نے بڑے کاروباریوں کے مفادات کو ترجیح دی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایک جانب جہاں دہلی کے سابق وزیراعلیٰ اروند کیجریوال ریزرویشن کے لئے بھارتی وزیراعظم کو خط لکھنے کی بات کر رہے ہیں اور بی جے پی کی شکایت آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے کر رہے ہیں، وہیں دہلی کی کانگریس اقتدار میں آنے کے بعد عوام کو کس طرح راحت پہنچائی جا سکتی ہے، اس کی بات کر رہی ہے۔ کانگریس نے ابھی تک دو ضمانتوں کا اعلان کیا ہے، جس میں خواتین کو 2500 روپے ماہانہ اور علاج کے لئے ہر دہلی والے کو 25 لاکھ روپے تک مفت علاج کا وعدہ کیا ہے۔ دریں اثنا کانگریس پارٹی نے جی ایس ٹی کے نظام کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے آج ملک کے 12 بڑے شہروں میں بیک وقت پریس کانفرنسز کا انعقاد کیا۔ اسی ضمن میں دہلی میں کانگریس کی جانب سے رکن پارلیمنٹ شکتی سنگھ گوہل نے صحافیوں سے خطاب کیا۔
شکتی سنگھ گوہل نے بتایا کہ کس طرح دہلی کے عام لوگوں سے زیادہ ٹیکس لیا جا رہا ہے اور کارپوریٹ گھرانوں کو ٹیکس میں راحت دی جا رہی ہے۔ انہوں نے موجودہ ٹیکس نظام یعنی جی ایس ٹی کو "ٹیکس دہشت گردی" کا نام دیتے ہوئے کہا کہ عام لوگوں سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ مرکزی حکومت نے غلط جی ایس ٹی لاگو کر کے عوام کی زندگی مشکل میں ڈال دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے نو طرح کے جی ایس ٹی سلیب بنائے ہوئے ہیں جس میں سب سے زیادہ 28 فیصد کا سلیب ہے۔ اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی شخص تھری وہیلر خریدتا ہے تو اس کو 28 فیصد جی ایس ٹی دینا پڑتا ہے جبکہ تھری وہیلر خریدنے والا بھی عام آدمی ہوتا ہے اور تھری وہیلر میں سفر کرنے والے بھی آم آدمی ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سائیکل خریدنے والے کو بھی 12 فیصد جی ایس ٹی دینا پڑتا ہے۔ گوہل نے کہا کہ ایک جانب تو عام انسان سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے دوسری جانب کارپوریٹ گھرانوں کو راحت دی جا رہی ہے۔
اس دوران کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے کہا کہ مودی حکومت نے بڑے کاروباریوں کے مفادات کو ترجیح دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف کانگریس کا مؤقف نہیں بلکہ سرکاری رپورٹوں میں موجود حقائق ہیں۔ کانگریس نے یہ بھی کہا کہ 65 فیصد جی ایس ٹی کے تحت زیادہ تر اشیاء پر زیادہ شرح والے ناقص خراب ٹیکس لاگو ہیں، جبکہ صرف 35 فیصد اشیاء پر کم شرح والے اچھے ٹیکس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ عدم توازن غریب عوام پر اضافی بوجھ ڈال رہا ہے۔ کانگریس نے زور دیا کہ جی ایس ٹی کا ڈھانچہ فوری نظرثانی کا متقاضی ہے تاکہ غریب عوام کو راحت دی جا سکے اور ملک میں اقتصادی مساوات کو فروغ دیا جا سکے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جی ایس ٹی حکومت نے سے زیادہ
پڑھیں:
سوشل میڈیا کی ڈگڈگی
تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چاہے وہ فیس بک کے جلوے ہوں یا انسٹا گرام اور تھریڈزکی شوخیاں، X نامی عجب نگری ہو یا ٹک ٹاک کی رنگینیاں، ایک نقلی دنیا کے بے سروپا تماشوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ میں نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنا ہے، ’’ دنیا بدل گئی ہے‘‘ جب کہ ذاتی طور پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ دنیا کبھی بدل نہیں سکتی ہے۔
