فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: قید تنہائی میں رکھے مجرموں سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش
اشاعت کی تاریخ: 9th, January 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے سپریم کورٹ میں مجرمان کو قید تنہائی میں رکھنے سے متعلق رپورٹ پیش کر دی۔
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے سرپم کورٹ کو بتایا کہ کہا کہ مجرمان کو صبح ساڑھے سات بجے ناشتے کے بعد لان ، میں چھوڑ دیا جاتا ہے، شام پانچ بجے تک مجرمان باہر رہتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے ،استفسار کیا کہ لان کونسا ہے ڈیتھ سیل والا لان تو نہیں ہے۔
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ نہیں سر یہ وہ والا لان نہیں جو آپ نے دیکھا ہوا ہے، جیل میں ٹک شاپ ہے کافی وغیرہ بھی پی سکتے ہیں ،گھر سے مجرمان کو میٹرس بھی دیئے گئے ہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ کا مطلب ہے گھر والا ماحول ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آپ نے غلط بیانی کی تو ہم جیل اصلاحات کمیٹی سے بھی رپورٹ منگوا لیں گے۔
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ مجھے تیس سال پریکٹس کرتے ہوگئے ہیں میں کیوں جھوٹ بولوں گا، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میں بھی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل رہ چکی ہوں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سپریم کورٹ: زیادتی کیس کے ملزم کی سزا 20 سال سے کم کر کے 5 سال کر دی گئی
—فائل فوٹوسپریم کورٹ آف پاکستان نے زیادتی کیس میں ملزم کی سزا 20 سال سے کم کر کے 5 سال کر دی۔
عدالتِ عظمیٰ نے ملزم حسن خان کو دفعہ 496 بی کے تحت مجرم قرار دیا۔
جسٹس شہزاد احمد نے اکثریتی فیصلے میں لکھا کہ واقعے کا مقدمہ 7 ماہ کی تاخیر سے درج کیا گیا تھا، متاثرہ خاتون نے واقعے کے وقت مزاحمت نہیں کی، طبی معائنے میں تشدد یا مزاحمت کے نشانات سامنے نہیں آئے، کیس زبردستی زیادتی کا نہیں بنتا۔
جسٹس صلاح الدین نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا، اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس صلاح الدین نے لکھا کہ متاثرہ لڑکی کی عمر تقریباً 24 سال تھی، واقعے کے نتیجے میں بچہ پیدا ہوا، جس کی تصدیق ڈی این اے رپورٹ سے ہوتی ہے، جنسی جرائم کے مقدمات میں تاخیر غیر معمولی بات نہیں، معاشرتی دباؤ اور خوف کے باعث متاثرہ خاتون رپورٹ درج کروانے میں تاخیر کر سکتی ہے، اسلحے کی موجودگی میں مزاحمت نہ ہونا فطری عمل ہو سکتا ہے، 7 ماہ بعد طبی معائنہ مزاحمت کے نشانات ظاہر نہیں کر سکتا، زیادتی ثابت نہ ہونے سےخود بخود رضا مندی ثابت نہیں ہوتی، صرف سزا کم کرنے کے لیے جرم کی دفعہ تبدیل نہیں کی جا سکتی۔
خیال رہے کہ ٹرائل کورٹ نے ملزم کو 20 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی تھی، جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