دنیا ویسی ہی ہے، زمین، آسمان، سورج، چاند، ندی، دریا، سمندر، پہاڑ، پیڑ، پودوں اور قدرت کے کرشموں سے لیس انسانوں اور جانوروں کے رہائش کی وسیع و عریض پیمانے پر پھیلی جگہ جو صدیوں پہلے بھی ایسی تھی اور آیندہ بھی یوں ہی موجود رہے گی۔
البتہ دنیا والے ہر تھوڑے عرصے بعد اپنی پسند و ناپسند اور عادات و اطوار سمیت تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اُن کی یہ تبدیلی اس قدر جادوئی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات سے جُڑی ماضی کی ہر بات سرے سے فراموش کر بیٹھتے ہیں۔
تبدیلی کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، اس دنیا کے باسی صرف گزری، بیتی باتیں نہیں بھولتے بلکہ وہ سر تا پیر ایک نئے انسان کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
جس کا سیدھا سادہ جواب ہے کہ انسان بے چین طبیعت کا مالک ہے، وہ بہت جلد ایک جیسے ماحول، حالات اور واقعات سے بیزار ہو جاتا ہے۔ ہر نئے دورکا انسان پچھلے والوں سے مختلف ہوتا ہے جس کی مناسبت سے اُن کو نت نئے نام دیے جاتے ہیں، جن میں سے چند ایک کچھ یوں ہیں،
Millennials, G i generation, Lost generation, Greatest generation, Generation Alpha, Silent generation,
Generation Z
یہ سب نام انسان کی ارتقاء کی مناسبت سے اُس کی نسل کو عنایت کیے گئے ہیں، جب ہر دورکا انسان دوسرے والوں سے قدرے مختلف ہے تو اُن کی تفریح کے ذرائع پھر کس طرح یکساں ہوسکتے ہیں۔تاریخِ انسانی کے اوائل میں مخلوقِ بشر داستان گو سے دیو مالائی کہانیاں سُن کر اپنے تصور میں ایک افسانوی جہاں تشکیل دے کر لطف اندوز ہوتی تھی، وہ دنیاوی مسائل سے وقتی طور پر پیچھا چھڑانے کے لیے انھی داستانوں اور تصوراتی ہیولوں کا سہارا لیتی تھی۔
چونکہ انسان اپنی ہر شے سے چاہے وہ فانی ہو یا لافانی بہت جلد اُکتا جاتا ہے لٰہذا جب کہانیاں سُن سُن کر اُس کا دل اوب گیا تو وہ خود افسانے گھڑنے لگا اور اُسے اس کام میں بھی خوب مزا آیا۔ دراصل داستان گوئی کا جو نشہ ہے، ویسا خمارکہانی سننے میں کہاں میسر آتا ہے مگر انسان کی بے چین طبیعت نے اس شوق سے بھی زیادہ عرصے تک اُس کا جی بہلنے نہ دیا اور بہت جلد وہ داستان گوئی سے بھی بیزار ہوگیا پھر وجود میں آئے انٹرنیٹ چیٹ رومز جہاں بِن دیکھے لوگ دوست بننے لگے، جن کی بدولت’’ ڈیجیٹل فرینڈ شپ‘‘ کی اصطلاح کا جنم ہوا اور اس طرح تفریح، مزاح، لطف کی تعریف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔
زمانہ حال کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ماضی کے اُنھی انٹرنیٹ چیٹ رومز کی جدید شکل ہیں، ان بھانت بھانت کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے آج پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہوا ہے اور تقریباً ہر عمر و طبقے کا انسان اپنی زندگی کا بیشمار قیمتی وقت ان پر کثرت سے ضایع کر رہا ہے۔ پہلے پہل انسان نے تفریح حاصل کرنے کی نیت سے داستان سُنی پھر افسانے کہے اور اب خود جیتی جاگتی کہانی بن کر ہر روز سوشل میڈیا پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس خود ساختہ کہانی کا مرکزی کردار وہ خود ہی ہوتا ہے، جو انتہائی مظلوم ہوتا ہے اور کہانی کا ولن ٹھہرتا ہے ہمارا سماج۔
دورِ حاضر کا انسان عقل و شعور کے حوالے سے بَلا کا تیز ہے ساتھ کم وقت میں کامیابی حاصل کرنے میں اُس کا کوئی ثانی نہیں ہے مگر طبیعتاً وہ بہت خود ترس واقع ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد نے جہاں انسان کو افسانوی دنیا کی کھڑکی فراہم کی ہے وہیں اُسے انگنت محرومیوں کا تحفہ بھی عنایت فرمایا ہے۔
زمانہ حال کا انسان سوشل میڈیا پر دکھنے والی دوسرے انسانوں کی خوشحال اور پُر آسائش زندگیوں سے یہ سوچے بغیر متاثر ہو جاتا ہے کہ جو دکھایا جا رہا ہے وہ سچ ہے یا کوئی فرد اپنی حسرتوں کو وقتی راحت کا لبادہ اُڑا کر اُس انسان کی زندگی جینے کی بھونڈی کوشش کر رہا ہے جو وہ حقیقت میں ہے نہیں مگر بننا چاہتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بہت کم ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو دنیا کو اپنی حقیقی شخصیت دکھانے پر یقین رکھتے ہوں۔ سوشل میڈیا پرستان کی جیتی جاگتی تصویر ہے، دراصل یہ وہ جہاں ہے جدھر ہر جانب فرشتہ صفت انسان، عدل و انصاف کے دیوتا، سچ کے پجاری، دوسروں کے بارے میں صرف اچھا سوچنے والے، ماہرِ تعلیم، حکیم، نفسیات شناس اور بندہ نواز موجود ہیں۔
حسد، جلن، نظر بد کس چڑیا کا نام ہے، اس سے یہاں کوئی واقف نہیں ہے، سب بنا مطلب دنیا کی بھلائی کے ارادے سے دوسروں کی اصلاح میں ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔جب کوئی فرد کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا حصہ بنتا ہے تو اُسے استقبالیہ پر ایک مکھوٹا پیش کیا جاتا ہے جسے عقلمند انسان فوراً توڑ دیتا ہے جب کہ بے عقل اپنی شخصیت کا اہم جُز بنا لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تب اپنی اندرونی کیفیات کو من و عن ظاہرکردیتا ہے جب کہ دکھ کی گھڑیوں میں اپنے حقیقی جذبات کو جھوٹ کی رنگین پنی میں لپیٹ کر خوشی سے سرشار ہونے کی بڑھ چڑھ کر اداکاری کر رہا ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا اپنے صارفین کو اُن کے آپسی اختلافات کے دوران حریفِ مقابل پر اقوالِ زریں کی مار کا کھلم کھلا موقع بھی فراہم کرتا ہے، ادھر کسی کی اپنے دوست سے لڑائی ہوئی اُدھر طنز کی چاشنی میں ڈوبے اخلاق کا سبق سموئے نرم گرم جملے اُس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دکھائی دینے لگتے ہیں۔
انسان کو سوشل میڈیا پر ملنے والے دھوکے بھی دنیا والوں سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اب چاہے وہ اپنے شناسا لوگوں سے ملیں یا اجنبیوں سے، کڑواہٹ سب کی ایک سی ہی ہوتی ہے۔ جوش میں ہوش کھونے سے گریزکرنے والے افراد ہی سوشل میڈیا کی دنیا میں کامیاب گردانے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز قطعی برے نہیں ہیں بلکہ یہ تو انسانوں کے بیچ فاصلوں کو کم کرنے، بچھڑے ہوئے پیاروں کو ملانے، نئے دوست بنانے اور لوگوں کو سہولیات پہنچانے کی غرض سے وجود میں لائے گئے تھے۔
چونکہ انسان ہر اچھی چیزکا بے دریغ استعمال کرکے اُس کے تمام مثبت پہلوؤں کو نچوڑ کر اُس کی منفیت کو منظرعام پر لانے میں کمال مہارت رکھتا ہے لٰہذا یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ انسان جب تک تفریح اور حقیقت کے درمیان فرق کی لکیرکھینچنا نہیں سیکھے گا تب تک وہ بندر کی طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی ڈگڈگی پر ناچ کر خود کا اور قوم بنی نوع انسان کا تماشا بنواتا رہے گا۔